عہد ساز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو
سعادت حسن منٹو نے ہمیشہ انسانی نفسیات کو ہی اپنا موضوع بنایا۔۔۔
یہ سچ ہے کہ ہر ذی روح کا انجام فنا ہے۔ بقا صرف ذات باری کا خاصا ہے لیکن بہ تقاضائے بشریت جانے والوں کی یاد میں ملول و مغموم ہونا ایک فطری امر ہے، اس لیے قلم کی آنکھ سے یاد رفتگاں کے موضوع پر آنسو ٹپکتے رہتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو اردو کے ممتاز، منفرد اور عہد ساز افسانہ نگار تھے بمشکل تمام انھوں نے 43 سال کی عمر گزاری۔
18 جنوری 2017ء کو ان کی 62 ویں برس منائی جائے گی۔ انھوں نے اپنی وفات سے پانچ ماہ قبل 18 اگست 1954ء کو اپنا کتبہ خود لکھا جو حسب ذیل ہے۔ ''یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے۔ اس کے سینے میں فن افسانہ نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا؟''
لیکن منٹو کی قبر پر کندہ کتبے کی عبارت یہ ہے۔''یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے۔ جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں تھا۔''
یہ بات بلاخوف و تردید کہی جاسکتی ہے کہ اردو افسانے کی تاریخ سعادت حسن منٹو کے ذکر کے بغیر کسی صورت مکمل نہیں ہوسکتی۔ عالمی سطح پر منٹو ہماری ادبی شناخت کے معتبر حوالوں میں ہمیشہ شامل ہیں۔ انھوں نے افسانوں کے بائیس مجموعے، ایک ناول، ریڈیو کے لیے پانچ ڈرامے، مضامین کے تین مجموعے، شخصی کردار نگاری کے دو مجموعے اور متعدد فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے، ایک فلم ''آٹھ دن'' میں انھوں نے اداکاری بھی کی۔ انھیں اردو نشریاتی ڈرامے کی تاریخ میں بھی پیش رو کی حیثیت حاصل ہے، جب کہ تراجم (اردو) مضمون نویسی، فیچر نگاری، خاکہ نویسی اور تنقید نگاری جیسے میدانوں میں بھی سعادت حسن منٹو نے اپنی امتیازی شناخت قائم کی۔
انھوں نے افسانوں کے بائیس مجموعوں میں ایک قدر ہمیشہ مشترک چھوڑی اور وہ یہ کہ انھوں نے انسانی اقدار کی سربلندی ، سرخروئی، احترام آدمیت، انسان کی عزت نفس اور معاشرے کی ناہمواریوں کو موضوع بناکر اجتماعی اور انفرادی انسانی صورتحال کے جس قدر حقیقت پسندانہ تجزیے کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
سعادت حسن منٹو نے ہمیشہ انسانی نفسیات کو ہی اپنا موضوع بنایا اور 1936ء میں ''ماہنامہ عالمگیر'' کا ''روسی ادب'' مرتب کرکے تو منٹو اہل وطن کی نگاہوں کے مرکز بن گئے تھے۔ منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ''آتش پارے'' بھی 1936ء میں منظر عام پر آیا۔ برہنہ گفتاری کے عادی منٹو کا قلم ہمیشہ سماجی حدود و قیود کی پابندیوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ وہ جس سماجی یا معاشرتی برائی یا مسئلے کو بے نقاب کرتے اس کی پاداش میں انھیں عدالتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ کالی شلوار، بُو، ٹھنڈا گوشت، اوپر نیچے درمیان، کھول دو، دھواں اور بلاؤز وغیرہ ان کے وہ شاہکار، ناقابل فراموش اور بامقصد افسانے تھے جنھوں نے ادبی دنیا میں ہلچل مچا دی اور ان افسانوں کی بے باکی نے عدالتی مقدمات کی ایک طویل تاریخ مرتب کر دی۔ سماج کے محروم، مظلوم، نچلے اور کچلے طبقے کی زندگیوں کو بے جھجک بیان کرنا سعادت حسن منٹو کی فطرت ثانی تھا اور ان کے مسائل کو اپنے بے مثال اور لازوال قلم سے پیش کرکے سماج کے منہ پر مارنا ان کا کارنامہ اور افسانوی ادب کا سرنامہ تھا۔
سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں کی تخلیق کو اپنے قلم کی توفیق سے اردو ادب کی تاریخ کا انمٹ حصہ بنا دیا۔ برسہا برس ہو گئے منٹو کے افسانوں کا جادو اردو ادب کے حوالے سے ابھی تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ بہت بڑے ماہر فن تھے، افسانوی تکنیک کے اسرار و رموز کے شناور تھے اور جنس کے بہت بڑے مبلغ بھی۔ ان کی حق گوئی و بے باکی اور ان کی پیداکردہ خود اعتمادی جس نے ان میں وہ جرأت پیدا کی جو نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کسی اور کے حصے میں آسکی، یہی نہیں بلکہ آج کا عہد اپنے منٹو کی تلاش میں نظر آتا ہے۔
اس دور منافقت میں ہمیں منٹو کے روپ میں اس جرأت رندانہ کی ضرورت ہے جو منافقت کے رنگ سے پاک ہو۔ منٹو میں کڑوی سچائی کو دیکھنے، اسے پرکھنے اور یوں اس کے برملا اظہار کی جو جرأت تھی، آج وہی ہم میں نہیں رہی۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ ایک ایسے آدمی تھے کہ جس سے نہ ترقی پسند خوش تھے اور نہ رجعت پسند۔ وہ ایک ایسے انسان تھے کہ جس سے نفرت بھی کی گئی اور محبت بھی۔ وہ ایک ایسا سرمایہ تھے کہ جس کی قدر بھی کی گئی اور ناقدری بھی۔ وہ ایک ایسے عظیم لکھاری تھے کہ ان کی بدزبانی پر پاکیزہ بیانی رشک کیا کرتی۔
سعادت حسن منٹو ایسے اصول پسند رائٹر تھے کہ ان کے مزاج میں سماج کی برہنگی کو پیرہن عطا کرنے کا کوئی تصور نہ تھا۔سعادت حسن منٹو کے ہیرو اور ہیروئن وہ رہے جنھیں اس نظام نے آوارہ، غنڈہ اور بدمعاش بنادیا لیکن پھر بھی وہ اپنی فطرت سے مجبور ہوکر انسان رہتے ہیں اور منٹو کے ولن وہ ہوتے جو انسانیت کی جھوٹی قبا خرید کر اوڑھنے کے باوجود بدمعاش اور مکار ہی رہتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کی وفات اردو افسانے کے لیے ایک فال بد ہے۔
ایسا نڈر، ایسا بے باک، ایسا صاف گو افسانہ نگار اردو ادب نے واقعی آج تک پیدا نہیں کیا۔ خود منٹو اپنی تحریروں کے بارے میں کہتے تھے کہ ''ماحول کا زہر میرے اندر سرائیت کرگیا اسی لیے میں زہر اگلتا رہتا ہوں۔''سعادت حسن منٹو کی ذات کے حوالے سے یہ ایک مسلم سچائی ہے کہ انھوں نے 43 برس کی عمر میں متعدد افسانے، ریڈیو ڈرامے، تخلیقی مضامین، فلمی کہانیاں، خاکے اور کالم لکھ کر اردو ادب میں وہ مقام حاصل کرلیا، جو اس سے دگنی عمر کے زندہ افسانہ نگار اور منٹو کے معاصر حاصل نہ کرسکے۔
آج منٹو کے متعدد معاصرین کو وقت کے جاروب کش نے لوح ادب سے مٹا دیا ہے اور وہ اپنی زندگی میں اپنی شکست کی آواز سن کر افسردہ اور غم زدہ وقت گزار رہے ہیں، لیکن سعادت حسن منٹو کا نام اور کام زندہ ہے اور اہل ادب ان پر داد تنقید و تحقیق دے رہے ہیں۔حال ہی میں اس عہد ساز افسانہ نگار کی زندگی پر ایک بین الاقوامی معیار کی فلم ''منٹو'' کے نام سے بنائی گئی جسے وطن عزیز کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک میں بے حد پسند کیا گیا اور اب بھارت میں بھی ان کی زندگی پر فلم بنائی جا رہی ہے۔
''منٹو'' کو سرمد سلطان کھوسٹ جیسے جینئس پروڈیوسر ڈائریکٹر نے نہ صرف بنایا بلکہ اس کا مرکزی کردار بھی خود ہی ادا کرکے ہر خاص و عام سے داد تحسین حاصل کی۔اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دنیا میں سچ کا ایک دور اور ایک وقت ہوتا ہے، اگر سچ اس وقت، اس دور میں نہ بولا جائے تو وہ سچ محض انکشاف تو کہلاسکتا ہے لیکن سچ نہیں۔ ہمارے ملک کو وقت پر سچ بولنے والے سقراط اور وقت کی دہلیز پر حق کہنے والے منصور کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ کیوں کہ ہم حقیقتاً ایک ایسی بدقسمت قوم ہیں جسے ہمیشہ نماز کے بعد وضو یاد آتا ہے اور تدفین کے بعد غسل۔ کاش ہم وقت پر کوئی ایسا سچ بول لیں جس سے کسی ذات کسی ادارے کو بہت بڑا فائدہ پہنچنے والا ہو۔
افسوس ہمارے ارباب اختیار نے تو کبھی حق سچ نہ بولا اور نہ حق سچ کہنے والوں کا ساتھ دیا، ہاں البتہ یہ کام ہمارے شاعر اور ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے ضرور کیا لیکن افسوس صد افسوس ان کی پذیرائی خود اہل ہنر تک نہ کرسکے، جس کی سب سے بڑی مثال خود منٹو تھے، وہ پبلشر، وہ ادارے جنھوں نے منٹو کی تحریروں سے اس دور میں لاکھوں کمائے اور جائیدادیں بنائیں لیکن خود منٹو کسمپرسی کے عالم میں ہی اس دنیا سے سدھار گئے۔سعادت حسن منٹو کو لاہور کے میانی صاحب کے تاریخی قبرستان میں دفن کردیا گیا، ان کی قبر سڑک کے کنارے سامنے ہی نظر آتی ہے مگر اب وہاں سے گزرنے والوں کو اتنی فرصت کہاں کہ اس نادر روزگار کی قبر پر نگاہ ڈالیں، فاتحہ پڑھنا تو دور کی بات ہے۔ خدا جانے زمانہ غلط ہے یا منٹو؟