ہمارا انوکھا اور لاڈلا قانون
عدالت کرپٹ نہیں لیکن عوام کا اعتماد ہمارے ادارے سے اٹھنا شروع ہوگیا ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا یہ کہنا کہ عدالت کرپٹ نہیں لیکن عوام کا اعتماد ہمارے ادارے سے اٹھنا شروع ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا کہ کراچی پولیس کو رینجرز کے سہارے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور پولیس ایکٹ 1861ء اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پولیس کو ''فورس کے بجائے ''خدمت گار'' بنانے پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ اور سندھ پولیس کے چیف کے یہ بیان پورے ملک اور خاص طور پر ہماری سول سوسائٹی کے کمزور نظام پر عوام کے کمزور اعتماد کو تقویت دینے کا باعث ہی کہے جاسکتے ہیں اور دونوں صاحب رائے کے تجزیے بلاشبہ حقائق پر مبنی ہیں، اور اس کی روشنی میں ایسی اصلاحات ناگزیر بلکہ اولین ضرورت ہیں جو عدلیہ اور پولیس کو اعتماد بخش سکیں اور کسی بیساکھی کے بغیر امن وامان کو مستقل طور پر قائم رکھنے کے لائق بناسکیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا میں لا اینڈ آرڈر اورانصاف ''معیشت'' کی بنیاد ہوتا ہے اور جس ملک میں عدالتی نظام مضبوط نہ ہو اور لا اینڈ آرڈر نہ ہو اس ملک میں سونے کے پہاڑ بھی لوگوں کو خوشحالی نہیں دے سکتے۔ سچے معیشت دان جانتے ہیں کہ اگر ملک میں امن وامان ہو تو لوگ پیازکے ساتھ سوکھی روٹی کھا کر بھی خوش رہ سکتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جس ملک میں حکومت باضمیر اور ایمان دار ججوں کے دروازے پر پولیس بٹھا دے، اس ملک میں ترقی اور خوشحالی نہیں آسکتی۔
حکومتیں بنانے اور چلانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ معیشت کے جس درخت کو لا اینڈ آرڈر کی کھاد نہ ملے اس کی شاخوں پر پھل نہیں لگتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں معیشت کے درختوں کے سارے پتے جھڑچکے ہیں، ساری شاخیں برہنہ ہوچکی ہیں اور اس درخت پر کوے تک گھونسلہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جس معیشت کی بنیادوں میں انصاف کا سیمنٹ اور امن وامان کی اینٹیں نہیں ہوتیں وہ معیشت ہواؤں کی گدگدی اور مکھیوں کا بوجھ تک برداشت نہیں کرپاتی، وہ 18 کروڑ انسانوں کو عزت نفس، انصاف اور سکون فراہم نہیں کر سکتی۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہم سبھی قاتلوں کے معاشرے میں زندہ ہیں۔ ہمارے ہاں سرے سے کوئی ایسا نظام ہوکر بھی نہیں رائج ہوسکا جس سے کوئی بھی کبھی بھی غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کا سوچ پاتا۔ ہمارے ہاں کتے اور گدھے کا گوشت بکتا ہے۔ منشیات قانون نافذ کرنے والے ادارے کی سرپرستی میں فروخت کی جاتی ہے۔ گندے پانی سے سبزیاں اگائی جاتی ہیں، جانوروں کی آلائش سے گھی اور تیل بنایا جاتا ہے، غلیظ قسم کا اچار خطرناک کیمیکل سے تیار کرکے بیچا جاتا ہے۔ آلودہ اور مضر پانی ہمارے عوام خود کو پینے پر مجبور پاتے ہیں اور ہر طرف اس حوالے سے خاموشی کی چادر تنی رہتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہیپا ٹائٹس، معدے اور جگر کے ساتھ ساتھ کینسرکا مرض لاحق ہو رہا ہے اور سالانہ ڈیڑھ لاکھ افراد ہیپاٹائٹس اور ایک لاکھ افراد کینسر میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں کے ہاضمے ملک ہضم واقع ہوئے ہیں، آدھا پاکستان وہ کھا گئے، بڑے بڑے ملکی ادارے کھا گئے ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں اتنے پیسے رکھے کہ بینک کی جگہ ناکافی ہوگئی لہٰذا اربوں روپے گھروں سے برآمد ہونے لگے ہیں۔
ملکی منظرنامے پر سرسری نگاہ بھی کی جائے تو صاف طور پر پتا چلتا ہے کہ ہر بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے جرم کی پشت پناہی ہمارے یہی لاڈلے قانون کے رکھوالے ہی کر رہے ہیں، یہ جرم کی سرزمین پر شفاف پانی اور بہترین کھاد کا سا کام برسہا برس سے کرتے چلے آرہے ہیں، جبھی مجرموں پر 200 سے زائد مقدمات درج ہوتے ہیں اور وہ پولیس یا قانون کو مطلوب ہوکر بھی دستیاب نہیں ہو پاتے۔
ہمارا قانون آج تک بااثر لوگوں کا طفیلی یا دست نگر بنا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بڑی چھوٹی سیاسی پارٹی پیشہ ور قاتلوں کو اپنا آلہ کار بنا کر رکھتی ہے اور اس ''کارخیر'' میں پولیس یا قانون کا انھیں پورا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں چاہے 200 سے زائد مقدمات ان پر درج ہو جائیں یا 287 انسانی قتل کے الزام ثابت ہوجائیں یا پھر ان کے سروں کی قیمت فی سر 25 لاکھ روپے مقررکردی جائے ہمارے انوکھے اور لاڈلے قانون نے ان کا کچھ نہیں بگاڑنا ہوتا۔
کاش ہمارے انوکھے لاڈلے قانون کے رکھوالے انسانوں اور ان کی املاک کے تحفظ کی ذمے داری احسن طریقے سے پوری کرلیں تو ہمارا پورا ملک دیکھتے ہی دیکھتے صحت مند اور شفاف معاشرے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ لیکن جب تحفظ کے ذمے دار ہی ملک کے نظام اور معاشرے کو تباہ وبرباد کرنے پر کمر کس لیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟
یہ ہماری سوسائٹی کا ہمیشہ سے المیہ رہا ہے کہ قانون کی بالادستی ہمیشہ ہی سے بے گناہ اورکمزوروں پر رہی ہے جب کہ موٹی گردن اور مضبوط ہاتھوں والے بااثر لوگ دندناتے پھرتے ہیں۔ ہمارے انصاف اور قانون کی مسخ شکل اس آئینے میں صاف دیکھی جاسکتی ہے کہ سزائے موت کے قیدی کو اس کی طبعی موت کے ڈھائی سال بعد بری کرنے کا حکم ملک کی اعلیٰ عدالت جاری کرتی ہے۔ یہ لرزہ خیز اور باعث عبرت واقعہ سوسائٹی کے اجتماعی چہرے پر زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں تو پھر اور کیا ہے؟
بھیانک ہوتا ہے انجام ان معاشروں کا جنھوں نے انصاف کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔کس قدر دکھ کی بات ہے کہ کسی قاتل کے سر کی قیمت تو 25 لاکھ مقرر کردی جاتی ہے لیکن جن سروں میں مختلف قسم کی صلاحیت، ہنر یا فن سمائے ہوئے ہوں ان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی وہ کوڑیوں کے مول رُلتے، اپنے جوتے گھستے، خون تھوکتے یا پھر ڈپریشن اورہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہوکر بہت جلد مٹی میں مٹی ہوجاتے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ غربت، افلاس اور جہالت کے شکار ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے ذہین اور صلاحیتوں سے مالا مال انسان باآسانی راہ غلط پر لگائے جاسکتے ہیں، کیوں کہ انھیں پاکستان کا کوئی بھی سرکاری، غیر سرکاری یا نجی ادارہ اپنے وجود کا قانونی،آئینی یا انتظامی حصہ بنانے پر آمادہ نہیں ہوتا اس کے پاس صلاحیتیں ہوتی ہیں سفارش نہیں، آج بھی ہمارے سامنے ہزاروں لوگ اسی روش کے تحت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کسی عدالت میں نہیں جا سکتے نہ ہی ان کے لیے اسمبلی میں قانون سازی کی جاسکتی ہے۔
یہی وہ وجہ ہوتی ہے جس سے تنگ آکر ایک روز ان میں سے بیشتر لوگ اپنے باسیوں کے لیے جہنم اور باقی پاکستان کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی کڑوی حقیقت ہے کہ اس ملک میں جہاں اسلام کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی جماعتیں ہیں وہیں اس ملک کی بقا اور ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ اور دشواری ہمارا نظام انصاف اور نظام قانون ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے ہمارے وطن کا اصل مسئلہ قانون کی بالادستی کی ضرورت ہی ہے، قانون توڑنے والوں کا بلاامتیاز احتساب کرنے کی اشد ضرورت ہے، نیزشفاف عدالتی فیصلہ عصر حاضر کی اولین ضرورت کے حوالے سے سر اٹھائے یا سر جھکائے کھڑا ہے، جس کا سر فخر سے اونچا کرنا انصاف اور قانون مرتب کرنے والوں کا ہی فرض ہے، یہی سچ ہے اور یہی قرض ہے جسے ہمارے اہل قانون کو ماننا اور چکانا ہے۔