دو بچیوں کے دو مقدمات
عدالت کے لیے یہ ایک مشکل مقدمہ تھا کہ بچی کو پالنے والوں سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہ تھا۔۔۔۔
بارہ تیرہ سال کی دو بچیوں کے مقدمات سے واسطہ پڑا۔ اچھے گھروں میں رہنے والی اور اچھے اسکولوں میں پڑھنے والی دو بچیاں۔ سب کی لاڈلی اور راج دلاری دو بچیاں۔ ان کے گھر والوں کو اگر امیر نہیں کہا جاسکتا لیکن خوشحال ضرور کہا جاسکتا ہے۔ دونوں بچیوں کو کیوں عدالت میں آنا پڑا؟ یہ ضرور ہوا کہ دونوں عدالتوں کی جج خواتین تھیں۔ بچیوں نے انھیں دیکھا ہوگا تو حوصلہ ملا ہوگا کہ وہ بھی آگے چل کر یہ مقام پاسکتی ہیں۔ چار ماہ میں دونوں مقدمات کا فیصلہ ہوگیا اور دونوں بچیوں کو دو دو مرتبہ عدالت آنا پڑا۔ کیوں؟ یہ آج کے ہمارے کالم کا موضوع ہے۔
اٹھارہ سال کی ایک میٹرک کی طالبہ کا ذکر ہم نے پچھلے کالم میں کیا تھا۔ وہاں بچی کا آنا لازمی تھا کہ دادا دادی نے اس بچی کو اپنی بیٹی ظاہر کیا تھا۔ ہم نے صرف اتنا کہا تھا کہ اس عمر کا لڑکا تو خود اسکوٹر پر بیٹھ کر اکیلا آجاتا ہے جب کہ بچی کو اپنی پھوپھی، والدہ یا والد کے ساتھ آنا پڑتا ہے، وہ نہ ہوں تو لڑکیوں کو ماموں یا چچا کے ساتھ بھیجا جاتا ہے کہ وہ محرم ہوتے ہیں۔ آج بھی ہم بچیوں کے حوالے سے نازک سوالات اٹھا رہے ہیں۔ غریب گھرانوں کی امیر خاندانوں میں کام کاج کرنے والی بچیوں پر مظالم ہمارے سامنے آرہے ہیں، جس میں قصور قانون کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں کا بھی ہے۔ آج دو بچیوں کے مقدمات میں کمزوری خالصتاً قانون کی ہے۔
ایک استانی کی شادی بڑی عمر کے شخص سے ہوئی۔ وہ صاحب کئی بچوں کے والد تھے۔ استانی کا اپنا گھر اور اسکول تھا۔ اولاد نہ ہونے کے سبب ان خاتون نے ایک بچی کو گود لیا۔ بچی چند گھنٹوں کی تھی جب وہ ان کے اور ان کے بھائی کے ہاتھوں میں تھی۔ خاتون اسکول میں جب بچوں کو پڑھا رہی ہوتیں یا دوسری مصروفیات ہوتیں تو بچی ان کے بھائی کے گھر میں رہتی۔ بھائی اور بھابی اس بچی کو اپنی اولاد کی طرح رکھتے۔ جب لے پالک بچی آٹھ نو سال کی ہوئی تو اس کی منہ بولی والدہ انتقال کرگئیں۔ اب بچی اپنے ماموں کے گھر رہنے لگی۔ اس عرصے میں ان کی بھی اولاد ہوئی۔ قدرت دیکھیے کہ تمام بیٹے ہیں جو اس بچی کو باجی کہتے اور اپنی بڑی بہن سمجھتے ہیں۔ کاغذات اور فارم ''ب'' میں بچی کی ولدیت ان خاتون نے اپنے شوہر کی لکھوائی تھی۔ اب بچی کو نویں جماعت کا امتحان بورڈ سے دینا ہے۔ بچی کے سرپرست بننے کے لیے مرحومہ خاتون کے بھائی کی جانب سے مقدمہ دائر کیا گیا۔ تصویر کے ساتھ ساتھ بچی کا عدالت میں پیش ہونا بھی لازمی تھا۔ یہ بات ایک تیرہ چودہ سالہ انسان کے لیے دردناک ہوتی ہے کہ اس کے والدین کون ہیں؟ ماں باپ وہ نہیں جن کے ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر کون ہیں اسے جنم دینے والے؟ وہ کس کی اولاد ہے؟ وہ جس کی اولاد ہے انھوں نے اسے اپنے ساتھ کیوں نہیں رکھا؟ ان سوالات کے جوابات نہ خاندان کے پاس تھے اور نہ ان کا حل وکلا و عدالت کے پاس تھا۔ بطور وکیل ہمارے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا کہ بچی کو کس سے اور کیوں کر لیا گیا۔ یہ تمام معاملات طے کرنے والی خاتون اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔
عدالت کے لیے یہ ایک مشکل مقدمہ تھا کہ بچی کو پالنے والوں سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہ تھا۔ سرپرستی کا سرٹیفکیٹ عدالت سے طلب کرنے والے ہی لڑکی کی پرورش کر رہے تھے۔ بچی کی صحت اور اس کی تعلیم ظاہر کرتی تھی کہ اسے بہت اچھے طریقے سے رکھا گیا ہے۔ ان تمام مثبت نکات کے باوجود بھی یہ ایک مشکل مقدمہ تھا۔ عدالت سے کہا گیا کہ دنیا کی سات ارب کی آبادی میں صرف ایک شخص ہی بچی کا رکھوالا ہے، جو اپنی بیوی کو بھی عدالت کے روبرو پیش کرنے کو تیار ہے۔ ان تمام دلائل کے باوجود عدالت کی ہچکچاہٹ فطری تھی۔ آخری دلیل یہ تھی کہ اگر عدالت ہمیں سرپرستی کا سرٹیفکیٹ نہ دے تب بھی بچی اپنے منہ بولے ماموں و ممانی کے ساتھ رہے گی۔ یہ وہ جوڑا ہے جو بچی کو تیرہ چودہ سال سے سنبھالے ہوئے ہے۔ بچی کسی اور کو تو نہیں دی جائے گی، بس درخواست دہندہ کو سرکاری محکموں اور تعلیمی بورڈ آفس میں مشکلات پیش آئیں گی۔ ان دلائل کے بعد عدالت نے اپنی مزید تسلی و تشفی کے بعد سرپرستی کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ یہ ایک نازک معاملہ تھا۔ ایدھی اور چھیپا سے بچے حاصل کرنے والے بے اولاد جوڑوں کو بھی ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ ایسے بچوں یا تمام لوگوں کے لیے شناختی کارڈ اور فارم ''ب'' میں ولدیت کے ساتھ Guardian یا سرپرست کا بھی خانہ ہونا چاہیے۔ اگر سرکار اور افراد ایسے معاملات بچوں کے بچپن میں طے کرلیں تو سمجھدار ہو کر بچوں کو نازک معاملات کے حل کے لیے عدالت نہ آنا پڑے۔
دوسری بچی کا دوسرا مقدمہ تھوڑا مختلف ہے۔ میاں بیوی کی طلاق یا خلع کے بعد بچے عموماً ماں کے پاس رہتے ہیں۔ جب تک بچے اسکول میں پڑھتے ہیں اور اپنے ملک میں رہتے ہیں تب مسائل جنم نہیں لیتے۔ الجھن تب ہوتی ہے جب تعلیمی بورڈ آفس سے واسطہ پڑتا ہے یا بیرون ملک جانے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ باپ ایک فطری سرپرست ہے جب کہ ماں نہیں ہے۔ ماں کو سرپرستی کا سرٹیفکیٹ عدالت سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔
شوبز کی دنیا کی ایک خاتون نے رابطہ کیا۔ شوہر سے خلع کے بعد بچی ان کی زیر نگرانی ہے۔ بیرون ملک بچی کے سفر کے لیے پاسپورٹ بنوانے کے لیے والدین کی افسر کے روبرو حاضری یا عدالت سے سرٹیفکیٹ لازمی ہے۔ ماں کو عدالت سے سرپرستی کا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے اپنے شوہر سے خلع کا فیصلہ اور ڈگری کے علاوہ عدالت میں بچی کا پیدائشی سرٹیفکیٹ، بجلی، گیس کے بلز، پاسپورٹ کی فوٹو کاپی اور ٹی وی چینل کا سرٹیفکیٹ کہ خاتون ان کے ادارے میں کام کرتی ہیں اور تنخواہ پاتی ہیں۔ ''ایک آگ کا دریا اور ڈوب کے جانا ہے'' کا سا معاملہ تھا۔ اگر میاں بیوی ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اولاد اگر باپ کے پاس ہے تب بھی اسے کوئی الجھن نہیں ہے کہ وہ حقیقی سرپرست ہے۔ اگر ماں کے پاس بچے ہیں تو اسکول کی حد تک کوئی خاص مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ تعلیمی بورڈ، نادرا اور پاسپورٹ آفس جیسے ریاستی اداروں میں ماں کو سرپرست نہیں مانا جاتا۔ اس حوالے سے کم عمر بچوں کے فارم ''ب'' میں والدہ کا نام ہوتا ہے تو پھر ماں کو کیوں حقیقی سرپرست تسلیم نہیں کیا جاتا؟ علما کرام اور قانون دانوں سے قانون کے ایک طالب علم کا چھوٹا سا سوال۔ اس سوال کے ساتھ کہ کیا شناختی کارڈ میں والد کے ساتھ والدہ کا نام نہیں ہوسکتا؟
کہتے ہیں قیامت کے دن ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ مرحوم حنیف رامے کے نام میں ان کی والدہ کی شناخت تھی۔ یہ ضرور ہے کہ میاں بیوی کی حاضری بچوں کے پاسپورٹ بنوانے کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ راقم کو اپنے نابالغ بچے کا پاسپورٹ بنوانے کے لیے بیگم کے ساتھ حاضر ہونا پڑا تھا۔ یہ ایک احتیاطی تدبیر ہے کہ میاں بیوی کے جھگڑے میں کوئی ایک فریق بچے کو دوسرے ملک نہ لے جائے۔ اس حد تک بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دوسرے اداروں میں سگی ماں، جی ہاں سگی ماں کو عدالتوں کے دھکے کھلانا کس حد تک مناسب ہے؟ جنم دینے والی کو اپنی اولاد کا سرپرست تسلیم کرنے میں کیا قباحت ہے؟ یہ سوال علم اور قانون کی دنیا کے بڑے دماغوں سے پوچھنے کے لیے تب دماغ میں آیا جب سامنے آئے دو بچیوں کے دو مقدمات۔