برما کے مظلوم روہنگیا مسلمان

اس بھیانک صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل نے مطالبہ کیا ہے۔


سردار قریشی February 22, 2017

LOUISVILLE: نومبر 2015ء میں ہوئے عام انتخابات سے چند روز قبل،آنگ سان سوچی سے سوال کیا گیا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو وہ مسلم اقلیت روہنگیا کے ساتھ طویل عرصے سے ہونے والی زیادتیوں کی تلافی کس طرح کریں گی۔ انھوں نے جواب دیا ''ایک برمی کہاوت ہے، تمہیں بڑے مسائل چھوٹے بنانے اور چھوٹے مسائل غائب کرنے ہیں۔''

نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے بھاری اکثریت سے انتخاب جیتنے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں روہنگیا مسلمانوں کا بڑا مسئلہ صرف اور بڑا ہی ہوا ہے۔ مغربی صوبے رخائن میں، جہاں زیادہ تر روہنگیا مسلمان آباد ہیں،فسادات پھوٹ پڑے اور آنگ سان سوچی، جن کو پہلے ہی ان کے مصائب سے لاتعلق بنے رہنے کا مورد الزام ٹھہرایا جارہا تھا،خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

مغربی میڈیا کے مطابق ان پر اس حوالے سے ہونے والی تنقید بجا ہے بھی اورنہیں بھی، کیونکہ این ایل ڈی کی حکومت سخت مشکل میں ہے۔ وہ اپنے خلاف الزام تراشیوں کا ذمے دار سماجی کارکنوں اور میڈیا کو ٹھہراتی ہے جب کہ وہ خرابی کا سارا ملبہ اورگند اس پر ڈالتے ہیں۔ان کی اس لے دے کا نتیجہ رخائن میں حالات کے مزید بگڑنے کی صورت میں نکلا ہے۔

آنگ سان سو چی کو، مغربی میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق، یہ مسئلہ ورثے میں ملا ہے جوکئی عشروں پر محیط فوجی راج میں پیدا ہوا تھا اوراگر روہنگیا مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ ان کی مددکریں تو انھیں بھی ان کی مجبوریوں کو سمجھنے کی گنجائش نکالنا ہوگی۔

کئی عشروں تک رہنے والی کشیدگی کے بعد، 2012ء میں ہونے والے نسلی فسادات نے رخائن میں آباد مسلمانوں اوربدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان فاصلے بڑھادیے۔ ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ لوگ، جن میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی، صوبے کے اندر بے گھر ہوئے۔ 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں میں سے اکثرکے پاس نہ تو شہریت ہے اورنہ شناختی کاغذات۔ شمالی رخائن میں نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کے باعث لوگوں کو کام پر جانے، بنیادی سہولتیں حاصل کرنے اورمذہبی فرائض ادا کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ سنگین صورتحال گزشتہ اکتوبر میں مزید بگڑگئی جب بنگلہ دیش سے ملنے والی میانمارکی سرحدی چوکیوں پر ہونے والے حملوں میں سرحدی محافظ پولیس کے 9 اہلکار مارے گئے اور اس کا ذمے دار مقامی روہنگیا مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا جنھیں مبینہ طور پر مشرق وسطیٰ سے غیر ملکی تربیت یافتہ روہنگیا گروپ کی مدد حاصل تھی۔ میانمارکی فوج نے جو ٹیٹماڈا کہلاتی ہے، اس کا جواب بے رحمانہ آپریشن سے دیا جس کے دوران صرف مونگڈا قصبے میں کوئی ڈیڑھ ہزارعمارتوں کو نذر آتش کیا گیا، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق لاتعداد لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے علاوہ بیشمار خواتین کی آبروریزی کی گئی۔

سرکاری فوج کے اس بہیمانہ سلوک کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق 65 ہزار مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرگئے۔ سرکاری میڈیا نے بھی تسلیم کیا کہ بہت سے لوگ مرے ہوئے پائے گئے۔ حکومت نے البتہ سیکیورٹی فوج کی طرف سے کسی بھی قسم کی زیادتی کی سختی سے تردیدکی۔ صدرکے دفتر سے ان کے ترجمان نے تو تردیدی بیان جاری کیا ہی، آنگ سان سوچی نے بھی فوجیوں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے واقعات کو جھوٹ اورمن گھڑت قرار دیا۔

اس بھیانک صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ میانمارکے شہریوں کی حیثیت سے روہنگیا مسلمانوں کے حقوق بحال کیے جائیں اور تنازعے کی اصل وجوہات دور کرکے انھیں ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں منظورکی گئی قرارداد اور اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کو بے مثل بحران قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ہونے والی مسلسل زیادتیوں پر تشویش کا اظہارکیا گیا۔

اجلاس میں پاکستانی وفدکی قیادت وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کی۔ قرارداد میں مسلمان ملکوں اور باقی بین الاقوامی برادری پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں بھرپور مداخلت کرتے ہوئے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کو نہ صرف انسانی بنیادوں پر امداد مہیا کریں بلکہ میانمار پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان پر ڈھائے گئے مظالم کی تلافی کے لیے اقدامات کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم کا ایک اعلیٰ سطح وفد حالات کا جائزہ لینے کے لیے میانمار بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں دیے گئے بیان میں سرتاج عزیز نے میانمار میں جمہوری حکومت کو اقتدارکی منتقلی کا خیرمقدم کیا اورحکومت کی طرف سے کوفی عنان فاؤنڈیشن کے تعاون سے رخائن صوبے کے مسئلے پر مشاورتی کمیشن بنائے جانے کو سراہا۔ انھوں نے میانمار سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو فسادات سے متاثرہ علاقوں میں جاکرکام کرنے کی اجازت دے اوراسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ تعاون کرے ۔کشمیر اور فلسطین کی طرح دنیا بھر میں ظلم وبربریت کا شکار مسلمانوں کے لیے پاکستان کی مسلسل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے انھوں نے یاد دلایا کہ پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں کے لیے بارہا آواز بلندکی ہے۔ انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے لیے 50 لاکھ ڈالرمالیت کے چاول کے عطیہ کا بھی اعلان کیا۔

غیرمعمولی اجلاس کے شرکاء سے اپنے کلیدی خطاب میں ملیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ مسئلے کے تصفیے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ ادھر اخبارنیویارک ٹائمزکے نامہ نگار نے بنکاک سے اپنے مراسلے میں میانمار کی سرحدی چوکیوں پر ہونے والے حملے کو باغی گروپ کی جانب سے اپنی موجودگی کا اعلان قرار دیا ہے جس میں چاقوؤں اورغلیلوں سے مسلح سیکڑوں روہنگیا مسلمانوں نے '' تنگ آمد بجنگ آمد ''کے مصداق حساب برابرکرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بڑی تعداد میں ہتھیاروں اورگولہ بارود پر بھی قبضہ کرلیا۔

ایک 28 سالہ باغی روہنگیا نے فون پر نامہ نگارکو بتایا کہ حکومت ہمیں ٹارچرکررہی ہے، ہمارا مقصد اپنے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور بس، ہم وہی کررہے ہیں جو ہمیں کرنا چاہیے۔ اخبارکی رائے میں مسلح مزاحمت کا آغاز ان بہت سی تبدیلیوں میں سے ایک ہے جو میانمارکی مسلم اقلیت کے مسئلے پر تنازعے کو نیا رخ دے رہی ہے اور جس کے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

سرحدی چوکیوں پر حملہ کرنے والے گروپ ''حرکت الیقین'' کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ اس کے رضاکاروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے اور اسے بھرپورعوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے اس میں اپنی ایک رپورٹ کے ذریعے یہ اضافہ کیا ہے کہ اس گروپ کو سعودی عرب اور پاکستان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ برما کے ان مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے لیے انسانی اور سیاسی بنیادوں پر حمایت میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے اوراسلامی دنیا میں روہنگیا کو جنوبی ایشیا کے فلسطینی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال تنازعے کے بڑھنے اور بین الاقوامی مسئلے کا روپ دھارنے کے خطرے کی نشاندہی کرتی ہے۔

تجزیہ کار یہ خدشہ بھی ظاہرکرتے ہیں کہ روہنگیا مسلم اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم اسلامی کاز بن کر غیر ملکی جہادیوں کے لیے کشش کا باعث بن سکتے ہیں،اگر ایسا ہوتا ہے اور ان جہادیوں نے میانمارکا رخ کیا تو سیاحت کے شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے علاوہ یہ فوج کو دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کا جواز بھی فراہم کر سکتا ہے۔ دنیا نے گزشتہ کئی عشروں سے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زارکی طرف سے جس طرح آنکھیں بند کر رکھی تھیں اس کا منطقی نتیجہ ایسے ہی کسی المیے کی صورت میں نکلنا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں