پانچ سالہ سنہری دور ‘ مگر کس کا
یہ حکمرانوں کے لیے سُنہری دور ثابت ہوا ہے یا عوام کے لیے؟
ریاست کے مہاراجہ علی الصبح شکار پر جانے کے لیے، آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے اورشاہی خواب گاہ سے باہر آئے تو دیکھا کہ ایک حبشی غلام برآمدے میں پڑا گہری نیند سو رہا ہے۔ غلام کے چہرے پر نظر پڑی ، تو ایک سیاہ چیچک زدہ چہرہ ،پھیلے نتھنوں والی پچکی ہوئی ناک ، یک چشم ، تنگ پیشانی ، موٹے ہونٹ اور بالوں سے محروم سر راجہ جی کے سامنے تھا ۔
مہاراجہ نے طیش میں آکر غلام کے پہلو میں ایک زور دار ٹھوکر رسید کی اور چِلا کر داروغہ کو حکم دیا کہ '' اِسے لے جا کر قید خانے میں لٹکا دو اور جب تک ہم شکار سے واپس نہ آجائیں اِس کی کمر پر وقفے وقفے سے دُرّے لگاتے رہو ۔ صبح ہی صبح شکار پر جانے سے پہلے،آنکھ کھُلتے ہی اِس منحوس کی شکل ہمیں دیکھنا پڑی ہے اور یہ بہت بڑی بد شگونی ہے ۔ پتہ نہیں آج ہمیں شکار ملتا بھی ہے یا نہیں ؟'' داروغہ جی غلام کی گردن پکڑ کر قید خانے کی طرف اور راجہ جی مصاحبین اور شاہی دستے کے ہمراہ جنگل کی طرف روانہ ہوگئے ۔ لیکن خلافِ توقع مہاراجہ کو اُس دِن اتنا شکار ہاتھ لگا کہ شاہی چھکڑے ، شکار سے لبالب بھر گئے ۔
واپس محل جاتے ہوئے راجہ جی کا موڈ بہت خوشگوار تھا ۔ محل واپس پہنچ کر اُسی ''منحوس غلام '' کو طلب فرمایا ، غلام بے چارہ بمشکل تمام اپنی ناتواں ٹانگوں پر اپنا ہی بوجھ سنبھالے ہوئے ، لڑکھڑاتا ہوا مہاراجہ کے حضور پیش ہو کر کورنش بجا لایا ۔ مہاراجہ نے تاسف زدہ لہجے میں غلام کو مخاطب کر کے کہا '' میں تو سمجھتا تھا کہ صبح ہی صبح تیرا منحوس چہرہ دیکھنے کے بعد میرا آج کا دِن بہت ہی خراب گزرے گا، لیکن تیرا چہرہ تو میرے لیے بہت ہی سعد ثابت ہوا اور آج میرے ہاتھ اتنا شکار لگا ، جتنا پوری زندگی میں ، مجھے کبھی نہیں ملا تھا ۔''
یہ کہہ کر گلے سے موتیوں کی مالا اُتار کر مہاراجہ نے غلام کی طرف بطور انعام اچھال دی ۔ غلام اپنے دونوں ہاتھوں سے مالا چومنے کے بعد بولا ''حضور جان کی امان پاؤں تو ایک بات عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔'' مہاراجہ مُسکراتے ہوئے بولے ''اجازت ہے ۔'' غلام نے کہا '' حضور صبح سویرے سب سے پہلے میرا چہرہ دیکھنے کے بعد آپ کا دِن تو بڑا ہی خوشگوار اور اچھا گزرا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنکھ کھُلتے ہی صبح سویرے میں نے بھی تو آپ ہی کے چہرہِ انور کا دیدار کیا تھا ۔
میرا دِن کیسا گزرا ؟ شام تک اُلٹا لٹکے رہنے اور وقتاً فوقتاً کمر پر دُرّے کھانے کی وجہ سے میں صحیح طور پر یہ بھی بتانے کے قابل نہیں ہوں کہ میرا دِن کیسا گزرا ؟ مجھے تو صرف اِس سوال کا جواب درکار ہے کہ ہم دونوں میں سے کس کے لیے ، کس کا چہرہ منحوس ثابت ہوا ؟ آپ کا یا اِس غلام کا ؟'' اب خدا جانے مہاراجہ صاحب نے اپنے اِس ''مُبینّہ منحوس غلام '' کے اِس سوال کے جواب میں کوئی وضاحت پیش فرمائی یا نہیں؟ یوں بھی راجے مہاراجے رعایا کے سوالوں کا جواب دینے کے ، کون سے پابند ہوتے ہیں ؟ اِسی لیے تو ہمارے وزیراعظم ، جو خیر سے ''راجہ '' بھی ہیں اُنہوں نے راجاؤں کی اِسی قدیم روایت یا '' پرم پرا '' کو زندہ رکھتے ہوئے پچھلے دِنوں اپنی جماعت کے چیدہ چیدہ اور منتخب کارکنوں سے سرگودھا میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ '' پانچ سالہ سُنہری دور کی بنیاد پر اگلی مرتبہ پھر برسرِ اقتدار آئیں گے ۔''
لیکن راجاؤں کی قدیم روایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اُنہوں نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ پانچ سالہ سُنہری دور جس کا اُنہوں نے تذکرہ فرمایا ہے ، یہ حکمرانوں کے لیے سُنہری دور ثابت ہوا ہے یا عوام کے لیے ؟ میں یہ نہیں کہتا کہ راجہ صاحب غلط بیانی کر رہے ہیں ، بلکہ اِس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ اُنہوں نے بالکل سچ فرمایا ہے اور وہی کہا ہے ، جو اُنہیں نظر آرہا ہے ۔ اُن کے آس پاس واقعی گزشتہ پانچ برسوں سے ایک سُنہری زنجیر نے ایسا مضبوط حلقہ ڈالا ہوا ہے کہ اِس سُنہری زنجیر کے باہر بھی راجہ صاحب ، جب نظر ڈالتے ہیں تو اِس سُنہری حلقے کی چکا چوند میں اُنہیں ہر طرف اِسی سُنہری دورکا دور دورہ ہی نظر آتا ہے اور یہ سُنہری دور اُنہیں اُس وقت تک نظر آتا رہے گا ، جب تک چند ماہ کے بعد ہونیوالے انتخابات کا نتیجہ نہیں آ جاتا ۔ راجہ صاحب کے لیے فی الحال تو مزید تین ماہ تک راوی چین ہی چین لکھتا رہے گا ۔
برسرِ اقتدار پارٹی میں رُکن کابینہ کی حیثیت سے ہمارے ہاں سیاست واقعی بڑا منافع بخش کاروبار ہے ۔ اتنی بھاری بھرکم شرح منافع تو دو نمبر کے مشہور و معروف دو عدد غیر قانونی دھندوں یعنی اسلحہ اور منشیات کے کاروبار میں بھی نہیں ہے ، جو سیاست کے دھندوں سے حاصل کی جاسکتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ عزت احترام ، پروٹوکول اور ہٹو بچو کا شور بطور سُود ، الگ سے مل جاتا ہے ۔ سرمایہ کاری کرنے کے لیے عوام کے خون پسینے کی کمائی اور صوابدیدی فنڈز سونے پہ سُہاگہ ہیں۔ لیکن اِس جادوئی سُنہری پردے کے دوسری طرف عوام گزشتہ پانچ برسوں سے سُنہری دور کے برعکس '' پتھر کے دور '' میں سانس لے رہے ہیں۔
سخت گرمی کے موسم میں سوتے ہوئے بجلی چلے جانے کے باعث وہ گھروں سے نکل کر کئی کئی گھنٹوں کے لیے جب سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر آکر بیٹھتے ہیں تو قدرتی طور پر اُن کے درمیان اِسی موضوع پر گفتگو ہوتی ہے کہ وہ اتنی رات گئے بجائے اپنے بستروں پر ہونے کے یہاں کیوں آکر بیٹھ گئے ہیں ؟ پھر راجہ صاحب کا یہی مُبینہ پانچ سالہ سُنہری دور زیرِ بحث آجاتا ہے ۔ سی این جی کی لائن میں گھنٹوں کھڑے رہنے والے رکشہ ڈرائیور ، ٹیکسی ڈرائیور ، بس ڈرائیور اور چھوٹی کاروں کے مالکان اپنا نمبر آنے تک اِسی پانچ سالہ سُنہری دور کو عوامی انداز سے '' خراج ِ تحسین '' پیش کرتے وقت جن جذبات کا اظہار کرتے ہیں ، وہ جذبات راجہ صاحب تک اُس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اِسی سُنہری دور کی مدّت پوری نہیں ہوجاتی ۔
بم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتّہ خوروں کے ہاتھوں مرنے والے کی لاش لے کر ، ہوٹر بجاتی ایمبولینس جب مقتول کی گلی میں داخل ہوتی ہے تو مقتول کے لواحقین اِسی سُنہری دور کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بین کرتے ہیں اور سر دُھنتے ہیں ۔ موبائل ، موٹر سائیکل اور گاڑی چھنوانے کے بعد ، رپورٹ درج کر کے پولیس اُنہیں جب یہ خوشخبری سُناتی ہے کہ شکر کرو تمہاری جان بچ گئی تو رپورٹ درج کروانیوالا شکرگزاری کے جذبات سے مغلوب ہو کر آبدیدہ ہوجاتا ہے اور اِسی سُنہری دور کی شان میں قصیدے پڑھتا ہوا ، وجد کی کیفیت میں مُبتلا ہو کر گھر میں داخل ہوتے ہی ، اِہل خانہ کو یہی تسلّی دیتا ہے کہ وہ اِس سُنہری دور کے طُفیل ہی زندہ اِن کے درمیان موجود ہے ، اِس سُنہری دورکے صدقے زندگی جیسی یہ نعمت کم ہے کیا ؟ لیکن راجہ صاحب ایک اہم بات بھول رہے ہیں ۔ پانچ سالہ سُنہری دور کے اختتام پر اگلے پانچ سالہ سُنہری دور کی چابی انھوں نے اٹھارہ کروڑ عوام کی جیب میں رکھی ہوئی ہے اور آخر میں راجہ صاحب کی خدمت میں وہی حبشی غلام والا سوال پیش کرتا ہوں کہ آپکا یہ سُنہری دور تو اِن کروڑوں پسماندہ غریب ووٹروں کی مرہونِ منت ہے لیکن آپکے سُنہری دور نے اِن غریبوں کو کیا دیا؟ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے راجہ صاحب ۔