ادب کا ایک اور ستارہ خلاؤں میں کہیں گم ہوگیا

’حلال و حرام‘ آخر کس طرح نسل نو میں جینیاتی بگاڑ پیدا کرتے ہیں، بانو آپا نے ’راجہ گدھ‘ کے ذریعے منفرد تصور پیش کیے۔


رضاالحق صدیقی February 06, 2017
بانو آپا، جب اشفاق احمد کی سوچ سے ہم آہنگ ہوئیں تو ان کے اس اسلوب میں بتدریج تبدیلی آتی چلی گئی جو اشفاق احمد کے عقد میں آنے سے پہلے تھی. فوٹو: فائل

ISLAMABAD: اِس وقت میں ایکسپو سینٹر میں بین الاقوامی کتاب میلے میں بُک کارنر کے اسٹال پر کھڑا ہوں، میرے فون کی اسکرین پر میسج نمودار ہوا، ہمارے صحافی دوست اسلم ملک کا پیغام تھا، ''بانو قدسیہ انتقال کرگئیں''۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ میں سُن ہوکر رہ گیا، ادب کا ایک اور ستارہ خلاؤں میں کہیں گم ہوگیا۔

آج ہی کے دن گزشتہ سال، ابھی کل کی بات محسوس ہوتی ہے، ایکسپو سینٹر لاہور میں بین الاقوامی کتاب میلہ جاری تھا۔ 4 فروری کو میری نئی کتاب ''دیکھا تیرا امریکہ'' اُسی روز چھپ کر میلے میں پہنچی تھی۔ بُک کارنر کے اسٹال پر اپنی نئی کتاب کو پہلی بار دیکھ رہا تھا، اطمینان اور خوشی میرے چہرے سے جھلک رہی تھی، میں اپنی خوشی کسی سے بانٹنا چاہتا تھا۔ بُک کارنر کے امر شاہد نے پانچ کتابیں ایک لفافے میں ڈال کر مجھے تھمادیں، میں کتابیں تھامے کچھ ہی دور گیا تھا کہ جمہوری پبلشرز کے اسٹال پر سہیل گوئندی نظر آئے۔ معروف دانشور ہیں، پرانے دوست ہیں، اُن کے اسٹال پر اُن سے بات چیت شروع ہی کی تھی کہ گوئندی بات کو ادھوری چھوڑ کر اپنے اسٹال کے گیٹ کی جانب لپکے، میں نے نظر اٹھا کر اُدھر دیکھا تو نورالحسن بانو آپا کو وہیل چیئر پر بٹھائے اسٹال میں داخل ہوئے۔



گوئندی بانو آپا کے استقبال کے لئے ہی لپکا تھا۔ گوئندی نے موجود افراد کا تعارف کرایا، آپا نے سر ہلا کر سب کی طرف دیکھا۔ میری طرف دیکھ کر شناسائی کی ایک جھلک اُن کے چہرے پر اُبھری، انہوں نے کچھ کہنا چاہا کہ گوئندی انہیں اپنی طرف مخاطب کرکے ایک خاتون کے بارے میں بتانے لگے کہ اُن کی دو کتابیں نامزد ہوئی ہیں، اُن پر آٹوگراف دے دیں۔ خاتون نے کتابیں آگے بڑھائیں اور آپا نے اُن پر دستخط کردیئے،



میں نے اپنی کتاب آگے کی، انہوں نے نظریں اُٹھائیں، مسکرائیں، اِس پر بھی آٹوگراف؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا، میں نے اُن کا سوال بھانپ کر کہا، یہ آپ کے لئے ہے۔ آپا نے کتاب تھامتے ہوئے پوچھا، تمہاری شاعرہ بہن کیسی ہیں؟ مجھے بانو آپا کی یاداشت پر رشک آنے لگا۔ اُنہیں یاد تھا کہ جب اپنی شاعرہ بہن صبیحہ صبا کی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں مہمانانِ گرامی کی حیثیت سے اشفاق احمد مرحوم اور بانو آپا کو مدعو کرنے داستان سرائے گئے تھے اور انہوں نے ایسا برتاؤ کیا تھا، جیسے جانے کب سے جانتے ہوں۔ آج کئی سال بعد انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا۔



بانو قدسیہ، کب سے لکھ رہی ہیں؟ شاید میری پیدائش سے بھی پہلے سے، بانو آپا کو بچپن سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔ عالم یہ تھا کہ پانچویں جماعت میں پہلی کہانی جبکہ آٹھویں جماعت میں پنجاب بھر میں اول آنے والا ڈرامہ لکھا۔

بانو آپا نے ایک انٹرویو میں خود کہا ہے کہ اُن کا پہلا افسانہ غالباً 1949ء یا شاید 1950ء میں ادبِ لطیف میں شائع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب بانو آپا پر اشفاق احمد کا اثر نہیں پڑا تھا، اُن کا اسلوبِ نگارش فطری تھا، یہ اسلوبِ نگارش اُن کا زمانہِ طالب علمی کا تھا۔ بانو آپا کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی، اُن کے والد ایک زمیندار تھے جو اُن کی کمسنی میں انتقال کر گئے تھے۔ اِس لئے اُن کی تربیت اُن کے نانا اور والدہ نے کی جو کالج کی پرنسپل تھیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت بانو آپا پاکستان آگئیں جہاں کینیرڈ کالج سے بی اے کیا اور 1951ء میں گورنمنٹ کالج سے ایم اے اردو کیا۔ 1955ء میں بانو آپا اشفاق احمد کے عقد میں آگئیں۔

1949ء میں ادبِ لطیف میں چھپنے والے افسانے سے اُن کی اِس دنیا سے رخصتی تک اُنہوں نے بے پناہ لکھا۔ بانو قدسیہ کی کچھ تحریریں متنازعہ بھی رہی جیسے قدرت اللہ شہاب پر لکھی گئی کتاب مرد بریشم پر ممتاز مفتی جیسے دانشور اور کئی اور نے تنقید کی۔ اُن کی دیگر کتب میں راجہ گدھ، شہرِ بے مثال، توجہ کی طالب، چہار چمن، سدھراں، آسے پاسے، دوسرا قدم، آدھی بات، دست بستہ، حوا کے نام، سورج مکھی، پیا نام کا دیا، آتشِ زیرپا، امبربیل، بازگشت، مردِ بریشم، سامانِ وجود، ایک دن، پروا، موم کی گلیاں، لگن اپنی اپنی، تماثیل، فٹ پاتھ کی گھاس، دوسرا دروازہ، ناقابلِ ذکر، کچھ اور نہیں اور حاصل گھاٹ شامل ہیں۔

بانو قدسیہ کو اُن کے ناول راجہ گدھ سے بہت پزیرائی ملی۔ یہ ناول 1981ء میں شائع ہوا اور آج بھی اِس کا شمار اردو ادب کے بڑے ناولوں میں کیا جاتا ہے۔ بانو قدسیہ کو اپنے افسانہ توبہ شکن سے بھی راجہ گدھ کی طرح خوب پزیرائی ملی۔

راجہ گدھ کی تخلیق کے بارے میں بانو آپا نے کہا کہ؛
اُن دنوں ہمارے گھر میں ایک امریکی لڑکا ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ امریکی تہذیب، امریکی زندگی، امریکی اندازِ زیست سب کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ ہم سے بہتر ہے۔ ایک روز وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے پوچھا کہ اچھا مجھے دو لفظوں میں بتائیے کہ اسلام کا ایسنس (جوہر) کیا ہے؟ میں نے اُس سے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ اُس نے کہا: عیسائیت کا جوہر ہے محبت۔ بانو قدسیہ کہتی ہیں میں نے اِس پر جواب دیا کہ اسلام کا جوہر اخوت ہے، برابری اور بھائی چارہ ہے۔ وہ کہنے لگا، چھوڑیئے یہ کسی مذہب نے نہیں بتایا کہ برابری ہونی چاہیئے۔ یہ تو کوئی جوہر نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا، بانو آپا پھر کہتی ہیں، ہمارے گھر میں ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اُس کے بڑے بڑے پتے تھے وہ ایک دم سفید ہوگیا اور اُس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو، 'اسلام کا جوہر''حرام و حلال'' ہے۔ چنانچہ میں نے اس امریکی لڑکے کو بلایا اور کہا کہ یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اُس کا جوہر ہے۔ بانو قدسیہ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے یہ کتاب لکھی اور میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے میری رہنمائی کی اور میری مدد فرمائی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کتاب میں نے نہیں لکھی مجھ سے کسی نے لکھوائی ہے۔

بانو آپا نے 'راجہ گدھ' کے ذریعے حلال و حرام کے تصور کو ایک نئے معنی دیئے ہیں کہ یہ کس طرح انسان کی آنے والی نسلوں میں جینیاتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ جدید اردو ناول میں پہلی نوعیت کے جن چونکا دینے والے ناول نگاروں نے نمایاں اورمعیاری کام کیا، اُن کے نام اور نگارشات کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔

  • اشفاق احمد کا ناول گڈریا،

  • بانوقدسیہ کا راجا گدھ،

  • قدرت اللہ شہاب کا یا خدا،

  • ممتاز مفتی کا الکھ نگری،

  • جمیلہ ہاشمی کا دشتِ سوس وغیرہ شامل ہیں۔


یہ وہ ناول ہیں، جن کے ماخذات اسلامی فکر و فلسفے سے لئے گئے۔ اِن ادیبوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ مذہبی پہلو کوذہن میں رکھ کر یہ ناول لکھے۔ اِس کے علاوہ رحیم گل کا ناول ''جنت کی تلاش'' بھی روحانی تجربات پر مبنی ہے۔ عبداللہ حسین کے ناول ''قید''میں قدامت پرست اور روشن خیال کرداروں کے درمیان مکالمہ دکھایا گیا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ''راکھ''میں بھی ایک دو مقامات پر کچھ اسلامی نکتے قلم بند ہوئے ہیں۔ اِسی طرح کچھ غیر مسلم ادیبوں نے بھی اسلامی فکر کو دیگر مذاہب کے ساتھ تقابل کرکے ناول میں ڈھالا ہے۔ اِن میں سب سے مقبول ناول نگار منشی پریم چند ہیں، جنہوں نے ''میدانِ عمل'' جیسا ناول لکھا۔ اُس میں دینِ اسلام اور ہندو مذہب کے مابین کرداروں کے ذریعے گفتگو ہوتی دکھائی گئی ہے۔

بانو آپا، جب اشفاق احمد کی سوچ سے ہم آہنگ ہوئیں تو اُن کے اُس اسلوب میں بتدریج تبدیلی آتی چلی گئی جو اشفاق احمد کے عقد میں آنے سے پہلے تھی۔ بانو آپا کی تحریروں میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہونے لگا، اُن کی آخری مطبوعہ تحریر 'حاصل گھاٹ' اِس کی نمایاں مثال ہے۔

آج میں خالی خالی نظروں سے کتاب میلے کے دروازے کی جانب دیکھ رہا تھا کہ ابھی بانو آپا اپنی وہیل چیئر پر بیٹھی سامنے سے آتی نظر آئیں گیں، میرے پاس رک کر کہیں گیں، تمہاری کتاب پسند آئی لیکن اتنی سادہ تحریر نا لکھا کرو، بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہے اور جلدی ختم ہوجاتی ہے، لیکن وہ نہیں آئیں، وہ ایسی جگہ چلی گئیں جہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں