طیبہ تیرے لیے

قانون پر ظالم حاوی ہیں ظالموں نے اپنے خونی پنجے قانون کے جسم میں گاڑ رکھے ہیں


Saeed Parvez January 08, 2017

قانون پر ظالم حاوی ہیں۔ ظالموں نے اپنے خونی پنجے قانون کے جسم میں گاڑ رکھے ہیں اور قانون کی گردن کو اپنے خونی نوکیلے دانت میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ دس سالہ بچی طیبہ پر جو ظلم ہوا ہے، اس کے ہاتھ جلائے گئے، چہرہ جلایا گیا، یہ کوئی نیا کام تو نہیں ہوا، ایسے کام تو پاکستان میں ازل سے ہو رہے ہیں، بس اس بار ظلم کی داستان میں نئے رنگ کا اضافہ ہوا ہے کہ ظلم کرنے والے وہ ہیں جو قانون کے رکھوالے ہیں، جن کے پاس اس آس پر مظلوم جاتے ہیں کہ یہ رکھوالے رب راکھا بن کر انصاف فراہم کریںگے۔ مگر یہ سب کچھ خام خیال ہے۔ یہاں ہمارے ملک پاکستان میں ایسی ناپاک حرکتیں مزید ہوتی رہیں گی۔

یہاں ایک شاہ نے دوسرے شاہ کو گولیاں مار کے مار ڈالا، مگر انصاف اب تک نہیں ہوا۔ مرنے والا شاہ سیر تھا تو مارنے والا شاہ سوا سیر۔ کوئی غریب غربا ہوتا تو اب تک پھانسی چڑھ چکا ہوتا۔ کراچی سے شمال کی طرف نکلو تو اﷲ کی زمین پر ناجائز قابضین کی جاگیروں کے قوی ہیکل دروازے کھڑے ہیں۔ فلاں وڈیرا اسٹیٹ، سندھ سے پنجاب میں داخل ہو تو فلاں جاگیردار اسٹیٹ، خیبرپختونخوا میں فلاں خان اسٹیٹ، ادھر بلوچستان میں فلاں سردار اسٹیٹ، پتا نہیں کتنی طیبائیں ان زمینی خداؤں کی جاگیروں میں چیخ چیخ کر مر کھپ جاتی ہیں اور ان کی چیخیں مضبوط در و دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہیں۔

ابھی چند دن پہلے قائداعظم کا ذکر کرتے ہوئے میں نے علامہ اقبال کے ایک خط کا ذکر کیا تھا۔ 1937 میں لکھنو کانفرنس کے بعد علامہ نے قائداعظم کو خط لکھتے ہوئے کہاکہ پنجاب کے جاگیردار خود کو مسلم لیگ پر مسلط کررہے ہیں۔ اس روش نے پاکستان بننے کے بعد خوب جڑیں مضبوط کیں۔ 1949 میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، پاکستان کے ولبھ بھائی بن کر پنجاب پہنچے اور زرعی اصلاحات پر پنجاب مسلم لیگ سے بات کی تو پنجاب مسلم لیگ پر قابض جاگیرداروں نے زرعی اصلاحات بل کو یکسر مسترد کردیا، بلکہ علامہ اقبال کے خدشات کے عین مطابق جاگیرداروں کا اکٹھ بنالیا۔

کرنل عابد حسین، مشتاق گورمانی وغیرہ اس اکٹھ کے سربراہان میں شامل تھے۔ خضر حیات اس اکٹھ کے بانی تھے۔ولبھ بھائی پٹیل ہندوستان کانگریس کے صف اول کے رہنما تھے، غریب کسان کے بیٹے تھے، انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی پورے ہندوستان کے راجے رجواڑے ختم کرنے کی دستاویز گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے سامنے رکھی، کسان کے بیٹے کی بات مان لی گئی اور اپنے پاکستان میں قائداعظم کی جیب کے ''کھوٹے سکوں'' نے قائد ملت کی ایک نہ چلنے دی، بلکہ انھیں شہید کردیا گیا اور قائداعظم کے ساتھ دفنادیا۔

1946 میں قائد کی بہن عوام کو ملک دلانے کے لیے نکلیں تو کھوٹے سکے مادر ملت کے خلاف جمع ہوگئے، البتہ نوابزادہ نصراﷲ خان، مادر ملت کے سامنے آن ملے۔ پاکستان کے مشہور غدار ولی خان، مولانا بھاشانی، غوث بخش بزنجو، عطا اﷲ مینگل، خیر بخش مری، محمود علی قصوری، عبدالحمید جتوئی، تالپور برادران، محمود الحق عثمانی، انیس ہاشمی اور ایک بڑا مشہور شاعر حبیب جالب فاطمہ جناح کے ساتھ تھے۔

بیٹی طیبہ! قائد کی جیب کے انھی کھوٹے سکوں نے پھر کام دکھایا۔ ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا۔ اور آخر مادر ملت کو بھی وہیں پہنچادیا گیا، جہاں ان مزارات پر آتے ہیں اور اپنے اپنے عہد دہرا کر چلے جاتے ہیں۔ بیٹی طیبہ! تمہیں بااختیار ادارے نے اپنی بیٹی کہا ہے، مگر بیٹی ہی تو کہا ہے، ظالموں کو سزا کا فیصلہ سناکر اس پر عمل در آمد ہوگا یا نہیں! یہ کس کو خبر، کیونکہ سزا پر عمل کروانے والے کب خود کو سزا دیںگے۔

میں نے لکھا ہے نا! کہ ظالموں نے قدم قدم پر بارود بچھا رکھا ہے ۔ پاکستان کی زمین آزاد نہیں ہے یہاں اپنے خرچ پر مظلوم عوام قید ہیں۔

طیبہ بیٹی! یہاں آنکھوں نے کیا کیا ظلم دیکھے ہیں، کیا بیان کروں! یہ آنکھیں کتنا روئی ہیں! کیا بیان کروں! ان آنکھوں میں تیرے لیے آنسو نہیں بچے۔ اب دل روتا ہے سو دل رو رہا ہے۔ مگر ہم دھرتی کے پیارے، دکھیارے یہی آس دل میں لیے جی رہے ہیں کہ حقیقی آزادی کا سورج وہ صبح لے کر ضرور ابھرے گا کہ جب ستم گروں کا نشان نہ ہوگا۔ امت کی لڑائی کا آغاز ہونے کو ہے جو ظلم اور ظالموں کے خاتمے پر ختم ہوگی۔

طیبہ بیٹی! تمہارے زخم لو دے رہے ہیں، تمہارے زخموں کی روشنی میں راہیں اجلی ہوگئی ہیں، وہی راہیں جو اس نگر کی طرف جاتی ہیں جہاں سحر ہماری منتظر ہے، جہاں آنسو نہیں، آہیں نہیں، جہاں کسی کی آس دم نہیں توڑتی۔

طیبہ بیٹی! تمہاری صورت میں ہمیں وہ منزل صاف نظر آرہی ہے جہاں سکھ بھرے سویرے ہیں۔ وہاں کوئی رہزن نہیں ہوگا۔ طیبہ بیٹی! ہمیں یقین ہے کہ آخر تم اور تمہارے جیسے سبھی مظلوموں کو آخرکار انصاف ضرور ملے گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمہیں اپنی بیٹی کہا ہے اور ہمیں اعلیٰ عدالت کے فیصلے کا شدت سے انتظار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں