آسماں بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمین
گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک بھرکی تین درجن درگاہیں دہشت گردی کا نشانہ بنیں
قومی سطح کی بعض سروے رپورٹیں جہاں غورطلب، فکرانگیز، پریشان کن، حیران کردینے اور فوری عمل کرنے کا مشورہ دیتی ہیں، وہیں متعلقہ لوگوں یا اداروں کے کرتا دھرتاؤں کوخبردارکرنے کا باعث بھی بنتی ہیں اور انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے بھی ہوتی ہیں۔
ایسی ہی ایک سروے رپورٹ جنوبی ایشیائی ممالک میں دہشت گرد کارروائیوں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک ''ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل'' کے حوالے سے سامنے آئی ہے، جس کے مطابق پاکستان میں 2003 سے 2016 تک 13 سال کے دوران دہشت گردکارروائیوں اور بم دھماکوں میں 21 ہزار 489 شہری اور 6663 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوچکے ہیں۔اسی عرصے کے دوران 33345 دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ ہلاکتوں کے حوالے سے 2011-12 اور 2013 مہلک ترین سال تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں 2002 سے 16 فروری 2017 تک 451 خودکش بم دھماکوں میں 6929 افراد شہید ہوگئے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران ملک بھرکی تین درجن درگاہیں دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔ اسلامی ریسرچ سینٹر کے مطابق 2005 سے تاحال صوفی بزرگوں کی درگاہوں پر 29 حملوں کے نتیجے میں 500 سے زائد افراد جاں بحق جب کہ 1500 کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔ صوفی بزرگوں کی پاک و ہند میں تبلیغی خدمات کا سلسلہ گزشتہ ایک ہزارسال پر محیط ہے اور غریب سے لے کر امیر تک لاکھوں انسان ان درگاہوں پرحاضری دیتے ہیں۔
پاکستان میں صوفی بزرگوں کے درباروں پر ہونے والے حملوں میں گزشتہ ہفتوں سیہون شریف کے مزارکا حملہ سب سے شدید تھا جس میں 92 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ اس کے ساتھ ملک بھرکے مختلف شہروں میں آگے پیچھے ہونے والے بم دھماکوں کی لہر نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ پانچ دنوں میں نو دہشت گردی کی کارروائیوں نے ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے قیام پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے اور ملک پر ٹوٹ جانے والی یہ قیامت صغریٰ ہماری قومی زندگی کے ان گنت پہلو بے نقاب کرگئی۔
اس سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ میں غارت گر اور غارت گری ہمیشہ چہرے بدلتی رہتی ہے لیکن اس کے بہانے کم وبیش وہی پرانے رہے ہیں اور یہ بھی غلط نہیں کہ انسان اپنی زندگی میں جس چیز سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ خود ''زندگی'' ہے، لیکن ہمارے ارباب اختیار عوام الناس کی زندگی بچانے سے معذور ہوچکے ہیں، یہی وقت کی حقیقت ہے۔ کاش انھیں اس بات کا ادراک ہوپاتا کہ ملک و معاشرے کی تعمیر محض دوسروں پر تنقید، حکومتوں پر لعن طعن یا اپنی حکومت کے گن گانے سے نہیں ہوتی۔ اس کے لیے معاشرے کے اجتماعی مزاج میں خوداحتسابی کی حس کا ہونا بھی لازمی ہے جو دوسروں پر تنقید سے پہلے اسے اپنا جائزہ لینے کے قابل بھی بنادے۔
افسوس برسہا برس سے ہمارے سیاسی قائدین، حکمران اقتدار کے حصول کے لیے جھوٹ سچ کی بنیاد پر اپنا سودا بیچ رہے ہیں اور بے بس، لاچار اور اختیار عوام کی لاچارگی اس سے بڑھ کرکیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں، اپنی نسلوں کی تباہی اور ان کے خاتمے کا کھیل اپنی ہی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اورکچھ نہیں کر پا رہے۔
''نیشنل سیکیورٹی پلان'' کے حوالے سے ہمارے ارباب اختیار نے طویل عرصے سے بوجوہ صرف نظر کر رکھا ہے یا اس معاملے میں لچک پیدا کر رکھی ہے۔ حالانکہ ہم سبھی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی ہر لچک ہر سمجھوتے اور ہرکمزوری کی ایک انتہا ہوتی ہے اور جب انسان اور قومیں اس انتہا کے قریب جاتی ہیں تو ان کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی اصل جڑیں افغانستان میں ہیں جہاں امریکا، روس، اسرائیل اور بھارت جیسے طاقتور ہاتھ اس فعل بد میں مصروف ہیں اورانھی کی ایما، ان ہی کی پشت پناہی پر یہ ساری تباہی پاکستان میں پھیلائی جا رہی ہے اور ہمارے بھولے بھالے حکمران آج تک افغان حکومت کو قائل نہیں کرسکے کہ وہ ان کے ہاں موجود دہشت گردی کے اڈوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کارروائی کرے۔ اس سچائی سے بھی پوری عالمی برادری واقف ہے کہ افغان حکومت ہر دور میں اسرائیل، امریکا اور بھارت کی ایجنٹ رہی ہے اور ان ہی کی ایماپر یا ان کی خوشنودی کے لیے یہ ساری دہشت گردی اپنے ہاں سے کروا رہی ہے۔
جس طرح نائن الیون کے سانحے سے پہلے القاعدہ کا نام شاید ہی کسی نے سنا ہو اس طرح چار سال قبل داعش کے نام سے کوئی بھی آگاہ نہیں تھا، القاعدہ کی طرح داعش اسلامی ممالک کے خلاف صلیبی جنگ کا لفظ استعمال کرنے والے ایک بڑے ملک نے استعمال کیا اس کے بعد پاکستان، افغانستان، عراق، شام، مصر، لیبیا اور یمن سمیت اسلامی ملکوں میں خون مسلم کی ارزانی پیدا کردی گئی ہے، پاکستان میں خودکش حملے پاکستان دشمن ہمسایہ ممالک اپنے آقا ملک کے اشارے پر کرا رہے ہیں اور ان خودکش حملوں سے دہرے فائدے اٹھانے کے لیے کوشاں ہیں اور بالخصوص وطن عزیز میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کے لیے دو بڑے فقہوں کے مابین اختلاف پیدا کررہا ہے حالانکہ ان صوفی بزرگوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں قائداعظم سے بھرپور تعاون کیا اور ان درگاہوں نے جنوبی ایشیا میں اسلام وعیسائیت میں ہم آہنگی مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ہمارے ارباب اختیارکواب بھی عقل کے ناخن لے لینے چاہئیں اورافغانستان سے آنے والے پرندوں تک کو پاکستان کی طویل مسام دار بارڈر پر روکنا وطن کے رکھوالوں اور حکمرانوں کا ہی فرض بنتا ہے، حالانکہ ہماری افواج نے بڑی حد تک دہشتگردوں کی بیخ کنی کردی ہے لیکن بھارت مختلف راستوں سے اپنے ایجنٹ پاکستان بھیج رہا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کی طرف سے بار بار لشکروں اور خودکش بمباروں سمیت دہشتگردوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا ایک جانب افغانستان سمیت پڑوسی ملکوں کے ساتھ ساتھ ایسا نظام بنانا ضروری ہے جس سے دراندازی روکنے میں مدد ملے، دوسری طرف نئی دہلی سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کے ساتھ اس کے دیرینہ مذموم ہتھکنڈوں سے چوکنا رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ محکمہ پولیس اور دیگر حساس سیکیورٹی اداروں کی اہمیت اور قربانیوں کا موثر اعتراف کیا جانا بھی ازبس ضروری ہے، جس کا صائب طریقہ یہ ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو مکمل طور پر سیاسی دباؤ سے آزاد کرکے دیانت داری سے کام کرنے کی فضا فراہم کی جائے، سول ملٹری تعلقات، تصورات کا فرق اوران میں یگانگت وقت کی اصولی ضرورت ہے۔
ریاستی اداروں یعنی مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا میں ہم آہنگی بھی ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اتفاق باہمی کی بھی اشد ضرورت ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے کروڑوں عوام کے استحصال کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے۔ اس کا حال اور مستقبل سبھی ہمارے ارباب اختیار کی ناقص حکمت عملیوں کی لگائی آگ میں جھلس کر راکھ ہونے کو ہے۔ عوام کی حفاظت طاقتور سے لے کر ناتواں حکومتوں کی اولین ذمے داری ہے اور ہمارے ہاں یہ ذمے داری 70 برسوں سے کسی بندے (عام آدمی) کے لیے ادا نہیں کی گئی۔ معاشرتی ناہمواریوں کا خاتمہ کیے بغیر اگر کوئی ملک کے تحفظ یا اس کے سدھارکا دعویٰ کرتا ہے تو یہ محض احمقانہ خیال ہی کہلایا جائے گا۔