اوپر سے یا نیچے سے
نواز شریف اور عمران خان کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہے
نواز شریف اور عمران خان کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہے۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں کم کم ہی ہوا ہے۔ لاہور کے کرکٹ میدان سے شروع ہونے والی معرکہ آرائی اب پاناما لیکس کے معاملے کو لے کر سپریم کورٹ تک آگئی ہے۔ 1992 کے ورلڈ کپ کے موقع پر دونوں ایک پچ پر تھے۔ عمران فاتح ٹیم کے کپتان کے طور پر ہر دلعزیزی کی انتہا پر تھے تو نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیراعظم تھے۔ لیاقت، بھٹو اور بے نظیر کے بعد مقبول ترین پرائم منسٹر۔ عمران کی تحریک انصاف کے قیام نے دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل کردیا۔ دونوں لاہوری جانتے تھے کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں داخلے کے لیے پانچ دریاؤں کی پاک سرزمین پر کامیابی لازمی ہے۔
زندہ دلوں کے شہر میں پڑھنے اور بڑھنے والے اس طرح کے حریف بھی کہ پاکستان کی تاریخ کے جھروکوں سے ایسے مناظر سے مورخ کم ہی آشنا ہے۔ جب لیاقت علی خان پاکستان کے وزیراعظم تھے تو ان کے مقابل اپوزیشن کمزور تھی۔ سہروردی بنگال تک، دولتانہ پنجاب تک، تو قیوم خان صوبہ سرحد تک محدود تھے۔ کراچی سے چٹاگانگ تک کوئی ایسا رہنما نہ تھا جو وزیراعظم کی شخصیت کے مقابل آسکے۔ خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور ملک فیروز خان نون اپنی ذاتی حیثیت میں ملک گیر شخصیت نہ تھے جیسے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان۔ لیاقت کو کسی طاقتور سیاست دان سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ ویسی ہی صورت حال بھٹو کے ساتھ تھی۔
مفتی محمود، قیوم خان، ولی خان، نواب زادہ نصر اﷲ خان، مولانا مودودی، مولانا شاہ احمد نورانی سمیت کوئی بھی شخصیت ملک گیر مقبولیت کی حامل نہ تھی۔ اصغر خان نے بھٹو کے مقابل آنے کی کوشش کی۔ وہ 1977کے انتخابات اور تحریک کے دوران ہر دلعزیز تھے۔ کرشماتی شخصیت ہونے کے باوجود اصغر خان مقبولیت کے حوالے سے ذاتی ووٹ بینک نہ بناسکے۔ یوں بھٹو نے عوامی سطح پر وہ مقام پایا کہ دور دور تک ان کے مقابل کوئی دکھائی نہ دیا۔نواز شریف اور بے نظیر کا نوے کا عشرہ دو مقابل سیاست دانوں کی محاذ آرائی کا عشرہ تھا۔ دونوں کے درمیان کچھ فرق تھا جو آج کل کی سیاست کے بڑوں کے درمیان مٹ ہی چکا ہے۔
ایک مرد تو ایک عورت، ایک لاہور کا تو دوسری لاڑکانہ کی، ایک سرمایہ دار خاندان کا فرد تو دوسری کا پس منظر جاگیردارانہ۔ بے نظیر کے والد اور دادا سیاست دان تھے جب کہ نواز شریف کوچہ سیاست میں داخل ہونے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے۔ پی پی اور لیگ کا پچھلی صدی کے آخر میں مقابلہ پنجاب کے میدانوں میں ہوا تھا۔ نواز شریف سے جیالوں کی برابر کی ٹکر ہو یا جب جب اہل پنجاب نے دونوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تو سندھ میں محفوظ ووٹ بینک کی بدولت بے نظیر وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوگئیں۔
7 دسمبر 2007 کو پنڈی کے جلسے میں بے نظیر اس قدر خوش کیوں تھیں؟ وہ سمجھ گئی تھیں کہ اہل پنجاب نے بھٹو کی بیٹی کو تنہا نہیں چھوڑا۔ یوں وہ اندازہ لگارہی تھیں کہ رائے ونڈ سے پنجاب میں برابر کی ٹکر کے باوجود سندھ کی بدولت وہ قائد ایوان بن جائیں گی۔اب پنجاب کے میدانوں میں محاذ آرائی کے لیے دو لاہوری ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ کامیاب کون ہوگا؟ وہ جو عوام کے آنسو پونچھنے کی کوشش میں کامیاب ہوگا۔ دونوں اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ پاکستان کی قسمت کو بدل کر رکھ دیںگے۔ فرق کیا ہے؟
ایک اوپر سے پانی برساکر عوام کو خوشحالی کی برسات میں نہلانا چاہتا ہے تو دوسرا نیچے سے فرہاد کی طرح نہر کھود کر عوام کو سیراب کرنا چاہتا ہے۔ آئیں ہم پاکستان کی دو مقبول ترین شخصیات کے معاشی وژن کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ خوشحالی کیوں ملے گی؟ اوپر سے یا نیچے سے؟ بارش برساکر یا نہر کھودکر؟نواز شریف کے ذہن میں شیر شاہ سوری ہیں جس نے سڑکوں کا جال بچھادیا تھا۔ پانچ سال تک حکومت کرنے والے کو پانچ صدیوں کے بعد بھی یاد رکھا جارہا ہے۔
رائے ونڈ کا خیال ہے کہ سڑک کسی بھی شہری کو پورے ملک سے جوڑ دیتی ہے۔ اس سے کارخانے قائم ہوتے ہیں اور لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ بڑے بڑے منصوبوں میں بڑی بڑی کمیشن ملتی ہے۔ عمران کہتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں بننے والے منصوبے اس سے کہیں سستے ہوتے ہیں جتنے کہ موجودہ حکمرانوں کے زیر اقتدار ٹھیکیداروں کو دیے جاتے ہیں۔ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھادینا مسلم لیگ کا معاشی وژن ہے۔
عمران کا کہناہے کہ سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں ہوتی۔ ان کی رائے ہے کہ پیسہ عوام پر براہ راست خرچ ہونا چاہیے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے تحریک انصاف کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ لیگ کا اعتراض ہے کہ اگر پل اور سڑکیں بنانا اتنا ہی برا ہے تو عمران کی پارٹی خیبر پختونخوا میں کیوں بڑی بڑی رقمیں موٹر وے بنانے پر خرچ کررہی ہے۔ یہ ہے دو سیاسی پارٹیوں کا معاشی وژن۔ سڑکوں کے ذریعے قوم کو جوڑنے کی بات ایک طرف ہورہی ہے تو دوسری طرف قوم کو ایک کردینے کو ترجیح قرار دینے کی بات ہورہی ہے۔ اوپر سے نیچے کی طرف ہونے والی ترقی کے دعوے دار مسلم لیگ ن کے سربراہ ہیں۔
ایسا ہی نعرہ ایوب خان کا تھا۔ انھوں نے بھی معاشی ترقی کے لیے بجلی اور ڈیمز کے ذریعے ترقی کی بنیاد رکھی تھی۔ آج بھی ایوب کو ترقی کے حوالے سے یاد رکھا جارہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایوب پاکستانیوں کو ایک قوم نہ بناسکے۔ ان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ بنگال کا الزام تھا کہ ان کی رقم سے اسلام آباد کی سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہیں اور دونوں میں اپنا اپنا وزن ہے۔پنجاب میں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک اپنے لیڈر کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں کوشاں ہیں۔ دونوں مقامات پر تعریف و تنقید ہمارے سامنے ہے۔
چلو فیصلہ آنے والے انتخابات میں ہوگا اور حتمی فیصلہ مورخ کرے گا۔ سندھ ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ نہ اوپر سے ترقی کرنے کا وژن ہے اور نہ نیچے سے۔ کراچی کی تو نہ صوبائی کابینہ میں نمایندگی ہے اور نہ وفاقی کابینہ میں۔ سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگر اندرون سندھ کے نمایندے اپنے حلقہ انتخاب کو ہی ترقی دے دیتے تو تھوڑی سی اشک شوئی ہوجاتی۔ لاڑکانہ پر نو برسوں میں نوے ارب روپے لگتے کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریکارڈ پر ہیں کہ سات گھر تو ڈائن بھی چھوڑدیتی ہے۔ یہی صورتحال بلوچستان کی ہے۔ مشرف کے آٹھ برسوں اور جمہوری حکومتوں کے آٹھ برسوں میں بلوچستان کو کئی سو ارب روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر دیے گئے وہ عوام پر خرچ یا عوامی نمایندوں کی جیبوں میں گئے؟ اس سوال پر سندھ و بلوچستان کے ووٹرز کو ضرور سوچنا چاہیے۔ اندھے سیاسی مقلد بن جائیں یا پٹھانوں کی طرح ہر انتخاب میں بہت کچھ نہ کرنے والی حکومتوں کو نکال باہر کرنا ہے؟''مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا'' اس بات کو پختونوں کی طرح بلوچ اور سندھی بھی سمجھ جائیں تو ان کی آنے والی نسلوں کا بھلا ہوجائیگا۔
دو صوبے ترقی کی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں اور دو صوبے اپنے اپنے وژن کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ مورخ ہاتھ میں قلم تھامے اور ذہن میں نواز شریف اور عمران کو رکھے ہوئے کچھ لکھنے کو بیتاب ہوگا۔ وہ فیصلہ کریگا کہ کس کا وژن کامیاب رہا۔ اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر۔ سڑکیں اور پل بناکر یا صحت و تعلیم پر پیسہ خرچ کرکے ترقی کیونکر ہوتی ہے؟ برسات کی طرح پانی برساکر یا فرہاد کی طرح نہر کھود کر ترقی کیونکر اوپر سے یا نیچے سے؟