تھر میں پاکستان کے روشن مستقبل کی تعمیر

صوبہ سندھ کا علاقہ تھر پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شامل ہے



صوبہ سندھ کا علاقہ تھر پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شامل ہے۔ غربت، بیماریاں، انتہائی کم شرح خواندگی، اکثر ہونے والی خشک سالی اور اس کی وجہ سے مزید مصائب و دکھ تھر کے معروف حوالے ہیں۔ صحرائے تھر کے سیدھے سادے لوگ بارش کی شکل میں قدرت کی مہربانیوں کے منتظر رہتے ہیں۔ زندگی کی لازمی ضرورت پانی کا حصول ہو یا وسیلہ رزق ہریالی کی تمنا، تھر کے باشندوں کی نگاہیں آسمان کی طرف ہی اٹھتی ہیں۔ بادل مہربان ہوجائیں تو ان کے دلوں میں اور گھروں میں خوشیاں اتر آتی ہیں۔ مویشی پالنا یا انتہائی کم پیمانے پر زراعت یا باغبانی اس علاقے کے مخصوص ذرایع روزگار ہیں۔ طویل عرصے تک بارش نہ ہو تو تھر میں ہریالی ختم ہو نے لگتی ہے اور مویشی بھوک و پیاس سے مرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں تپتے ہوئے صحرائے تھر میں غربت اور محرومیوں کی تپش اور شدید ہوجاتی ہے۔ تھر کے باشندے دیگر ذرایع روزگار کی طرف جائیں تو تعلیم کی شدید کمی اور مارکیٹ کی طلب کے مطابق ہنر سے محرومی ان کے آڑے آتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یکے بعد دیگرے تھر سے منتخب ہونے والے سیاسی نمایندوں نے اس دھرتی اور اس کے باشندوں کی فلاح کے لیے کیا کچھ کیا۔۔۔۔؟ اس کا تذکرہ فی الحال اس لیے اہم نہیں کہ اکثر سیاستدانوں کے رویے صرف تھر میں نہیں بلکہ سارے ملک کے پسماندہ علاقوں میں تقریباً ایک جیسے ہی ہیں۔

صحرا کے رہنے والے کے لیے پانی سب سے اہم شے ہے۔ دنیا کے دیگر صحرائی علاقوں کی طرح صحرائے تھر میں بھی میٹھے پانی کی تلاش کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ جاری رہی ہے۔ اس تلاش میں مصروف لوگ کئی کئی بار کی ناکامیوں کے باوجود ہمت نہیں ہارتے۔ تھر میں پانی کی تلاش میں حکومت سندھ بھی اپنا حصہ ڈالتی رہی ہے۔ صوبائی حکومت کے ایک ادارے سندھ ایرڈ زون ڈیولپمنٹ اتھارٹی (SAZDA) کی جانب سے 80کی دہائی کے آخر میں صحرائے تھر میں آب شیریں کی تلاش میں سروے جاری تھے۔ تلاش کرنے والوں کو قدرت کبھی توقع سے کہیں بڑھ کر نواز دیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ تھر میں بھی ہوا۔ SAZDA کی کوششوں کو بھی توقع کے برخلاف لیکن کہیں زیادہ قیمتی اجر ملا۔ انھیں پانی تو نہ ملا البتہ وہ تھر میں کوئلہ کے ایک بہت بڑے ذخیرے کے آثار پانے پر کامیاب ہوگئے۔ اس دریافت پر بعدازاں جیولوجیکل سروے آف پاکستان کی جانب سے مزید کام کیا گیا۔پتہ چلا کہ اس غریب خطے تھر میں زمین سے صرف 150میٹر نیچے دنیا کے چند بڑے معدنی ذخائر میں سے ایک ذخیرہ موجود ہے۔ اس ذخیرے کا حجم اندازاً ایک سو پچھتر (175)ارب ٹن ہے۔ قدرت نے تھر کی طرح پاکستان کے دیگر خطوں کو کئی اقسام کی انتہائی قیمتی معدنیات سے خوب نوازا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ قدرت کی ان فیاضیوں کو پاکستانی عوام کی معاشی خوشحالی، سماجی بہتری اور فلاح کے لیے ٹھیک طرح استعمال نہیں کیا جارہا۔

ذرا غور کیجیے کہ پاکستان کے جو علاقے معدنی دولت سے، آبی ذخائر سے یا قدرتی نظاروں کے حسن سے مالا مال ہیں غربت وہیں زیادہ ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے کئی حکمرانوں کا محدود زاویہ نگاہ اور اپنے وقتی سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے رہنا ہے۔ کئی حکمران یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں جس منصوبے کی بنیاد رکھی جائے اس کی تکمیل بھی انھی کے ہاتھوں ہو، یعنی وہ منصوبہ تین چار سال میں مکمل ہوجائے۔ ایسے حکمران طویل مدتی لیکن قوم کے لیے زیادہ مفید منصوبوں میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لیتے۔

قدرتی وسائل سے استفادہ نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ پالیسی سازوں کی علاقائی اور محدود سوچ بھی رہی ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی علاقوں میں انسانی وسائل کے لیے نہایت مفید کئی پروجیکٹس پر کام نہ ہونا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ طرز عمل ایک طرف فیوڈل ازم اور دوسری طرف ایڈھاک ازم سے تقویت پاتا رہا ہے۔ بلوچستان سمیت ملک کے تقریباً ہر علاقے میں قدرتی وسائل کو ترقی نہ دینے کا ایک اثر یہ ہوا کہ کراچی، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، حیدر آباد، گوجرانوالہ، پشاور اور کوئٹہ جیسے صنعتی و تجارتی شہروں میں آبادی کا دباؤ بہت تیزی سے بڑھتاگیا۔

پاکستان کے ہر علاقے میں توانائی کے حصول اور معاشی ترقی کے لیے پوٹینشل موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے ہر حصے میں رہنے والوں کو معاشی ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں کے قریب روزگار فراہم کیا جائے۔ صنعتی و زرعی ترقی کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں کی ثقافتی اور قدرتی خصوصیات اور جنگلی یا آبی یا صحرائی حیات کا تحفظ بھی ہوتا رہے۔

ذہن میں یہ خیالات لیے میں گزشتہ ہفتے کی شام پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز کے ساتھ کراچی سے بدین کے راستے صحرائے تھر کی طرف محو سفر تھا۔ صحرائے تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر تقریباً9100 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس علاقے کو حکومت نے 12 بلاکس میں تقسیم کیا ہے۔ بلاک IIمیں کوئلہ کی نکاسی اور اس کوئلے سے بجلی کی پیداوار کی ذمے داری پاکستان کے معروف صنعتی ادارے اینگرو کے سپرد کی گئی۔ اس مقصد کے لیے ایک نئی کمپنی سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC)قائم کی گئی ہے۔ تقریباً دو ارب ڈالر کے اس پروجیکٹ میں چین کی ایک معروف پاور جنریشن کمپنی بھی 35فیصد کی حصہ دار ہے۔

SECMC کی جانب سے کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (CPNE) کو تھر میں بلاک IIکے دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ سی پی این ای کے تیس سے زائد اراکین سیکریٹری جنرل اعجاز الحق کی قیادت میں ہفتے کی رات تھر پہنچ چکے تھے۔ صدر ضیاشاہد اپنی ناسازیٔ طبع کے سبب تھر نہ جاسکے۔ دوران سفر قافلے کے انتظامات سی پی این ای کے فعال رکن ڈاکٹر جبار خٹک نے خوش اسلوبی سے سنبھالے۔ اتوار کو اراکین سی پی این ای کمپنی کے سائٹ آفس گئے جہاں اینگرو پاکستان کے سینیئر رکن اور اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شمس الدین شیخ نے ملٹی میڈیا کے ذریعے ایک تفصیلی بریفنگ دی۔ شمس الدین شیخ کا آبائی تعلق حیدرآباد سے ہے۔ انھوں نے این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے میکینیکل انجینیئرنگ میں بی ای بعد ازاں امریکا سے دیگر اعلیٰ تعلیمی اسناد حاصل کیں۔ دوران بریفنگ اور بعد میں کمپنی کے جنرل مینجربریگیڈیئر (ر) طارق لاکھیر بھی ہمارے ساتھ رہے۔ دادو سے تعلق رکھنے والے بریگیڈیئر طارق کیڈٹ کالج پٹارو کے طالب علموں میں بھی شامل ہیں۔ انجینئر شمس الدین شیخ اور بریگیڈیئر طارق دونوں نے انتہائی پروفیشنل انداز اور کھلے ذہن کے ساتھ گفتگو کی۔ مائنز اور پاور جنریشن کے مختلف علاقوں کے وزٹ پر کمپنی کے ہیڈ آف کمیونیکیشن محسن ببر اور دیگر شعبوں کے سربراہان نے بھی ایڈیٹرز کے سوالات کے جواب دیے۔

SECMCکو دیا جانے والا بلاک II تقریباً ایک سو مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ کمپنی کی جانب سے اس بلاک میں کوئلے کی نکاسی کے لیے مائننگ کی جائے گی اور بجلی پیدا کرنے کے لیے پاور ہاؤسز قائم کیے جائیں گے۔ مائننگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاور ہاؤس کی تعمیر کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں بجلی کی پیداوار کا ہدف 660میگا واٹ مقرر کیا گیا ہے۔ انجینئر شمس الدین شیخ نے بتایا کہ پاور ہاؤس کو آپریشنل کرنے کے لیے 3جون 2019ء کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یہ ہدف انشاء اللہ مارچ یا اپریل 2019ء تک حاصل کرلیا جائے گا۔

پاکستان کو توانائی کی شدید ضرورت ہے۔ طلب اور رسد میں کمی کو دور کرنے کے لیے ملک میں مختلف ذرایع سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبے لگائے جارہے ہیں۔ توقع ہے کہ 2018ء تک ملک میں بجلی کی طلب و رسد کا فرق بہت کم رہ جائے گااور شہروں اور دیہاتوں میں لوڈ شیڈنگ سے کافی حد تک چھٹکارہ مل جائے گا۔ ان حالات میں بجلی کی پیداوار کے ہر منصوبے کی تائید کی جانی چاہیے۔ توانائی کی فوری ضروریات اپنی جگہ لیکن میں اس نظریے پر یقین رکھتا ہوں کہ ملک میں ہونے والی صنعتی اور معاشی ترقی سے مجموعی طور پر سماج میں بہتری آنی چاہیے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔