امن عالم تو فقط دامنِ اسلام میں ہے

انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں سرفہرست مذہب ہے


[email protected]

انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں سرفہرست مذہب ہے۔اس کے بغیر زندگی پراگندہ ہے، عقلی تجزیہ اور تاریخی تجربہ دونوں اس حقیقت کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں کہ مذہب کے بغیر انسانی زندگی سکون اور امن و امان سے نہ کبھی مالا مال ہوئی نہ ہو گی۔ تاریخ کے شہرۂ آفاق محقق و مورخ پروفیسر آرنلڈ جے ٹائن بی ''تاریخ جدید انسان کو خبردارکرتی ہے'' میں بڑی تفصیل سے مادی تہذیب کی ناکامی پر آنسو بہاتے ہوئے کہتے ہیں:

''جو مسائل ہمیں درپیش ہیں وہ اخلاقی مسائل ہیں اور سائنس اخلاق کے دائرے میں کوئی دخل نہیں رکھتی۔ اپنے اخلاقی اور تمدنی مسائل کو خالص مادی تدابیر سے حل کرنے کی ہماری تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اپنی معاشرتی بیماریوں کو خدا کے بغیر حل کرنے کے تباہ کن نتائج ہمارے سامنے آ چکے ہیں۔''

برٹرینڈ رسل بھی آرنلڈ کی رائے سے متفق نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں ''یہ اب واضح ہو گیا ہے کہ اگر صرف دنیاوی خوشی کو مقصد زندگی بنا دیا جائے تو اس میں فرد کو مادی خوشحالی اور دنیاوی سکون کا حصول بھی ناممکن ہے ہاں اگر سیکولر ازم سے بلند کوئی روحانی مقصد سامنے رکھا جائے تو ایک ضمنی نتیجے کے طور پر انسان کو دنیاوی خوشی بھی حاصل ہو سکتی ہے۔''

مادی تہذیب کے پیدا کردہ خطرناک نتائج کو دیکھ کر خود اہل مغرب خوفزدہ ہیں۔ پورے مغرب کو دوزخ نے گھیر لیا ہے۔ ہر فرد ذہنی پریشانی کی آگ میں جل رہا ہے۔ خودکشی کر رہاہے۔ معیارِ زندگی برقرار رکھنے کی خاطر اپنی عزت اور عصمت کے انمول موتی چاندی کے چند سکوں کی خاطر لٹا رہا ہے۔ شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ چکا ہے۔ لیکن پھر بھی ذہنی سکون اور اطمینانِ قلب میسر نہیں۔ پروفیسر ساروکن اپنی شہرۂ آفاق کتاب ''ہمارے زمانے کا بحران '' میں لکھتے ہیں۔

''ہماری زندگی کا ہر شعبہ ہماری تنظیم اور ہماری سوسائٹی ایک زبردست بحران سے گزر رہی ہے جسم کا کوئی حصہ قلب و دماغ کا کوئی ریشہ ایسا نہیں جو صحیح طور پر کام کر رہا ہو۔ ہمارے سارے بدن میں ناسور ہیں'' فرانسیسی مصنف اوریس سورارن اپنے معاشرے کی حالت زار دیکھ کر رو پڑا اور اس کے آنسو ان الفاظ میں ڈھل گئے ۔ ''انسانیت کا احترام دلوں سے مٹ چکا ہے۔ زندگی اپنی حقیقی قدروقیمت کھوچکی ہے اور درندگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے'' مسز ہڈسن شا اپنی تہذیب کی پیش گوئی اس طرح کر رہی ہیں۔ ''ہماری تہذیب کی عمارت کی دیواریں منہدم ہونے کو ہیں۔ اس کی بنیادوں میں ضعف آ گیا ہے۔ اس کے شہتیر ہل رہے ہیں۔ نہ معلوم یہ ساری عمارت کب پیوندِ خاک ہو جائے۔''

E.M.Joad اپنی تہذیب پر اس طرح غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں ''ہم نے فضا میں پرندے کی طرح اڑنا سیکھ لیا ہے۔ پانی پر مچھلی کی طرح تیرنا سیکھ لیا ہے لیکن انسانوں کی طرح رہنا ہم نے نہیں سیکھا'' ظاہری خوشحالی اور اضافۂ پیداوار اور دولت کی کثرت کے باوجود اہل مغرب آج گہری تشویش اوراضطراب میں مبتلا ہیں یہ اعتراف USA کے سابق انڈرسیکریٹری آف اسٹیٹ جارج ڈبلیو ہال کا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ''براعظم یورپ کا نفسیاتی تجزیہ کسی کے امکان میں نہیں لیکن یورپ کی ذہنی بے چینی، روحانی پریشانی، قلبی بے اطمینانی، نامعلوم اندیشے اورانجان خوف کا دباؤ اتنا نمایاں ہے کہ اسے ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں آج یورپی اقوام کا معیار زندگی خاصا بلند ہے لیکن کوئی مطمئن اور خوش نظر نہیں آتا۔''

جنگ عظیم دوم (1945) کے بعد کوئی بھی ایسا خوش قسمت سال نہیں ہے، جس میں دنیا میں امن کی خوش خبری ملی ہو اور انسان خونریزی میں سرگرم نہ رہا ہو۔ 1945 سے 2017کے دوران مہینے تو بڑی بات ہے صرف دنوں کے اعتبار سے ہم ان 72 سالوں یعنی 26280 دنوں میں وہ خوش نصیب دن صرف 26 ہیں عقل کی امیری، عقل کی وزیری کا نعرہ لگانے والا سرکش اور باغی انسان آگ اور خون سے اس طرح لطف اندوز ہو رہا ہے جیسے کوئی بچہ پھلجڑی چھوڑ کر مزے لیتا ہے۔ بقول اے کے بروہی ''اگر جوہری جنگ کے نتیجے میں انسان تباہ کاریوں کے ملبے میں دفن ہو گیا اس کے لوح مزار پر یہ کتبہ لکھا ہو گا۔ حد سے زیادہ عقلمند ہونا حماقت ہے۔''

جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چیزکو جہاں کہیں انسان نے کھایا۔ اس کے پیٹ میں درد ضرور ہوا تو اس تجربے سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ فی الواقع معدے کی ساخت اور اس کی طبیعت (نیچر) سے یہ چیز مناسبت نہیں رکھتی۔ بالکل اسی طرح جب یہ حقیقت ہے کہ انسان نے مذہب کو الوداع کہہ کر بحیثیت مجموعہ نقصان ہی اٹھایا تو یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیکولر ازم حقائق زندگی مسائل زندگی اور فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ عقل انسانی جو مادیت کی راہ پر کچھ عرصے پہلے بڑے نازوانداز کے ساتھ خوشی میں مگن چلی جا رہی تھی۔

راستہ کے پیچ و خم دیکھ کر حیران و پریشان ہے کہ بے خدا ہوکر جن منزلوں تک پہنچنے کی امید تھی وہ باوجود طویل سفر کے اب پہلے سے بھی زیادہ دور نظرآتی ہیں۔ امن وسکون، معاشرتی عمل، اطمینانِ قلب، ذہنی سکون اور چین وآرام کی منزلوں کا دور دور تک نام ونشان نظر نہیں آتا۔ ''خدا ہی ملا نہ وصال صنم'' بلکہ جوں جوں دوا کی جارہی ہے تو توں ظلم، استحصال، قتل وغارت گری، دہشتگردی، خودکشی، نسل کشی، درندگی اور ذہنی امراض بڑھتے جا رہے ہیں۔ مذہب کو عوام کی افیون قرار دے کر منزل مقصود لاحاصل رہی۔

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پیشماں کا پشیمان ہونا

اہل مغرب کی مذہب سے جذباتی نفرت، چڑ اور ضد ختم ہوتی جا رہی ہے۔ مذہب کی طرف لوٹنے کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ آپ کوئی معیاری کتاب اٹھاکر دیکھ لیں اس میں مذہب کی آہٹ صاف سنائی دے گی، کوئی معیاری رسالہ پڑھ کر دیکھ لیں مذہب کی یاد اور ذکر میں ڈوبا ہوا نظر آئے گا اور سیکولر ازم کو خطرے کی گھنٹی دلائل کے ساتھ ثابت کرتا نظر آئے گا۔

یہ ٹھیک وہ لمحہ ہے جس میں انسان مذہب کی ضرورت کو نہایت شدت سے محسوس کر رہا ہے۔ لیکن آج کے سائنٹفک انسان کے لیے صرف وہی مذہب قابل قبول ہو سکتا ہے جو (1) عقل کے خلاف نہ ہو (2) اوہام اور تعصب سے بلند و بالا ہو (غیر فطری عبادات و اعمال کا طلب گار نہ ہو (4) مکمل ضابطۂ حیات ہو۔ ان معیارات پر پرکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب کامل ہے جو دورحاضرکی ضرورتوں کو کما حقہہُ پورا کر سکتا ہے۔ موجودہ انسان کی بیماریاں اگر دور ہو سکتی ہیں تو صرف اسلام سے اور انسانیت کی فلاح اگر ممکن ہے تو اسلامی نظام کو بحیثیت کل اپنانے سے۔

بقول اقبال:

مزدکی ہوکہ فرنگی خیالِ خام میں ہے

امن عالم تو فقط دامن اسلام میں ہے

مادیت کی بھڑکائی ہوئی آتشِ نمرود کو ایمان ابراہیمی ٹھنڈا کرنے کی پوری تاثیر رکھتا ہے۔ جھوٹ، مکر، فریب اور بے اعتمادی کی فضا ختم کرنے کے لیے ایمان صدیقیؓ پوری تاثیر رکھتا ہے، ظلم، بے انصافی اور غربت کو ختم کرنے کے لیے ایمانِ فاروقیؓ پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ قتل و غارت گری روکنے کے لیے ایمان عثمانیؓ کافی ہے۔ سود کے مضبوط دروازے کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایمان علیؓ پوری قوت رکھتا ہے اور سارے عالم میں امن و سلامتی کی خوش گوار فضا قائم کرنے کے لیے ایمان محمدؐ بس ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں