پھر دہشتگردی کی لہر
مذہبی تنظیموں کے مسلح نوجوانوں کو جہاد کے لیے کنٹرول لائن کی دوسری طرف بھیجا جا رہا تھا
MUZAFFARABAD:
لاہور پھر دھماکوں سے گونج اٹھا۔ دواعلیٰ پولیس افسروں سمیت 13 افراد شہید ہوئے، کوئٹہ میں بھی دھماکا ہوا۔ دہشتگردوں نے کامیابی سے کراچی میں سماء ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی وین اور پولیس موبائل کو نشانہ بنایا۔ پشاور میں ججوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک طرف پاکستان سپر لیگ کے فائنل کا مستقبل داؤ پر لگا تو دوسری طرف دہشتگردوں کو جڑوں سے ختم کرنے کے دعوے فضاء میں تحلیل ہوگئے۔
جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ حقائق پر مبنی تھی، ملک میں دو روزکے دوران ہونے والے دھماکوں سے اس کی تصدیق ہو گئی۔ ملک 17 سال سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ نائن الیون کی دہشتگردی کے بعد جب اتحادی افواج کی کارروائی سے افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہوئی اور امریکی بمبار طیاروں نے تورا بورا کی پہاڑیوں پر مسلسل بمباری کی تو القاعدہ اور طالبان دہشتگردوں کو قبائلی علاقوں اور شمالی وزیرستان میں محفوظ پناہ گائیں فراہم ہو گئیں۔ نیویارک میں ہونے والی دہشتگردی نے کابل، پشاور،کوئٹہ اور پھرکراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
جنرل پرویز مشرف ایک طرف اتحادی فوج سے تعاون کر رہے تھے، ملک کی فضائی حدود امریکی اور اتحادی طیاروں کے لیے کھل گئی تھیں، کراچی سے افغانستان میں مقیم نیٹو فوجوں کو رسد فراہم کی جاتی تھی اور القاعدہ اور طالبان کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف طالبان کی سرپرستی بھی کی جا رہی تھی۔ سابق جنرل پرویز مشرف نے اپنی دو رخی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان میں بھارتی مداخلت کو روکنے کے لیے طالبان کی حمایت کی گئی۔
دوسری طرف مذہبی تنظیموں کے مسلح نوجوانوں کو جہاد کے لیے کنٹرول لائن کی دوسری طرف بھیجا جا رہا تھا۔ اس صورتحال میں قبائلی علاقے سب سے پہلے دہشتگردی کا نشانہ بنے۔ دہشتگردوں نے قبائلی علاقوںمیں مخالف اور مختلف فرقوں کے افراد کو نشانہ بنانے کے علاوہ اسکولوں کی عمارتوں کو مسمارکرنے کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد مری،کوئٹہ اور پشاور تک میں خودکش حملے ہونے لگے۔ ان حملوں کے دو اہداف تھے، پہلے اقلیتی فرقوں کی عبادت گاہوں اور ان کے جلسے جلوسوں کو نشانہ بنایا گیا اور پولیس، رینجرز اور فوج کے افسروں اور جوانوں کو قتل کیا جانے لگا، ملک کے مختلف علاقوں میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے۔
2007ء میں لال مسجد پر ہونے والے آپریشن کے بعد دہشتگردوں کے حملے شدید ہوئے۔ اب ٹارگٹ کلنگ میں بھی شدت آئی۔ ملک بھر میں وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنوں، ڈاکٹروں، بیوروکریٹس اور پولیس افسران کوگولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
اگرچہ خیبر پختون خوا، بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ہوئے، دہشتگردی کے اسباب کو جڑوں سے کاٹنے کے لیے مدرسوں میں اصلاحات، اسکول،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی اور اسلحے کی رسد کاٹنے کے لیے لائحہ عمل تیار ہوا مگر ریاستی اداروں کی حوصلہ افزائی سے جنونی عناصر کو متحد ہونے اور مجوزہ اصلاحات کو رکوانے کے لیے ایجی ٹیشن کرنے کے مواقعے دیے گئے اور پھر برسر اقتدار حکومت کے تمام معاملات ٹھپ ہو گئے۔ جب 2008ء میں وفاق، سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی،خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن نے حکومتیں بنائیں تو دہشتگرد زوروں پر تھے۔ مذہبی دہشتگردوں نے لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں پولیس اور ریاستی اداروںکے دفاتر پر حملوں کے علاوہ اقلیتی فرقوں کی مذہبی عبادت گاہوں پر بھی حملے کیے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے دہشتگردوں کی کمین گاہوں کے خاتمے کے لیے بلند و بانگ دعوے کیے اور پنجاب میں دہشتگردی کی وارداتیں کچھ عرصے کے لیے تھم گئیں اور دہشتگردوں کا رخ سندھ کی طرف ہو گیا مگر پنجاب بھر میں مذہبی انتہاپسندی کے اثرات واضح ہو گئے۔ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن اور کالعدم تنظیموں کے اتحادکی خبریں آنے لگیں۔ ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں یہ الزام لگنے لگا کہ جنوبی پنجاب میں مذہبی انتہاپسند مضبوط ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف اور رانا ثناء اﷲ اس الزام کی تردید کرتے رہے۔ لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کی بس پر حملہ ہوا جس کے بعد غیرملکی ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکارکر دیا۔آرمی پبلک اسکول پشاورکے بچے دہشتگردی کا نشانہ بنے۔
فوج اور جمہوری حکومت نے نیشنل ایکشن پلان تیار کیا۔ پورے ملک میں مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہوا مگر جنوبی پنجاب میں کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ کراچی اور کے پی کے میں ہونے والے آپریشن کے خاطر خواہ نتائج نکلے۔ نیشنل ایکشن پلان میں مدارس میں اصلاحات، جدید تعلیمی اداروں کے نصاب میں تبدیلی، غیرقانونی اسلحے کی روک تھام، ججوں، سرکاری وکلاء اور گواہوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی پر زور دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس فیض عیسیٰ کمیشن رپورٹ میں وزیرداخلہ کے کالعدم مذہبی تنظیموں سے روابط، عسکری اور سول خفیہ ایجنسیوں کی بے عملی، پولیس اور دیگر اداروں کی نااہلی کا واضح ذکر ہے مگر وفاقی حکومت نے اس رپورٹ پر عملدرآمد کے بجائے اس رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ مختلف گروہوں کا خاتمہ ہوا مگر دہشتگردی کو زندگی دینے والا ماحول تبدیل نہ ہو سکا، یوں کچھ عرصے بعد نئے گروہ پیدا ہونے کا سلسلہ جاری رہا اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ جب تک نچلی سطح تک اقدامات نہیں ہونگے دہشتگردوں سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ نے مال روڈ پر ہونے والے مظاہرے کے شرکاء کو اس حملے کا ذمے دار قرار دیا۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ خودکش حملہ آور جب موٹر سائیکل پر مال روڈ پر آ سکتا ہے تو وہ لاہور میں کہیں بھی کارروائی کر سکتا ہے۔دہشتگردی کا حقیقی خاتمہ اسی وقت ہو گا جب خودکش حملہ آور بنانے کی فیکٹریاں بند ہوں گی۔ عمران خان کا یہ بیان اہم ہے کہ پنجاب میں پولیس سیاسی بنیادوں پرکام کرتی ہے۔ سیاسی مفادکے لیے پولیس کے استعمال کے ہمیشہ منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ کے پی کے پولیس کا قانون خاصا بہتر ہے، دیگر صوبے اس قانون کو نافذ کر کے پولیس کے پیشہ وارانہ کردارکا احیاء کر سکتے ہیں۔ دہشتگردوں کی کمین گاہوں کے مکمل خاتمے کے لیے انتظامی اور نظری اقدامات کا ہونا ضروری ہے۔
اب جنوبی پنجاب میں کومبنگ آپریشن کی باتیں کی جا رہی ہیں' اس آپریشن کے تحت دہشتگردوں کی گرفتاریوں کے علاوہ انھیں سرمایہ اور اسلحے کی فراہمی مکمل طور پر روکنے، ججوں، سرکاری وکلاء اورگواہوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی انتہائی ضروری ہے۔ ملک بھر سے ناجائز اسلحے کا خاتمہ، ملزموں کے خلاف کارروائی قانون کے مطابق مکمل ہونے، گواہوں کو معاوضہ اور ان کے تحفظ کے لیے قانون سازی وقت کی ضرورت ہے۔ دوسرا اہم مرحلہ نظری فریم ورک کا ہے۔ ریاست کی اعلیٰ سطح پر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی دہشتگردی کی بنیاد ہے۔
انتہاپسند ذہنوں کی تبدیلی کے بغیر دہشتگردی سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ انتہا پسند ذہنوں کی تبدیلی کے لیے مدارس میں بنیادی اصلاحات اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی، حکومت اور میڈیا کے بیانیے میں بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ غیر ریاستی کرداروں (Non-State Actors) کی سرکوبی بھی انتہائی ضروری ہے اور ہر سطح پر ایک نئے سیکیولر بیانیے کی ترویج اور اس کی حوصلہ افزائی سے ہی انتہا پسندی ختم ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میںدہشتگردی خود ختم ہو جائے گی۔