دیکھا تیرا امریکا پندرہویں قسط

ایک بلند چھت تلے سرخ پتھر سے آراستہ ایک راستہ تھا، ایک لابی تھی جس کے ماتھے پر اِس بلڈنگ کی ایک شبیہہ نقش تھی۔


رضاالحق صدیقی February 13, 2017
امریکہ میں پارکنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اگر غلط جگہ پارکنگ کردی تو گاڑی وہاں سے اٹھالی جاتی ہے اور جرمانہ بھی خاصا ہوتا ہے، پاکستان کی طرح نہیں کہ جہاں جی چاہا گاڑی کھڑی کی اور چل دئیے۔

 

ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ


اُس روز جب ہم بروکلین سے مین ہاٹن کے لئے روانہ ہوئے تو ہمارا ارادہ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ دیکھنے کا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ دیکھنے میں اتنا وقت نہیں لگتا جتنا وقت اِس بلڈنگ میں داخلے کے لئے لمبی قطاروں میں دل تھام کر کھڑے ہونے میں ضائع ہوتا ہے۔

عدیل جب گاڑی میں بیٹھتا ہے تو اپنے آئی فون میں گوگل میپ بھی کھول لیتا ہے۔ گوگل میپ میں بول کر بھی ہدایات دی جاتی ہیں۔ گوگل گائیڈ کی طرح وقفے وقفے سے بولنا شروع کردیتا ہے۔ آج جب عدیل نے ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کا پتہ فیڈ کیا تو بروکلین سے مین ہاٹن تک کا راستہ نقشے کی صورت سامنے آگیا، گوگل اتنا لیفٹ رائیٹ کر رہا تھا کہ میرا سر چکرا گیا لیکن عدیل بڑے اطمینان اور خاموشی سے اُس کی ہدایت پر عمل کر رہا تھا۔ ہم پہلے بھی بروکلین سے مین ہاٹن آئے تھے لیکن اس بار یہ نیا ہی رستہ تھا۔

اُکتا کر میں نے عدیل سے پوچھا، ہر بار نیا رستہ؟ اِس طرح بھٹک نہیں جاتے؟ ہر دفعہ نئے راستے سے آنا غلط بھی تو ہوسکتا ہے۔

عدیل ہنسنے لگا، پھر کہنے لگا یہ دو جمع دو چار کی طرح ہے۔ آپ کو میرے ساتھ پھرتے اتنے دن ہوگئے ہیں، کبھی اس نے بھٹکایا؟

ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا، عدیل کہنے لگا۔

لیکن ہو تو سکتا ہے نا؟

پاپا، ایسا کبھی ہوا تو نہیں۔ اصل میں اِس ایپلی کیشن میں کسی بھی جگہ پہنچنے کا ہر ممکنہ راستہ فیڈ شدہ ہے۔ یہ ٹریفک کے حساب سے صاف راستوں کا تعین کر کے آپ کو منزل پر پہنچا ہی دیتے ہیں، اِسی لئے ہر بار راستہ مختلف ہوتا ہے۔

باتوں ہی باتوں میں کافی سفر گزر گیا۔ گوگل نے بیالسویں اسٹریٹ اور میڈیسن ایونیو سے گزرنے کا لیفٹ یا شاید رائیٹ اشارہ کیا۔ ایک قدیم سی بلڈنگ، سامنے سے گاڑی کی طرف آتی محسوس ہوئی۔

ارے اِس بار یہ ہمیں گرینڈ سینٹرل ریلوے اسٹیشن کے راستے سے لے آئی، آپ کی گوگل کی ماسی، عدیل نے ہنستے ہوئے کہا۔

یہ دنیا کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن ہے اور یہ اِسی اسٹیشن کی عمارت ہے۔ ہم اِس عمارت کے بائیں طرف سے ہوکر گزریں گے، عدیل نے بتایا۔

کمال ہے دنیا کی سب سے بڑی چیزیں امریکہ میں ہی پائی جاتی ہیں، میں نے کہا۔

یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ اعزازات امریکہ کے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ گرینڈ سینٹرل ریلوے اسٹیشن کے بارے میں جو اعزاز اسے حاصل ہے، وہ اب بھی امریکہ ہی کے پاس ہے، عدیل نے میری بات کا جواب دیا۔

تم نے بڑی معلومات حاصل کرلی ہیں، میں نے عدیل سے کہا۔

پاپا جب یہاں رہنا ہے تو معلومات تو اکھٹی کرنا پڑتی ہیں ناں، یہاں مختلف امتحانات کی تیاری کے لئے معلومات درکار ہوتی ہیں۔ بہت محنت کی ہے تحقیق کرنے میں، عدیل نے سامنے راستہ دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ تو تیری باتوں سے لگ رہا ہے، میں نے اُس کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

یہ ریلوے اسٹیشن بھی دیکھنے کی چیز ہے، میں اِسے دکھا تو دیتا لیکن پھر ہم ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ نہیں دیکھ سکیں گے۔ اب آپ کیا کہتے ہیں؟ یہاں رکیں یا چلیں؟ عدیل نے مجھ سے پوچھا۔

چلو یار ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ دیکھتے ہیں، راستے میں اسٹیشن کے بارے میں تم معلومات شئیر کردینا۔

ٹھیک ہے، کہہ کر عدیل نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

پاپا، یہ جو اسٹیشن ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا اسٹیشن ہے، یہ تو میں بتا ہی چُکا ہوں، اِس میں 123 ریلوے لائینیں ہیں، یہ دو منزلہ ہے۔ اس کی اوپری منزل پر 66 جب کہ نیچے والی منزل پر 57 لائینیں ہیں۔ یہ ریلوے اسٹیشن 1913ء میں مکمل ہوا۔ اِس اسٹیشن پر رش کی وجہ سے قیامت کا سا سماں ہوتا ہے۔ صبح اور شام کے وقت یہ ہجوم بہت بڑھ جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں آنے جانے والے طلباء، دفاتر میں کام کرنے والے، ذاتی کاروبار کے لئے مختلف جگہوں پر آنے اور جانے والوں کے علاوہ سیاحوں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہم گاڑی پر آئے ہیں میری لینڈ سے یہاں، لیکن اگر ہم ٹرین سے آتے تو ہم بھی انہی لوگوں میں شامل ہوتے جو ٹرین کو استعمال کرتے ہیں۔ لاکھوں لوگ روزانہ اِس ریلوے کے نظام کو استعمال کرتے ہیں، عدیل اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا کیونکہ ہم اُس جگہ کے قریب پہنچ گئے جہاں ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ واقع ہے، البتہ ہمیں پارکنگ بہت مشکل سے ملی۔ سڑک کے کنارے ایستادہ مشین میں عدیل نے سِکے ڈالے۔ اِس مشین کا سرخ نشان سکے ڈالتے ہی سبز ہوگیا، امریکہ میں پارکنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اگر غلط جگہ پارکنگ کردی تو گاڑی وہاں سے اٹھالی جاتی ہے اور جرمانہ بھی خاصا ہوتا ہے، پاکستان کی طرح نہیں کہ جہاں جی چاہا گاڑی کھڑی کی اور چل دئیے۔

وہاں سے ہم 42 اسٹریٹ پر جاپہنچے جہاں ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ واقع ہے۔ یہ زمین سے چھت تک 1250 فٹ اونچی عمارت ہے جسے امریکی انجمن برائے شہری انجینئرز نے جدید دنیا کے 7 عجائبات میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اتنی اونچی عمارت بنانے کا منصوبہ امریکی سیاستدان الفریڈ اسمتھ نے بنایا۔ اس کا اسٹیل فریم اتنا مضبوط ہے کہ 1945ء میں ایک جہاز حادثاتی طور پر اِس سے ٹکرا گیا تھا، جس کے نتیجے میں اِس عمارت کی صرف اوپر کی دو منزلوں کو نقصان پہنچا۔

سن 1931ء میں اپنی تکمیل سے سن 1973ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تعمیر تک یہ عمارت دنیا کی بلند ترین عمارت کا درجہ رکھتی تھی۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی 11 ستمبر 2001ء میں تباہی کے بعد یہ ایک بار پھر نیویارک سٹی کی بلند ترین عمارت بن چکی ہے، لیکن دنیا کی نہیں کیونکہ دنیا میں بہت بہت بلند عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی 102 منزلیں ہیں۔ فلموں میں اِس عمارت کو متعدد بار دیکھا تھا۔

میں نے سینما میں فلمیں دیکھنا بہت عرصہ ہوا چھوڑ دیا تھا لیکن کہا گیا کہ فلم ''کنگ کانگ'' آئی ہے، بڑی تھرلنگ فلم ہے لیکن اُسے دیکھنے کا مزہ سینما میں ہی ہے، سو ہم نے سینما میں کِنگ کانگ دیکھی۔ اِس فلم کا اختتام اسی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی چھت پر فلمایا گیا ہے، جہاں کنگ کانگ گوریلے کو مارا جاتا ہے۔ آج وہی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میرے سامنے تھی۔ ہم نے سڑک پار کی اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے اندر داخل ہوگئے۔ ایک بلند چھت تلے سرخ پتھر سے آراستہ ایک راستہ تھا، ایک لابی تھی جس کے ماتھے پر اِس بلڈنگ کی ایک شبیہہ نقش تھی اور جس کے گرد روشنی کا ہالہ تھا ویسا ہی ہالہ جو گرجا گھروں میں ننھے فرشتوں کے سروں کے گرد روشن ہوتا ہے۔ اِس شبیہ کے نیچے ایک ڈیسک کے پیچھے ایک خاتون سیاحوں کو معلومات فراہم کر رہی تھی۔

اُس خاتون کی معلومات کی روشنی میں ہم دوسرے منزل پر پہنچے، جہاں ٹکٹ گھر تھا۔ یہاں عدیل نے ٹکٹ خریدے اور ہم اوپر جانے کے لئے لفٹ کی جانب بڑھے۔ ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ایسے ہی ڈرایا ہوا تھا کہ بہت ٹائم لگتا ہے لیکن اتنی جلدی کام ہونے کی ہمیں توقع نہیں تھی، یہ ہماری غلط فہمی ہی تھی کیونکہ ہم سے آگے ایک طویل قطار تھی لفٹ تک پہنچنے کے لئے اور قطار کیوں نہ ہوتی، کہا جاتا ہے کہ تقریباً 40، 50 لاکھ سیاح ہر سال اِس عمارت کی سیر کو آتے ہیں۔ ہم نے اِس طویل قطار کو دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، عدیل نے کندھے اچکائے کہ اب کیا کیا جاسکتا ہے۔ آئے ہیں تو دیکھ کر ہی جائیں گے۔

لفٹ سے پہلے تلاشی کا ویسا ہی مقام آگیا جیسا مجسمہِ آزادی پر جاتے ہوئے پیش آیا تھا۔ کہتے ہیں، ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا لیکن جب سے دہشت گردوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کیا تھا اور ساتھ ہی امریکہ کی دیگر اہم تنصیبات کو بھی تباہ کرنے کا اعلان کیا تھا اُس وقت سے امریکہ کو بہانہ مل گیا اور انہوں نے اپنی تنصیبات کی حفاظت کی خاطر سیر کو آنے والوں کی تلاشی کا نظام رائج کردیا۔ ہمیں شاید ابھی اور وقت لگ جاتا لیکن عنایہ کے رونے نے ہمارا کام آسان کردیا اور تلاشی لینے والوں نے ہمیں پہلے بُلا کر فارغ کردیا۔

وہاں سے ہم لفٹ کی جانب بڑھے، ہم لفٹ میں داخل ہوئے تو اُس کے چلنے کا انتظار کرنے لگے لیکن یہ کیا، لفٹ ایک ہزار پانچ فٹ کی بلندی پر واقع 86ویں منزل پر ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پہنچ گئی۔ ہم اُس منزل پر اتر گئے، وہاں ایک ریستوران، صاف ستھرا ماحول، رنگ برنگی میزیں اور کرسیاں، سیاحوں کی ایک بڑی تعداد پہلے سے موجود تھی۔ باہر کی جانب دیکھا تو آس پاس کچھ بھی نہیں تھا اور دوسری عمارتیں بہت نیچے رہ گئیں تھیں۔ سیاح شیشے کے پار نیویارک کو دیکھ رہے تھے، ایک طرف ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا تو دوسری طرف دور اسٹیچو آف لبرٹی ایک ننھی سی گڑیا کی مانند نظر آرہا تھا۔

مجھے بلندی سے خوف آتا ہے، کسی آسمان سے باتیں کرتی عمارت کی انتہائی بلندی سے نیچے جھانک کر نہیں دیکھ سکتا، نیچے نظر ڈالتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظر کے ساتھ میں بھی نیچے گِر رہا ہوں۔ امریکہ کی اِس پہلی یاترا میں بچوں نے مجھے آسمان سے باتیں کرتے برقی ہنڈولے پر ساتھ تو بٹھا لیا تھا، لیکن میں نے توبہ کی تھی کہ ایسی جگہ نہیں جاؤں گا، جہاں اوپر سے نیچے جھانکنا پڑے، لیکن آج پھر اپنا وعدہ توڑ کر بچوں کے ساتھ اتنی بلندی پر آگیا تھا اور شیشے کی چار دیواری سے نیچے بھی جھانک رہا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ خوف کے احساس سے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور میری ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ بڑھ رہی تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔