عورت کا سرطان
زندگی اور موت دوجڑواں بہنیں ہیں
زندگی اور موت دوجڑواں بہنیں ہیں، مگرکبھی زندگی موت جیسی محسوس ہوتی ہے اورکبھی موت زندگی سے بھی زیادہ خوبصورت لگتی ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ زندگی کا مکان ہمیشہ کرائے کا ہوتا ہے اسے کوئی بھی خرید نہیں سکتا بس زندگی اور موت کا مالک جب چاہے اسے چھین لے۔
12 جنوری بروز جمعرات جرنلسٹ، شاعرہ، مصنفہ، فلم پروڈیوسر اور لیکچرار میڈم رخسانہ نور کو بھی اپنی زندگی کا مکان خالی کرنا پڑا۔ ان کے ایک شعری مجموعے ''الہام'' اور ایک گیتوں کی کتاب ''آ پیار دل میں جگا'' کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیاں اور گیت اپنی جگہ مقبول سہی لیکن یہ سچائی اپنی جگہ مسلم کہ گیتوں اورکہانیوں کی عمر ہوتی ہی کتنی ہے؟ انھوں نے واقعی زندگی اور موت دونوں کا سامنا اور مقابلہ بہت حوصلے، بڑے سلیقے، بڑی خوش اسلوبی، بڑی ہمت سے کیا۔ زندگی ہو یا موت انھوں نے حرف شکایت شاید خود پر حرام قرار دے رکھا تھا۔ انھوں نے اپنی تینوں بیٹیوں اورایک بیٹے کی پرورش تعلیم وتربیت بے حد جانفشانی سے کی، وہ اپنے قابل اولادوں کا تذکرہ بے پایاں محبت اور اپنے شوہر سید نورکا ذکر بے حد احترام سے کرتی تھیں۔
رخسانہ نور نے زندگی کے آخری ایام انتہائی تکلیف میں گزارے، انھیں گزشتہ کئی سالوں سے کینسرکا عارضہ لاحق تھا اور آخری دنوں میں ان کی کیموتھراپی چل رہی تھی جس کی تکلیف ان سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ ویسے بھی آنکھیں بھگونا عورت کا شروع ہی سے چلن رہا ہے، آنسو اس کے گھر کی جاگیر ہوتے ہیں اور بالآخر اس کی تمام عمر انھی آنسوؤں میں بہہ جاتی ہے۔عمر بڑھنے اور اگرکوئی درد مل جائے تو ویسے بھی دن کا چین اور رات کی نیند ختم ہوجاتی ہے لیکن ہر رات کی صبح توکرنی ہوتی ہے ۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مرد کو بے وفائی یا دوسری شادی اس کی پہلی بیوی یا عورت کے لیے سرطان سے زیادہ مہلک، حد درجہ تکلیف دہ اور جان لیوا ثابت ہوتی ہے اور عورت کا یہ سرطان جسے لاحق ہوجائے وہ کیموتھراپی سے زیادہ اذیت ناک اس کو لگتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا ہر عورت کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کے سینے میں وہ دھڑکتے دل کا رشتہ باقی جسم سے کسی سوتیلے جیسا ہوگیا ہے۔ سارا جسم اور سارے اعضا جب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں تب یہ سوتیلا تنہا دل اداس کسی روٹھے بچے کی طرح دور بیٹھا کسی اور ہی دنیا میں گم ہوتا ہے۔ ویسے بھی خود کو گم کردینے کے لیے ہمیشہ کسی جنگل یا ویرانے کی ضرورت نہیں ہوتی، انسانوں کا ہجوم اور اس سے وابستہ فرائض بھی خود کوکھودینے کے لیے بڑے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اپنے مرد شوہر،کی دوسری شادی عورت کو حد درجہ نامرادی اور مایوسی دیتی ہے اور مایوسی اور نامرادی کا مرض بھی کسی کینسرکسی سرطان سے کم نہیں ہوتا۔ رخسانہ نورکے شوہر مصنف فلمساز و ہدایت کار سید نور کی مشہور اداکارہ صائمہ سے دوسری شادی اور دامادوں کی موجودگی میں ایک ایکٹریس کو دوسری شریک حیات بنالینا ان کا بہت ہی بولڈ اسٹیپ تھا جو نہ جانے کیوں اورکیسے اتنی آسانی سے سید نور نے لے لیا؟ لیکن وہ اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ انھیں خواتین اورحضرات دونوں ہی سے بے پناہ محبتیں ملیں اور انھوں نے اپنی دانست میں ہر محبت کا مان رکھا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ محبت میں مان ٹوٹ جائے تو محبت طعنہ بن جاتی ہے۔
عورت پر اگر سوتن مسلط کردی جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی خوشی اس کے لیے حد درجہ چھوٹی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس کا شوہر اپنی خوشی اور دل کی خواہش کے نام پر ہی اسے دکھ کے حوالے کردیتا ہے۔ بھٹکے ہوئے کبھی نہ کبھی اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اپنے ہی گھر کے آنگن میں گم ہوجانے والے کبھی نہیں مل پاتے اور پھر اس کے نام پرگھر میں رہ جانے والی عورت کی آنکھ میں نہ انتظارکی تاب رہ جاتی ہے اور نہ اس کے قدموں میں تلاش کی سکت۔ ویسے بھی محبت کسی ایسے شخص کو تلاش نہیں کرتی جس کے ساتھ رہا جائے بلکہ محبت تو ایسے انسان کی تلاش میں رہتی ہے جس کے بغیر نہ رہا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ معافی سزا سے بڑی چیز ہوتی ہے اور وفا شعار عورتیں اپنے شوہرکو دوسری شادی کرنے پر معاف کردیتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے عورت بڑی مشکل سے اپنی ذات کی کرچیوں کو چنتی ہے، بڑے آنسو گرتے ہیں ان کرچیوں کے ساتھ۔ واقعی عورت اورآنسو کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے، جب سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تب بھی آنسو عورت کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ رخسانہ نور نے بھی اپنے سرتاج کی ''دوسری دلہن'' کو تسلیم کرلیا کہ عورت کا دل بہت بڑا ہوتا ہے اس کے وجود سے بھی زیادہ بڑا، اس میں دکھ اوردرد چھپانے کے لیے بہت جگہ ہوتی ہے،اگر خدا نے عورت کا دل ایسا نہ بنایا ہوتا تو کوئی بھی رشتہ قائم نہ رہ پاتا۔
کچھ عرصے رخسانہ نور امریکا میں اپنی دونوں صاحبزادیوں کے ہاں مقیم رہیں اور پھر وہ لاہور آگئیں اور اپنی تیسری بیٹی کے ساتھ علیحدہ رہنے لگیں اور سید نور، صائمہ کے ساتھ ایک نئی کوٹھی میں شفٹ ہوگئے۔ یہ بات فہم میں نہیں آتی کہ جب ایک دن ہمیں سب کچھ چھوڑ ہی جانا ہے تو پھر ہم اپنے ارد گرد درودیوار، رشتوں اورآس پاس کے ماحول سے اتنا جڑکیوں جاتے ہیں کہ ان سے ذرا سی دوری خود ہمیں توڑکے رکھ دیتی ہے۔ یہ دنیا اگر عارضی پڑاؤ ہے تو اپنے ساتھ عارضی پن کا احساس لے کر کیوں نہیں آتی؟
کتنی غور طلب بات ہے کہ مرد چاہے کوئی بھی ہو وہ ہمیشہ عورت کی ''پہلی محبت'' بننا چاہتا ہے جب کہ عورت اس کی ''آخری محبت'' بننے کی خواہش رکھتی ہے۔ ہمارے سماجی سیٹ اپ پر گہری نگاہ کی جائے تو یہ حقیقت بالکل سامنے کھڑی نظر آئے گی کہ ہمیشہ دل کے قریب رہنے والے ہی دل دکھانے کا سبب بنتے ہیں۔
رخسانہ نور نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ابلاغیات کے بعد اخبارات ورسائل میں فیچر رائٹرکی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغازکیا، ہم زمانے سے ان کی تحریروں کے قدردان رہے۔ سرورسکھیرا کے رسالے ''دھنک'' میں ان کے تحریری وصف بہت کھل کر ملے، مابعد ایک بڑے روزنامے کے میگزین پر انھوں نے اپنے قلم کے وصف کو احسن انداز سے استعمال کیا، رخسانہ آرزو کے نام سے ان کی تحاریر اشاعت پذیر ہوتی تھیں اور سید نور سے شادی کے بعد رخسانہ نور کہلائیں۔ انھیں ان کی تحریری خدمات پر مختلف اداروں کی طرف سے متعدد ایوارڈز دیے گئے۔ رخسانہ نور نے پنجاب یونیورسٹی سمیت متعدد جامعات میں درس وتدریس کے فرائض بھی انجام دیے اور اپنا پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا تھا۔
رخسانہ نور بلاشبہ ان ہستیوں میں سے تھیں جو پہلے دن ہی اپنے ملنے والے پر اپنا اثر چھوڑ دیتی ہیں۔ ان سے ملے برسہا برس ہوگئے لیکن ہمارے دل میں ہمیشہ ان کے لیے اپنائیت، عزت اور احترام موجود رہا۔ ان کا انتقال قدرتی اور فطری عمل ہے مگر دکھ کا باعث بھی ہے لیکن ہم خاکی انسان کر بھی کیا سکتے ہیں؟ دراصل دکھوں پر کسی کی اجارہ داری جو نہیں ہوتی۔ یہ آدم وحوا کا مشترکہ ورثہ ہیں، ہم سب کسی نہ کسی صورت میں دکھوں کے پالنے میں پل کر جوان ہوتے، بوڑھے ہوتے اور پھر قبرکی آغوش میں جا پہنچتے ہیں۔