تیسری وجہ
ایک جج صاحب کی بیگم پر اپنی نوکرانی کو مارنے پیٹنے کا الزام ہے
ایک جج صاحب کی بیگم پر اپنی نوکرانی کو مارنے پیٹنے کا الزام ہے۔ چھوٹی سی بچی کا ہاتھ چولہے میں ڈالنے کی بات کی جارہی ہے۔ بیس گریڈ کے عدالتی افسر کے اہل خانہ سے تفتیش کے لیے اسی درجے کے پولیس افسر کو مقرر کیا گیا۔ غریب ملازمین کو کچھ روپے دے کر معافی تلافی کی کوشش کی گئی۔ اب دیکھنا ہے کہ انصاف کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کہ چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔
سابق کرکٹر باسط علی نے ایک شخص کو تھپڑ ماردیا۔ غصہ اس بات پر تھا کہ یہ صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر باسط پر تنقید کرتے تھے۔دو عہدوں کے حامل خواتین کرکٹرز کے کوچ اور جونیئرز کرکٹرز کی سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین باسط علی نے اس شخص سے معافی مانگ لی جس کو تھپڑ مارا تھا، کرکٹ بورڈ کے سربراہ نے اس معافی کو قبول نہ کیا یوں باسط علی دونوں عہدوں سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔
کسی پر ظلم نہ کرنے کی تین وجوہات ہوتی ہیں۔ کوئی کسی پر زیادتی کب کرتا ہے؟ جب وہ دوسرے فریق کو کمزور سمجھتا ہے۔ فلموں میں ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ دو مخالف زمینداروں کا آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ دونوں کے ساتھ ان کے درجن بھر ساتھی ہوتے ہیں۔ دونوں طرف سے اسلحہ نکال لیا جاتا ہے، پھر بزرگ زمیندار اپنے اپنے لوگوں کو روک دیتے ہیں۔ آنکھوں میں غصہ دونوں طرف ہوتا ہے لیکن دونوں اپنی اپنی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ کیوں؟
مقابلہ برابر کا ہوتا ہے، کوئی کسی پر اس وقت زیادتی کرتا ہے جب دوسرا فریق کمزور ہوتا ہے۔ یہ پہلی وجہ ہوتی ہے کہ ایک گروہ طاقت ور ہونے کے باوجود بھی دوسرے سے نہیں الجھتا۔ روس کے بعد امریکا بہادر کا دل چاہا تو افغانستان پر چڑھ دوڑا کہ وہ کمزور ملک ہے۔ جب بات طاقتور چین کی آتی ہے تو سپر پاور اپنے قدم پیچھے ہٹالیتا ہے۔ امریکا کا جاسوس طیارہ چین کی سرحد میں داخل ہوا تو چینیوں نے اسے مار گرایا۔ اب امریکا اپنے طیارے کا ملبہ اور ڈھانچہ مانگ رہا تھا، چینی ایئر فورس کے ماہرین اس امریکی طیارے کی اعلیٰ ٹیکنالوجی سمجھنا چاہتے تھے، ایک طرف جلد بازی تھی تو دوسری طرف وقت حاصل کرنا تھا۔
چین نے مطالبہ کیا کہ امریکا اپنی اس حرکت کی معافی مانگے، یہ بات سپر پاور کو گوارا نہ تھی، وہ معذرت کو تیار تھا جسے چینی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اب دونوں ممالک کے لسانی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے کہ انگریزی اور چینی زبانوں سے ایسا لفظ تلاش کیا جائے جو دونوں کو مطمئن کردے۔ یہ ہوتا ہے طاقتور کا طاقتور سے سلوک۔ طاقتور کو دیکھ کر طاقتور اپنے قدم پیچھے ہٹالیتا ہے۔ دو وجوہات اور بھی ہوتی ہیں جب طاقتور ظلم کرنے سے باز رہتا ہے، لیکن پہلے اس واقعے پر نظر ڈالتے ہیں۔
بنگلہ دیش کرکٹر شہادت حسین نے اپنی ملازمہ پر تشدد کیا۔ دس گیارہ سالہ زخمی لڑکی پولیس کو سڑک پر روتی ہوئی دکھائی دی۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ کرکٹر کے گھر کام کرتی ہے جس کو میاں بیوی نے مارا پیٹا ہے۔ اب شہادت حسین اور ان کی بیگم روپوش ہوگئے کئی دنوں بعد عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے سامنے آئے۔ یوں ایک ابھرتے ہوئے کرکٹر کی بدنامی بھی ہوئی اور کیریئر پر دھبہ بھی لگ گیا۔ یہاں بھی وہی وجہ نظر آتی ہے کہ غریب والدین کی سیدھی سادھی بچی گھر پر کام کررہی ہے تو اسے ظلم کا نشانہ بنایا جائے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں بچوں کے لیے نہ تعلیم لازمی ہے اور نہ ان کے اس طرح گھروں پر کام کرنے پر پابندی ہے۔
ایک نواب زادی کا مقدمہ ایل ایل بی کے نصاب میں تھا۔ Reported Cases یا اہم نظائر کے عنوان سے مضمون میں درج تھا کہ گھر پر کام کرنے والی بچی کو اس کی مالکہ نے استری سے جلایا تھا۔ انگریزوں کا دور تھا اور امیر گھرانے کی عورت گرفتار ہوئی اور اس پر مقدمہ چلا۔ یہ دوسری وجہ ہوتی ہے جب کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم کرنے سے باز رہتا ہے۔ اس کے دماغ میں امیری کا فتور نکل جاتا ہے، جب قانون کا کلہاڑا چلتا ہے، جب اسے علم ہوا کہ ظلم کرنے پر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا، بدنامی اور جگ ہنسائی ہوگی اور کیریئر داؤ پر لگ جائے گا، آتی دولت اور ترقی سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ تیسری وجہ سے پہلے یہ واقعہ:
ایک جج صاحب پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک نوجوان کو قتل کیا ہے، الزام لگانے والے بھی ایک جج تھے۔ پولیس افسران کے لیے مشکل تھا کہ ایک حاضر سروس جج کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ اعلیٰ پولیس افسران نے چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ صوبے کی عدلیہ کے سربراہ نے قانون کے محافظوں کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کو کہا۔ اب ایک جج کے بیٹے کے قتل کے الزام میں ایک جج گرفتار ہیں۔ عہدہ بھی گیا اور بے عزتی بھی ہوئی۔ مبینہ طور پر ایک جج کا بیٹا دوسرے جج کی بیٹی سے محبت کرتا تھا یا شادی کرنا چاہتا ہے، کسی ناخوشگوار بات پر جذباتی ہوکر ایک پڑھے لکھے اور سمجھ دار قانون دان نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اب تک تو وہ جیل میں ہیں کہ ضمانت بھی نہیں ہوئی۔
پہلی وجہ کسی دوسرے پر زیادتی نہ کرنے کی یہ ہوتی ہے کہ فریق مخالف بھی طاقتور ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ قانون طاقتور ہوتا ہے۔ فریق اگر کمزور ہو اور قانون ناتواں ہو تو پھر طاقتور لوگ بے دھڑک قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ قانون کی عمل داری کے اس واقعے کے بعد ہم تیسری وجہ کی جانب آتے ہیں۔ حضور اکرم کے دور مبارک میں ایک امیر عورت نے چوری کی۔ ساتھیوں کی خواہش تھی کہ اس رئیس زادی کو چھوڑ دیا جائے۔ نبی کریمؐ کے پوتے کی مانند حضرت زید ؓ بن حارث کے بیٹے اسامہؓ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ''تم سے پہلے کی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ وہ غریب کو سزا دیتے تھے اور امیر کو چھوڑ دیتے تھے''۔
امیر کے لیے قانون کے علاوہ تعلیمی ادارے، اسپتال، ہوٹل، بستیاں، سواری، پانی اور خوراک تک الگ ہوگئے ہیں۔ اس دور پر آشوب میں کمزور پر ظلم نہ کرنے کی تیسری وجہ کو ضرور یاد رکھا جانا چاہیے۔ اگر سامنے والا کمزور ہے اور قانون بھی کچھ نہیں بگاڑسکتا تو مکافات عمل یا روز قیامت یا خوف خدا یا قدرت کا قانون کسی بھی شخص کو ظلم سے روکنے کی بن جاتا ہے تیسری وجہ۔