ہارٹی کلچر ڈیولپمنٹ کمپنی میں بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کا انکشاف

2003 تا2014فنڈزبری طرح لوٹے گئے، بغیر اجازت1.1کروڑکے بیرونی دورے، بلاضرورت گاڑیوں کی خریداری پر67 لاکھ خرچ


Kashif Hussain January 26, 2017
 من پسندافرادکو35لاکھ کے نقصان میں وہیکلزکی فروخت، درجنوں گھوسٹ ملازمین کیلیے51لاکھ روپے ڈمپ۔ فوٹو: فائل

ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی اور برآمدات میں اضافے کیلیے بنائی گئی پاکستان ہارٹی کلچر ڈیولپمنٹ کمپنی کے پہلے آڈٹ میں ہی کروڑوں روپے کی بے قاعدگیوں اور سنگین مالی بدعنوانی کا انکشاف ہواہے۔

کمپنی کا قیام 2009میں عمل میں لایا گیا اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 2002-03 سے سال 2013-14تک کی مدت کے آڈٹ میں بدترین مالی بے ضابطگیوں، کروڑوں روپے کی خردبرد اور کمپنی کے مختلف پروجیکٹس میں سنگین بدعنوانیوں کی بھی نشاندہی کی۔ آڈیٹر جنرل نے کمپنی کے سی ای اوز کی جانب سے عوامی فنڈز کے بے دریغ غلط استعمال کی نشاندہی کرتے ہوئے متعلقہ سی ای اوز کیخلاف سخت ایکشن اور بھاری مالیت کی رقوم کی ریکوری کی ہدایت کی ہے۔

قانون کے مطابق وفاقی وزارت تجارت اور وزارت خزانہ سے منظوری لیے بغیر ہی 16افسران نے غیر ملکی دوروں اور سیر سپاٹوں پر 1 کروڑ 11لاکھ روپے کی رقم خرچ کردی۔وزارت خزانہ کی جانب سے اثاثوں کی خریداری پر پابندی کے احکام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گاڑیوں کی غیرضروری خریداری اور مرمت پر بھی بے دریغ رقم خرچ کی گئی، کمپنی کے ناکام پروجیکٹ کیلیے 8 گاڑیاں پہلے سے موجود ہونے کے باوجود 2012-13 کے دوران 67لاکھ روپے کی 5 نئی گاڑیاں خریدی گئیں، قومی خزانے اور ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ سے جیبیں بھرنے والے افسران نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کمپنی کی ملکیت 5گاڑیاں پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فروخت کے ٹینڈرمیں دھاندلی کرتے ہوئے نیلام کردی گئیں۔ ان گاڑیوں کی نیلامی سے قبل مرمت بھی کرائی گئی جبکہ گاڑیوں کی غیرشفاف نیلامی اور مرمت کرکے من پسند افراد کو اونے پونے فروخت کرنے سے کمپنی کو 35لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

کمپنی کے ایک سابق سی ای او نے اپریل 2010سے جون 2012کے دوران ہارٹی کلچر پروجیکٹ یونٹ سے متعلقہ سرگرمیوں کیلیے 32لاکھ روپے کی رقم ایڈوانس وصول کی مگر ان سرگرمیوں میں شرکت نہیں کی اور زیادہ تر رقم ذاتی اخراجات پر خرچ کردی، سابق سی ای او نے اس پروجیکٹ سے ایڈوانس فنڈ لینے کے مجاز نہیں تھے۔

آڈیٹر جنرل نے متعلقہ سابق سی ای او سے 32لاکھ روپے وصول کرنے اور سخت کارروائی کی ہدایت کردی۔ رپورٹ میں کمپنی میں 42 گھوسٹ ملازمین کا بھی انکشاف کیا گیا جن کی پوسٹنگ دکھائے بغیر ہی تنخواہیں جاری کی جاتی رہیں، ان کی حاضریوں کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں، گھوسٹ ملازمین کی آڑ میں کمپنی کے 51لاکھ روپے سے زائد کے فنڈز ٹھکانے لگادیے گئے۔ آڈیٹر جنرل کی ہدایت کے باوجود انتظامیہ ان فرضی ملازمین کا تصدیقی ریکارڈ پیش نہ کرسکی جس پر آڈیٹر جنرل نے متعلقہ افسران سے 51لاکھ روپے کی ریکوری کی ہدایت کی ہے۔

دوسری جانب کمیونی کیشن کمپنی سے ڈیپوٹیشن پر لگائے گئے سی ای او کو خلاف ضابطہ ایڈہاک ریلیف اور ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی مد میں غیرقانونی طور پر 7لاکھ 54ہزار روپے جاری کیے گئے۔ وہ پبلک فنڈ کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ جون 2010 سے مارچ 2015 کے دوران ملکی وغیرملکی ٹریولنگ، ایڈوانس تنخواہ، ذاتی ایڈوانس، اپنی فیملی کی کینیڈا ٹریولنگ کیلیے فضائی ٹکٹ کے اخراجات اور فیول کی مد میں 1کروڑ 79 لاکھ روپے کی ایڈوانس وصولی کرکے بے ضابطگیوں کے تالاب میں غوطے کھاتے رہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیاکہ ان میں سے بہت سے اخراجات فرضی سفر پر خرچ کیے گئے جو کیا نہیں گیا، مذکورہ سی ای او ایڈوانسز کی مد میں لی گئی 1کروڑ 79لاکھ روپے میں سے 67لاکھ روپے کا حساب تک دینے میں ناکام رہے جس پر آڈیٹر جنرل نے رقم کی ریکوری اور پبلک فنڈ میں خردبرد کرنے والے سی ای او کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ کمپنی کیلیے ڈیفنس لاہور میں لی گئی کرائے کی عمارت پر تزئین و آرائش کی مد میں 4 سال میں 58لاکھ روپے کی رقم ٹھکانے لگادی گئی۔

آڈیٹر جنرل نے خرچ غیرضروری اور مشکوک قرار دیتے ہوئے ملوث افراد کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔کمپنی کے 1 پروجیکٹ ایچ پی یو کیلیے پی سی ون میں آسامی نہ ہونے کے باوجود اشتہار دیے بغیر سینئر جنرل منیجر کی تقرری کی گئی اور جون 2011 میں پروجیکٹ کی مدت ختم ہونے کے باوجود تقرری پانے والے افسر کو ادائیگیاں کی جاتی رہیں، آڈیٹر جنرل نے اس تقرری اور ادا کی جانیوالی 35لاکھ روپے کی رقم کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے متعلقہ سی ای او کیخلاف وزارت کی سطح پر تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کراچی کی 1ٹریول ایجنسی کو ایئرلائنز کے ٹکٹس اور سفری اخراجات کی مد میں 16لاکھ روپے کی ادائیگیاں کی گئیں جن کے عوض ٹکٹ تک نہیں خریدے گئے اور ٹریول ایجنسی متعلقہ ریکارڈ فراہم کرنے میں ناکام رہی آڈیٹر جنرل نے ان ادائیگیوں کو بوگس قرار دیتے ہوئے قانونی کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں