خواتین اور خاندانوں کی کہانیاں

کرینہ کپور اور سیف علی خان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام تیمور خان رکھا گیا۔


[email protected]

کرینہ کپور اور سیف علی خان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام تیمور خان رکھا گیا۔ بھارت میں ہندو مسلم شادیاں عام ہیں اور اکثر میاں بیوی اپنے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہیں۔ شاہ رخ خان اور گوری کے علاوہ نرگس اور سنیل دت کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ بچوں کا مذہب عموماً وہ ہوتا ہے جو باپ کا مذہب ہو۔ سنجے دت نے اپنے پتا کا دھرم اپنایا تو شاہ رخ خان کے بچوں نے اپنے والد کا دین اپنایا۔

راجیو گاندھی کی شادی مسیحی مذہب کی سونیا سے ہوئی۔ اپنا ملک چھوڑ کر سونیا نے بھارتی شہریت تو لے لی لیکن سونیا نہ بھارتی سرکار میں کوئی بڑا عہدہ لے سکیں اور نہ ان کے بچوں کے نام و شناخت میں مسیحیت کا کوئی شائبہ بھی ہوا۔ اس طرح کے معاملات میں صرف بیوی ہی اپنے مذہب کی اکلوتی پیروکار ہوتی ہے، جیسے نرگس اسلام پر قائم رہیں اور گوری ہندومت اور سونیا عیسائیت پر کاربند ہیں۔ عامر خان جب اپنے والدین کے ساتھ حج پر گئے تو ان کی بیوی کرن نہیں گئیں کہ وہ ہندو ہیں۔ کیا ایک عورت اپنی خوشگوار زندگی کے لیے یہ سب قبول کرتی ہے؟ اور قربانی دیتی ہے؟ اب ہم بھارت سے پاکستان کی طرف آتے ہیں۔

دو نئے مقدمات دو دن میں سامنے آئے۔ ایک مسئلہ ایک طالبہ کا تو دوسرا ایک طالب علم کا تھا۔ تعلیمی بورڈ نے دونوں کو عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ طالب علم کے والد کا نام جان محمد ہے جب کہ ایک ادارے نے اسے خان محمد کر کے طالب علم کے لیے پریشانیاں پیدا کردی ہیں۔ ایک نکتے نے اسے محرم سے مجرم بنادیا ہے۔ طالبہ کا مسئلہ ذرا مختلف ہے، جسے دادا دادی نے اپنی بیٹی ظاہر کیا۔ یوں یہ بچی اپنی پچاس سالہ پھوپھی کی بہن قرار پاتی ہے۔

کاغذات میں ظاہر کی جانے والی دونوں ''بہنوں'' کی عمروں میں 32 سال کا فرق ہے، جو ممکن نہیں ہوتا۔ یوں ایک جانب اٹھارہ سالہ طالبہ کا میٹرک کا فارم تو دوسری جانب اس کی پھوپھی کے شناختی کارڈ کی حیثیت مشکوک قرار پاتی ہے۔ طالب علم اپنے ماموں اور طالبہ اپنی پھوپھی کے ساتھ پہلی دفعہ دفتر میں آئے۔ دونوں کو عدالتوں میں اپنے مقدمات کے لیے دو تین دفعہ آنا پڑا ہے۔ جب عدالت میں لڑکے کو بلایا جاتا ہے تو وہ اکیلا اسکوٹر پر آجاتا ہے۔ بچی ہر دفعہ اپنی پھوپھی کے ساتھ آتی ہے۔ اٹھارہ سالہ کنواری لڑکی ہو تو ہمارے سماج میں یہ ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں چالیس سالہ طلاق یافتہ دو بچوں کی ماں جب کسی دفتر میں جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی سرپرست ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ خواتین کا شاپنگ کے لیے بغیر کسی محرم کے جانا اور بات ہے لیکن دفتروں میں آنے جانے کے لیے خواتین کو ان کے سرپرست تنہا بھیجتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں ایسا نہیں ہے بلکہ بھارت میں بھی ایسا نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ممالک میں خواتین سے زیادتی کے واقعات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اب خاندان کیا کریں؟

مردوں کی درندگی کا خطرہ مول لے کر اپنی خواتین کو تنہا بھیجیں یا کوئی سرپرست ان کے ساتھ ہو۔ یہ دوسرے شہر یا دوسرے ملک یا رات کے سفر کی بات نہیں ہو رہی بلکہ صرف چند گھنٹوں اور اپنے شہر کی بات ہو رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ 28 سالہ بہن کو کہیں جانا ہو تو گھر والے اس کے 8 سالہ بھائی کو ساتھ کر دیتے ہیں؟

عورت پر ظلم کب تک؟ بھارتی فلم انڈسٹری سے پاکستانی شہروں کے بعد اب ہم قبائلی معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں۔ خاتون اپنے خاندان کے لیے کب تک قربانی دیتی رہے؟ آپس کی جنگوں میں قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ جب یہ مرد قتل سہہ سہہ کر اور عدالتوں کی سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر تھک جاتے ہیں تو صلح کرتے ہیں۔ ان کے عہد ناموں میں رقموں کے لین دین اور زمینیں جائیدادیں دینے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔

اعتراض تب جنم لیتا ہے جب خواتین کو خاندان کی خاطر بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ کم عمر بچیوں کو بڑی عمر کے دشمن خاندان کے مردوں سے بیاہ دیا جاتا ہے۔ جن خاندانوں میں ایسی خواتین بہو بن کر جاتی ہیں جن کے رشتے داروں کو اس بچی کے رشتے داروں نے قتل کیا ہوتا ہے۔ ''قاتل گھر کی لڑکی'' کا طعنہ سہنے والی خاتون دشمن خاندان میں کیا سکھ پا سکتی ہے؟

ملک بھی ایک خاندان کی مانند ہے۔ ملک کے صدر اور وزیر اعظم خاندان کے سرپرست ہیں۔ اگر خاندان کا سربراہ کسی فرد کا خیال نہ رکھے تو؟ کیا عافیہ صدیقی نامی خاتون کو پاکستان نامی خاندان کے اس وقت کے سربراہ نے امریکا کے حوالے نہیں کیا تھا؟ کیا عافیہ کا پاکستان پر کوئی حق نہیں تھا؟ اگر کوئی پاکستانی سرزمین پاکستان پر جرم کرکے دوسرے ملک چلا جائے تو یہ دوسری بات ہے۔ ہم اسے واپس بلواتے ہیں کہ یہ معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ انٹرپول کے ذریعے ہمارے حوالے کیا جانے والا پاکستانی ہوتا ہے۔ وہ امریکا، برطانیہ یا بنکاک یا دبئی کا شہری نہیں ہوتا۔ کوئی ملک اپنے شہری کو یوں کسی کے حوالے کرتا ہے؟

امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس پانچ پاکستانیوں، جی ہاں پانچ لوگوں کو قتل کرکے ہماری تحویل میں تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس جاسوس کی رہائی کے عوض عافیہ صدیقی کو رہا کروایا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ وفاق میں پیپلز پارٹی تو پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ مگر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا گیا۔ یوں امریکی قید میں جکڑی عافیہ صدیقی کی حیثیت اس بچی کی مانند ہوگئی جس کا واقعہ آگے آرہا ہے۔

ایک بادشاہ کی بیماری کا عجیب و غریب حل تجویز کیا گیا۔ حکیموں نے کہا کسی صحت مند بچی کا جگر کھلایا جائے تو جہاں پناہ صحت یاب ہوں گے۔ ایک آٹھ سالہ بچی کے والدین بھاری رقم لے کر اپنی بیٹی کو بادشاہ کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ جب بچی کو میدان میں لایا گیا تو وہ اداس تھی۔ چھوٹی سی لڑکی سمجھ گئی تھی کہ اس کی زندگی اب چند لمحوں کی مہمان ہے۔ بچی نے آسمان کی طرف دیکھا اور ہنسنے لگی۔

بادشاہ نے پوچھا کہ تم کیوں ہنس رہی ہو؟ بچی نے جواب دیا کہ ''اولاد کا سب سے بڑا محافظ اس کا والد ہوتا ہے۔ میرا باپ چند ٹکوں کے عوض مجھے بیچ رہا ہے۔ ماں اپنی اولاد کی سب سے بڑی ہمدرد ہوتی ہے لیکن میری ماں بھی خاموش ہے۔ یہ ماں میری زندگی قربان کرکے اپنی زندگی بہتر بنانا چاہتی ہے۔ بادشاہ سلامت بھی پورے ملک کا رکھوالا ہوتا ہے۔ جہاں پناہ! آپ بھی اپنی زندگی کی خاطر میری زندگی قربان کر رہے ہیں۔ اب جب دنیا میں کوئی نہ بچا تو میں آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ اے میرے رب! یہ میرے ہمدرد اور غم خوار مجھے مار رہے ہیں۔ اب تو ہی کچھ کر۔'' قصہ بیان کرنے والا کہتا ہے کہ بادشاہ نے بچی کو چھوڑ دیا۔

عافیہ صدیقی اس بچی کی مانند ہے کہجسے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کے علاوہ حقوق نسواں کی دعوے دار تنظیمیں بھی خاموش ہیں کہ اس معاملے میں ڈالر دینے والی سپر پاور ملوث ہے۔ امریکی صدر جہاں پناہ ہیں تو ہمارے حکمراں بادشاہ سلامت۔ پانچ ہزار دنوں سے زیادہ دن امریکی قید میں گزارنے والی عافیہ صدیقی کے لیے ریمنڈ ڈیوس والے موقع کو ہمارے حکمرانوں نے ضایع کردیا۔ اب ڈاکٹر آفریدی کو رہا کروانے کے لیے امریکا بہادر کوشاں ہے۔ زمین برطانیہ کے لیے ''پاسبان'' ہے تو آسمان رحمان۔

خواتین اپنے خاندان کی خاطر قربانیاں دیتی ہی رہی ہیں، چاہے وہ بھارتی اداکارائیں ہوں یا پاکستان کی بیٹیاں۔ چاہے وہ پاکستانی دیہاتوں کی کم عمر لڑکیاں ہوں یا بادشاہوں کے زمانے کی کم عمر بچیاں یا اکیسویں صدی کی کوئی عافیہ صدیقی۔ کب تک عورت کی قربانیوں کی تاریخ چلتی رہے گی؟ کب تک جاری رہیں گی خواتین اور خاندانوں کی کہانیاں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں