قسمت

ہزاروں لاکھوں سال کی یہ دنیا اب تک حضرت انسان کو نہیں سمجھا سکی کہ یہ قسمت کیا ہوتی ہے


[email protected]

KARACHI: قسمت کیا ہے؟ ہزاروں لاکھوں سال کی یہ دنیا اب تک حضرت انسان کو نہیں سمجھا سکی کہ یہ قسمت کیا ہوتی ہے؟ سیکڑوں سال کی ترقی یافتہ دنیا اب تک واضح نہیں کرسکی کہ تقدیر اور تدبیر کے کرشمے کیا ہیں؟ دنیا بھر کے ہزارہا قابل لوگ بھی کسی بدقسمت انسان کو نہیں سمجھا سکے کہ Good Luck اور Bad Luck کا چکر کس اصول پر چلتا ہے۔ کرکٹ، تجارت اور فلم کی دنیا میں جھانک کر ہم سمجھتے ہیں کہ قسمت ہوتی کیا ہے؟

کالم کا عنوان ''قسمت'' عبدالحفیظ کی دوسرے ون ڈے میں شمولیت سے ذہن میں پیدا ہوا۔ دنیا بھر میں آل راؤنڈرز میں نمبر ون پوزیشن کے خوش قسمت کھلاڑی سے تب قسمت کئی ماہ سے روٹھ گئی تھی۔ پہلے کپتانی گئی اور پھر بالنگ پر پابندی لگ گئی۔ فارم روٹھ جائے تو اچھے سے اچھے کھلاڑی کی قسمت روٹھ جاتی ہے۔ کئی ماہ تک ٹی وی یا اسٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ کی سیریز میں حفیظ کو دعوت نہ دی گئی، پھر اچانک قسمت چار طرف سے چمک اٹھی اور حفیظ کی قسمت میں چار چاند لگ گئے۔ ون ڈے ٹیم میں شمولیت پہلا چار چاند تھا۔ ممکن ہے اوپنر کا کیچ پکڑ لیا جاتا تو لگتا کہ قسمت حفیظ سے روٹھ گئی ہے۔ ایسا نہ ہوا اور حفیظ نے نصف سنچری بنالی۔

کپتانی کا تاج حفیظ کے سر پر سج گیا کہ اظہر علی زخمی ہوگئے اور نائب کپتان سرفراز اپنی والدہ کی علالت کے باعث آسٹریلیا سے پاکستان آگئے۔ کپتانی کا تاج حفیظ کے سر پر سج جانا دوسرا چاند تھا۔ کپتانی اور پرفارمنس کے باوجود پاکستان میچ ہار سکتا تھا۔ اس سے قبل سات لگا تار شکستیں پاکستانی ٹیم دیکھ چکی تھی، ایک ویسٹ انڈیز سے، دو نیوزی لینڈ سے اور تین آسٹریلیا سے۔ یوں لگاتار چھ ٹیسٹ میچوں میں شکستیں اس سے قبل پاکستانی ٹیم نے کبھی نہ دیکھی تھیں۔ آسٹریلیا سے پہلے ون ڈے میں شکست اس ٹیم کی لگاتار ساتویں شکست تھی۔ ٹیم میں حفیظ کی شمولیت کے علاوہ کپتان کے ساتھ ساتھ کامیابی تیسرا چاند تھا جو حفیظ کی قسمت پر چسپاں ہوگیا۔ چوتھا چاند کون سا تھا؟ مین آف دی میچ قرار پانا حفیظ کے لیے چوتھا چاند تھا، جس نے آل راؤنڈر کی قسمت کو چار چاند لگا دیے۔

حفیظ نامی کھلاڑی اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود کیوں کئی ماہ سے ٹیم سے باہر تھے؟ اگر اسے قسمت کا کرشمہ نہ کہا جائے تو وہ کون سی تدبیر تھی جو حفیظ نے اختیار نہ کی ہو۔ تمام تر تدبیروں کے باوجود سلیکٹرز اگر حفیظ کو ٹیم میں منتخب نہ کرتے تو کیا ہوتا؟ کچھ بھی نہ ہوتا اور حفیظ سال چھ مہینے کے بعد بھلا دیے جاتے۔ اسی طرح فراموش کردیے جاتے جس طرح ٹیم سے شاہد آفریدی، کامران اکمل اور احمد شہزاد کو فراموش کردیا گیا ہے۔ سب کچھ تقدیر نہیں ہوتی بلکہ تدبیر بھی کچھ ہوتی ہے۔ جی ہاں! تدبیر۔

اب قارئین یوٹرن لینے کا الزام لگائیں گے کہ اب تک کالم نگار نے سب کچھ تقدیر کو قرار دیا تھا اور اب تدبیر کی بات کرنے لگے ہیں۔ سلمان بٹ اور محمد آصف آج اگر ٹیم سے باہر ہیں تو ہم اسے ان کی بدقسمتی نہیں بلکہ بدتدبیری قرار دے سکتے ہیں۔ عزت، دولت اور شہرت گھر کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ محمد آصف کو مستقبل کا فضل محمود اور عمران خان قرار دیا جارہا تھا۔ پیسوں کی خاطر یا یوں کہہ لیں کہ چند ٹکوں کی خاطر ان کھلاڑیوں نے خود ہی خوش قسمتی کا دروازہ بند کردیا اور ''خود کش دھماکے'' کر بیٹھے۔

امریکی صدر سے ملاقات کو بڑے بڑے سربراہان اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہیں۔ سلمان بٹ کو امریکی صدر بش جونیئر سے دورہ پاکستان میں ملاقات کا موقع ملا۔ جارج بش کو کرکٹ بھی لاہور میں کھلانی تھی اور انگریزی میں تھوڑی بہت بات چیت بھی کروانی تھی۔ یوں قسمت سلمان بٹ پر مہربان ہوئی اور انھیں امریکی صدر کے ساتھ کھیلنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ یہ خوش قسمتی کی انتہا تھی ایک تیس سالہ کھلاڑی کے لیے۔

اب بدقسمتی کی انتہا دیکھیے اور کہیے کہ تقدیر اور تدبیر کے کھیل کیسے نرالے ہوتے ہیں۔ آصف اور عامر کے ساتھ سلمان بٹ اپنے آپ کو برطانوی قانون کے حوالے کرنے پر مجبور ہوئے۔ جوا کیسے لگا، الزام ویڈیو کے ذریعے منظر عام پر آچکا تھا۔ کھلاڑیوں کے ہوٹل کے کمرے سے کرنسی برآمد ہوئی، جس کی وضاحت نہ کی جاسکی۔ لندن میں عدالت نے تینوں کھلاڑیوں کو قید کی سزا سنائی۔ اسے کہتے ہیں تدبیر کی خامی۔ چلیں مشہور کھلاڑیوں سے ہٹ کر عام آدمی پر نظر دوڑاتے ہیں کہ اس کی زندگی میں تدبیر اور تقدیر کی تعریف کیا ہوگی اور پھر اس کے بعد فلمی دنیا پر نظر دوڑائیں گے۔

ایک آدمی بس میں بیٹھا ہے اور بس حادثے کا شکار ہوگئی۔ وہ آدمی زخمی ہوگیا۔ یہ اس کی بدقسمتی تھی۔ ہم اسے تدبیر کی خامی نہیں کہہ سکتے۔ ایک شخص کراچی سے حیدرآباد جانے کے لیے ایک بس میں سوار ہوا، اتر کر دوسری بس میں بیٹھ گیا جو حادثے کا شکار ہوگئی۔ یہ بھی اس شخص کی بدقسمتی تھی اس میں تدبیر کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص چلتی بس کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور حادثے کا شکار ہوجائے تو؟ ہم کہیں گے کہ اس آدمی نے بیوقوفی کی۔ یہ اس کی بدتدبیری تھی کہ اسے انتظار کرلینا چاہیے تھا۔

قسمت کیا ہوتی ہے؟ اس پر موٹے موٹے پردے لگے ہوئے ہیں۔ ایک بینک کی ملازمت نہ پاسکنے والا مایوسی سے سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ اسے ایک دوست مل گیا۔ کوچنگ سینٹر میں ساتھ پڑھنے والا دوست تو کیا تھا بس جان پہچان تھی۔ پوچھا کیا ہوا؟ جواب دیا کہ انٹرویو میں فیل کردیا۔ اس نوجوان کے والد بینک میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ اس نے اپنے ابو سے کہہ کر اس نوجوان کو جاب دلادی۔ آگے چل کر بے شک وہ اپنی عمدہ تدبیر سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوا لیکن موقع تب ملا جب قسمت نے یاوری کی۔ بڑا نازک معاملہ ہے نا تقدیر اور تدبیر کا۔

ایک بزنس مین بتاتے ہیں کہ انھوں نے بیس پچیس سال پہلے چند لاکھ کا مال منگوایا۔ مندی ہوگئی اور کوئی بھی مال لینے کو تیار نہ تھا۔ آٹھ لاکھ کا مال چھ سات لاکھ میں تو کوئی اٹھانے کو تیار نہ تھا۔ بڑی خوشامدیں کیں کہ چند ماہ بعد پیسے دے دینا لیکن کوئی آگے نہ بڑھا۔ اچانک حکومت نے اس آئٹم کی امپورٹ پر پابندی لگادی۔ اب لوگ دھڑا دھڑ وہ مال لینے کو آگے آگئے۔ کیش اور چیک لے کر خوشامدیں کرنے لگے۔ جو مال چھ لاکھ میں لینے کو تیار نہ تھے وہ منت سماجت کرکے منہ مانگے داموں لے گئے۔

وہ کاروباری شخص کہتا ہے کہ اس میں میری کیا تدبیر تھی۔ عام حالات کے علاوہ سیاسی اتار چڑھاؤ بھی امیر کو فقیر اور غریب کو بادشاہ بنادیتا ہے۔ مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو سونا۔ جیسے لوگ جب بدقسمتی کے بھنور میں پھنستے ہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ جب سونے کو ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ مٹی بن جاتا ہے۔ شاندار بنگلوں میں رہنے والوں اور عمدہ گاڑی میں باوردی ڈرائیور کے دروازے کھولنے پر اترانے والوں کو گنہگار آنکھوں نے ٹین کی چھت والے چھوٹے گھروں میں زندگی کے آخری دن گزارتے دیکھا ہے۔ ابھی تک تقدیر اور تدبیر کا کھیل سمجھ میں نہیں آرہا۔

سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو ڈرائیور گاڑی بھگا کر اپنی اور دوسرے کھلاڑیوں کی جان بچا گیا۔ حکومتوں اور کھلاڑیوں نے اس ڈرائیور پر روپے پیسوں کی برسات کردی اور وہ کروڑ پتی ہوگیا۔ اس کے ساتھی ڈرائیور وہی چند ہزار روپے کی نوکری کر رہے ہیں۔ اگر کوئی اور ہوتا تو شاید وہ بھی گاڑی بھگا لے جاتا لیکن موقع کسی اور کو ملا۔ وحید مراد اور ندیم ستر کے عشرے میں پاکستان فلم انڈسٹری کے چمکتے ستارے تھے۔

فلمسازوں اور ہدایت کاروں نے بڑی کوشش کی کہ اسی شکل، بال اور حلیے کے اچھی اداکاری کرنے والے ہیروز ملیں۔ عقیل اور ناظم اس معیار پر پورے اترتے تھے۔ ان کا زمانہ بھی پاک فلم انڈسٹری کے عروج کا زمانہ تھا۔ تمام تر تدبیروں اور صلاحیتوں کے باوجود قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ سلطان راہی کہیں سے فلمی ہیرو نہ لگتے تھے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ پنجاب کے عوام اور سلطان راہی کا معاہدہ ہے کہ فلم وہ دیکھیں گے جس میں ان کا پسندیدہ ہیرو اس فلم کا ہیرو ہو۔ یہی کچھ معاملہ بدر منیر اور پختونوں کا تھا۔ اسے کہتے ہیں قسمت۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں