گرین پاکستان پروگرام ایک اہم پیش رفت
پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ملکوں میں کیا جاتا ہے، جہاں جنگلات کا رقبہ انتہائی کم ہے
ISLAMABAD:
عالمی سطح پر اب اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ کر ہ ارض کو درپیش چند بڑے چیلنجوں میں ماحول کا تحفظ سر فہر ست ہے، نہ ہی اس نکتے پر اب کوئی بحث ہے کہ فضاکی آلودگی میں خاطر خواہ کمی لانے اور اسے مزید آلو دہ ہونے سے بچانے کے لیے دنیا بھرمیں موجود جنگلات کا تحفظ کرنے کے ساتھ بڑے پیمانے پرشجرکاری کرنے کی ضر ورت ہے۔
ماہرین ماحولیات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ فضا میں خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کے اثرات سے بچنے کے لیے کرہ ارض پر موجود صاف پانی کو محفوظ کرنے، جنگلی حیات کو مسکن فراہم کرنے کے لیے جنگلا ت کا تحفظ اور نئی شجرکاری کرنی ہوگی۔
نومبر 2006 میں اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی مرتبہ شجرکاری مہم کو انتہائی پرجوش انداز میں شر وع کیا گیا تھا۔2007کو ''پلانیٹیری ایمرجنسی'' کا سال قراردیا گیا جس میں عالمی حدت کو موجودہ دورکا ایک اہم ترین مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے اس بات کا عہد کیا گیا کہ شجر کاری کی مہم کے ذریعے علامتی طورپر ایک ارب درخت لگائے جائیں گے تاکہ لوگوں میں موسم اور ماحول کا تحفظ کے حوالے سے آگہی پیدا کی جاسکے ۔اس مہم کے کامیاب آغاز سے دنیا بھر میں جنگلات کا تحفظ اورشجرکاری کی ترغیب کا پیغام عام ہوا۔آج پوری دنیا میں شجرکاری کی مختلف مہمیں زورشور سے جاری ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ملکوں میں کیا جاتا ہے، جہاں جنگلات کا رقبہ انتہائی کم ہے۔ واضح رہے کہ عالمی پیمانے کے مطابق کسی بھی ملک کے 25فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے ۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے صرف5 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں جب کہ غیر جانبدارماہرین اورماحولیاتی تجزیہ نگاروں کے مطابق ملک کے 3فیصد حصے پر جنگلات پائے جاتے ہیں۔
ان اعداد وشمارسے قطع نظر صرف گزشتہ 10برسوں میں ہونے والی شجرکاری کے اعدادوشمار کوہی جمع کرلیا جائے تو پاکستان میں اتنے درخت لگ چکے ہیں کہ یہاں اب انسانوں کے چلنے پھرنے کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت بھی افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی جنگلا ت کے تحفظ اور نئے درختوں کی شجرکاری کو حکومتی سر پرستی حا صل نہ ہوسکی ۔
گرین پاکستان پروگرام کے حوالے سے وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے ایک سمری وزیر اعظم کو پیش کی گئی جس کا عنوان ''پاکستان میں جنگلات اور جنگلی حیات کے وسائل کا احیاء'' تھا۔ وزیراعظم نے اس سمری کے مطالعے کے بعد اس منصوبے کے لیے 2 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ایک ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے 2016-17 کے لیے رکھے گئے۔
پاکستان کی پائیدار سماجی ومعاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے اس منصوبے کوکامیاب بنانے کے لیے تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ،گورنرکے پی کے اور آزاد کشمیرکے وزیراعظم کو خط لکھا گیا تھا۔ جس میں اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے وفاق اورصوبوں کی مشترکہ کوششو ں کی اہمیت کو اجا گرکرتے ہوئے اُن سے درخواست کی گئی کہ وہ مالیاتی سال 2016-17کے لیے اپنے ترقیاتی پروگرام میں وفاق کے برابر رقم مختص کریں تاکہ وفاقی اورصوبائی فنڈ سے پاکستان گرین پروگرام کو کامیاب بنایا جاسکے۔
جون کے مہینے میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی کی زیرصدرات ہونے والے بین الصوبائی/ بین الوزارتی اجلاس کا انعقاد ہوا ،جس میں اس منصوبے پرفوری عمل درآمدکو یقینی بنانے کی حکمت عملی پرغورکیا گیا۔اس عمل کے نتیجے میں دسمبر 2016 میں سی ڈی ڈبلیو پی کا اجلا س ہوا، جس میں پی سی ون کی منظوری دی گئی جس کی لاگت3.652ہے اور'' ایکنک'' سے اس پرغورکرنے کی سفارش کی گئی۔ رواں سال جنوری 2017کے آخری ہفتے میں ایکنک نے اپنے اجلاس میں اس منصوبے کو منظورکرلیا جس کے بعد وزیراعظم نے گرین پاکستان پروگرام کے تحت ہرسال 9فر وری کو گرین ڈے کے نام سے قومی دن منانے کا اعلان کیا۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا مو قع ہے کہ کسی حکومت نے مرکزی سطح پر جنگلا ت کی کمی اور جنگلی حیات کے تحفظ کا نوٹس لیا اوراسے ایک قومی مسئلے کی حیثیت سے اہمیت دی ۔اس پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ ملک بھر میں مقامی درخت لگائے جائیں گے۔گرین پاکستان پروگرام کے تحت پنجاب ،کے پی کے اور سندھ میں نہروںاورسڑک کے کنارے کے ساتھ مندرجہ ذیل جگہوں پر شجر کاری کی جائے گی ۔
چھانگا مانگا، دافر، بہاولپوراورچیچہ وطنی کی تاریخی آب پاش میں شجرکاری ۔پنجاب کے کالا چٹہ، پبی رسول اورفورٹ منروکے زیتون اورکیکر پھلائی جنگلا ت میں شجرکاری ،سندھ میں کیر تھر رینج کے جھاڑی دار پہاڑی جنگلات سمیت کراچی اور بدین میں تمرکی شجر کاری،گلگت بلتستان اورآزادکشمیر کے نم مدرانیی جنگلاتی علاقے میں دریائی ساحلوں اور زمینی حفاظت کے لیے شجرکاریاں، مری/کوٹلی ستیاں ، ہزارہ میں گذارہ جنگلات اورکے پی کے میں مالاکنڈ ریجن کے محفوظ کردہ جنگلات میں شجرکاری۔ فاٹا میں (اورک زئی، نارتھ وزیرستان ایجنسی وغیرہ ) گرم خشک جنگلا ت میں شجرکاری کی جائے گی۔کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں شہری شجرکاری کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے لیے 50کروڑکی رقم مختص کی گئی ہے۔
نواز شریف نے 9 فر وری کو وزیراعظم ہاؤس میں پودا لگا کر باقاعدہ پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے ہر سال 9 فر وری کو گرین ڈے منانے کا اعلان کیا ۔ اس موقعے پروزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین عوامل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ درختوں اورجنگلا ت کی کٹائی موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ ہے۔ انھوں نے امیدظاہرکی کہ یہ پروگرام موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے، ملک کو سرسبز بنانے اورآلودگی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔گرین پاکستان پروگرام کے تحت منائے گئے گرین ڈے کے موقعے پر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق اورصوبو ں میں ایک ساتھ شجرکاری کی مہم کاآغاز ہوا جب کہ ملک بھر میں 100سے زائد شجرکاری کی تقریبات منعقد کی گئیں جس میں صوبائی وزرائے اعلیٰ سمیت مختلف سیاسی، سماجی ، سول اور فوجی شخصیات نے شرکت کی۔
عالمی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کے شدید اثرات سے متاثرہ پاکستان کے لیے گرین پاکستان پروگرام جیسا منصوبہ انتہائی ضروری تھا۔ مجوزہ پروگرام کو اگر اس کی اصل روح کے مطابق اس کو نافذ کردیا گیا اور صوبوں نے اس پروگرام کامیاب کرنے کے لیے مرکزی حکومت کا ساتھ دیا تو یہ پروگرام بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے خطرے سے دوچار پاکستان کو ایک نئی زندگی دے سکے گا۔
ضرورت اس امرکی ہوگی کے گرین پاکستان پروگرام میں پوری قوم کوشریک کیا جائے اورانھیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات اور اُس کامقابلہ کرنے کے لیے درختوں کے کردار کو موضوع بناکر ملک گیر سطح پرآگہی مہم شروع کی جائے ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ وزیراعظم کا یہ انقلابی پروگرام روایتی سرخ فیتے والی بیوروکریسی اور سیاسی مناقشوں کی نذر ہوجائے ،اگر ایسا ہوا تو اس سے بڑا قومی المیہ اورکیا ہو گا؟