قائد سے بڑا سخی کون
اِن کا شمار اِن گنے چُنے صاحبِ حیثیت افراد میں کیا جاتا تھا، جو اپنی ذاتی کار کے مالک تھے۔
یہ گزشتہ صدی کی تیسری دہائی کے وسط کا ذکر ہے۔ ایک ہندو رِشی (ملنگ) پہاڑ کے ایک غار میں اپنے بھگوان سے لو لگائے بیٹھا رہا کرتا تھا۔ اُسے دُنیا سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ مہینے میں ایک مرتبہ وہ پہاڑ سے اُتر کر کلکتہ شہر آتا۔ شام تک سڑکوں اور بازاروں میں بھیک مانگ کر، اُسے جو کچھ بھی ملتا، اُس رقم کو لے کر شہر کی ایک بڑی کریانہ کی دکان پر پہنچتا اور مہینے بھر کا راشن خرید کر دوبارہ پہاڑ پر واپس چلا جاتا۔ کریانہ اسٹور کے مالک لالہٰ جی شہر کے بڑے دیالو اور سخی سیٹھوں میں شمار ہوتے تھے، اُن کی سخاوت کے شہر بھر میں چرچے تھے۔
ایک دِن رِشی لالہ جی کی دکان سے سامان خریدنے کے بعد اُن سے یونہی گپ شپ کرتے ہوئے بولا ''لالہٰ جی! یہ دُنیا لکشمی (دولت) کے پیچھے اتنی دیوانی کیوں ہے؟'' لالہ جی نے نوٹ گنتے ہوئے ہاتھ روک کے، گہری نظروں سے رِشی کی طرف دیکھا اور بولے ''یہ جو لکشمی ہے نا، یہ دُنیا کے اگر تمام تر نہیں تو زیادہ تر مسائل کا حل ہے۔ کیا تمہیں لکشمی میں کسی قسم کی کشش محسوس نہیں ہوتی رِشی جی؟'' لالہٰ جی نے سوال کیا۔ رِشی نے نفی میں سر ہلایا پھر اچانک بولا۔ ''لالہ جی کیا تم مجھے ایک لاکھ روپے کے نوٹ ایک ساتھ رکھے ہوئے دکھا سکتے ہو ؟'' لالہٰ جی یہ فرمائش سُن کر دنگ رہ گئے۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر اُنھوں نے ایک ملازم کو بلا کر دکان کے پیچھے واقع اپنی رہائش گاہ کا عقبی کمرہ کھلوایا۔ جس کا دروازہ پچھلی گلی میں کُھلتا تھا۔
اُس کمرے میں ایک چارپائی پر سفید چادر بچھوا کر بڑے سلیقے کے ساتھ، ایک لاکھ روپے کے نوٹوں کی گڈّیاں سجا دیں اور رِشی کو لے کر اُس کمرے میں پہنچ گئے۔ رِشی نے بڑے غور سے نوٹوں کو دیکھا، ہاتھ لگا کر اُنھیں چُھوا اور کندھے اُچکا کر لالہٰ جی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس جانے کی اجازت طلب کی۔ لالہٰ جی بولے ''مہاراج اِس لکشمی کو غور سے دیکھو، کیا اِس کو دیکھ کر تمہارے دِل میں کچھ گُد گُدی سی نہیں ہو رہی ہے؟'' رِشی نے جواباً کہا ''میرے لیے یہ لاکھ روپے کے نوٹ ایک عام کاغذ کے ٹکڑوں سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہیں، میں اب بھی حیران ہوں کہ لوگ نہ جانے کاغذ کے اِن ٹکڑوں میں کیا دیکھتے ہیں؟'' لالہٰ جی پہلے تو سٹپٹائے، شاید دولت کی یہ توہین اُنھیں پسند نہیں آئی تھی پھر یکایک اُن کی فطری دریا دِلی عود کر آئی اور اُنھوں نے رِشی سے کہا ''یہ لاکھ روپے تمہارے ہوئے، میں اِنہیں تم کو دان کرتا ہوں اِس لکشمی کو اُٹھا لو اب تم اِس کے مالک ہو۔''
رِشی نے نفی میں سر ہلا کر جواب دیا ''میں اِسے لے کر کیا کروں گا؟ میرے اور میری آتما کے لیے، میرے من کی شانتی ہی سب سے بڑی دولت ہے، جو مجھے بھگوان سے لو لگا کر بلا قیمت ہی مل جاتی ہے۔'' یہ کہہ کر وہ واپسی کے لیے پلٹ گیا، اُس کا ہاتھ دروازے کی زنجیر تک ہی پہنچا تھا کہ پیچھے سے لالٰہ جی نے گونجیلی آواز میں اُسے مخاطب کر کے کہا ''رِشی جی! تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو ۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی کو اتنا بڑا دان آج تک نہیں دیا مجھے یقین ہے کہ تمہیں بھی کبھی کسی نے اتنی بڑی پیشکش آج تک نہیں کی ہو گی۔ اِس لکشمی کی طاقت اور کشش کو محسوس کرو، اِسے ٹھکرا کر تم زندگی بھر پچھتائو گے اور مجھے یاد کر کے رویا کروگے۔'' رِشی دروازے سے واپس سیٹھ کی طرف مُڑا اُس کا ہاتھ بدستور زنجیر پر تھا، اُس نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
''سیٹھ واقعی تمہاری پیشکش بہت بڑی ہے، میں ہمیشہ تمہیں یاد رکھوں گا۔ کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں تم سے بڑا دیالو اور اتنا دان کرنے والا آج تک نہیں دیکھا، لیکن سیٹھ یاد تو تم بھی زندگی بھر مجھے رکھو گے کہ تم نے مجھ جیسا چھوڑنے والا بھی کہاں دیکھا ہو گا؟ اگر یقین نہیں آتا تو اِس گلی میں داخل ہونے والے پہلے شخص کو بُلا کر یہ روپیہ اُٹھا نے کی پیشکش کرو، میں بھی دیکھتا ہوں اور تم بھی دیکھنا کہ وہ شخص یہ روپے اُٹھاتا ہے یا چھوڑتا ہے؟'' یہ کہہ کر رِشی دروازہ کھول کر باہر گلی میں نکل گیا۔ لالہٰ جی اپنی جگہ گُم سُم کھڑے رہ گئے اور گلی میں جاتے ہوئے رِشی کے قدموں کی دھمک لالہٰ جی کی کن پٹیوں پر ہتھوڑے کی طرح برستی رہی۔
اب آپ فیصلہ کریں کہ اِن دونوں میں سے بڑا سخی کون تھا؟ دینے والا یا چھوڑنے والا؟ لیکن اگر آپ کے سامنے میں کسی ایسی شخصیت کا نام لوں ، جس میں یہ دونوں خصوصیات بیک وقت موجود ہوں، یعنی اُس نے دیا بھی بے تحاشا ہو اور چھوڑا بھی بے پناہ ہو تو آپ ایسے شخص کو کیا نام دیں گے؟ میں اِس شخص کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے یاد کرتا ہوں، جن کا ہم آج یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔ میں یہاں قائد اعظم کی ذات کے صرف ایک پہلو کا ذکر کروں گا، جو اُن کی ہشت پہلو شخصیت کا سب سے زیادہ روشن پہلو ہے اور وہ ہے اُنکا ذاتی کردار۔
لیکن پہلے ہم اِس کا جائزہ لیتے ہیں قائد نے اِس قوم کو دیا کیا؟ اور اپنا وہ کیا چھوڑا جو وہ نہ چھوڑتے تو دُنیا کا کوئی قانون یا اخلاق کا کوئی بھی ضابطہ اُن سے یہ نا پوچھ سکتا کہ آپ نے یہ سب کچھ کیوں نہیں چھوڑا؟ قائد اعظم اتنے بڑے بیرسٹر تھے کہ غیر منقسم ہندوستان میں اگر کسی کیس کی پیروی میں وہ عدالت میں پیش ہوتے تو اُنکی ایک دِن کی فیس پندرہ سو روپے ہوتی تھی، اُس زمانے کے پندرہ سو کو آپ آج کے زمانے کی کرنسی ویلیو کے حساب سے خود ایڈجسٹ کر لیں۔ لیکن جب اُنھوں نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اُٹھایا تو اُنھوں نے اپنی تنخواہ مبلغ ایک روپیہ ماہانہ سِکہ رائج الوقت خود مقرر کی۔ برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کا بار اپنے ناتواں کاندھوں پر اُٹھانے سے قبل دُنیا کی وہ کونسی نعمت تھی، جو قائد اعظم نے اپنی حق وحلال کی کمائی سے حاصل نہ کی ہو؟ اُنکی شخصیت میں جو رکھ رکھاؤ اور وقار تھا، اور جس قسم کا وہ لباس زیب تن کیا کرتے تھے اُسے دیکھ کر انگریز حاکم بھی اُن پر رشک کیا کرتے تھے۔
اِن کا شمار اِن گنے چُنے صاحبِ حیثیت افراد میں کیا جاتا تھا، جو اپنی ذاتی کار کے مالک تھے۔ وسیع و عریض رہائش گاہ اُنکی ملکیت تھی۔ سب سے بڑی خوبی جو اُن کی شخصیت میں پائی جاتی تھی اور آج بھی اِنکی تصاویر سے جسکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ یہ کہ انگریز حاکموں اور کانگریس کی چوٹی کی قیادت کے سامنے اِنکا رویہ کبھی معذرت خواہانہ نہیں رہا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے واحد نمایندہ لیڈر کے طور پر تمام مسلمان اُن پر فخر کیا کرتے تھے، اِن کی سب سے بڑی دولت اور طاقت اُنکی ذاتی خوشحالی اور خوش لباسی نہیں بلکہ اُنکا مضبوط ذاتی کردار تھا۔
اُن کے کٹّر ترین مخالفین بھی اُنکی ذات میں کوئی کمزوری یا نقص کبھی تلاش نہیں کر پائے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے۔ عوامی رائے کے طوفان میں بہہ جانے والے قائد نہیں تھے۔ منافقت اُنھیں کبھی چھُو کر نہ گزری۔ تحریک خلافت جب آندھی کی طرح اُٹھ کر برصغیر کے مسلمانوں پر چھا رہی تھی اور ایک جذباتی فضا بن چکی تھی، اُنھوں نے بے لاگ انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور اِس تحریک سے لاتعلق رہے۔ ایک جلسے میں اُنھیں بجائے سوٹ کے شیروانی پہننے کا مشورہ دیا گیا تو اُنھوں نے اِسے منافقت قرار دے کر لباس کو ذاتی معاملہ قرار دیا۔
لیکن جب شیروانی اور جناح کیپ زیب تن کی تو مرتے دم تک اِسی لباس کو اپنائے رکھا۔ خود کو ہر قسم کی عصبیت سے بالاتر رکھا، بلا امتیاز رنگ، زبان، نسل اور مسلک و فرقہ، تمام مسلمانوں کی قیادت کی اور کبھی اِن میں سے کسی تعصُّب سے اپنا دامن آلودہ نہ کیا۔ اپنی اِس پُرآسائش اور خوشحال زندگی کو چھوڑ کر اُنھوں نے قوم کو اتنی بڑی دولت سے نوازا، قوم کو اتنے زیادہ وسائل سے مالا مال ملک لے کر بخشا جسکی نظیر تاریخ کا کوئی بھی لیڈر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ایک ایسا نظریاتی ملک وجود میں لے کر آئے، جس کی تاریخ اور جغرافیہ ایک ہی دِن سے شروع ہوتا ہے۔
اِسکی خاطر اُنھوں نے اپنی جان لیوا بیماری کو بھی قوم سے پوشیدہ رکھا تا کہ مخالفین کے حوصلے نہ بڑھ جائیں۔ یہ عظیم شخص ایسا سخی تھا کہ اِس نے اپنی جان سمیت سب کچھ اِس قوم کی نذر کر دیا۔ ہر عیش و آرام چھوڑ دیا اور اِس ملک کی صورت میں ایک ایسا عظیم تحفہ اِس قوم کو دے گیا، جس سے زیادہ قیمتی تحفہ کوئی دوسرا لیڈر اِس قوم کو تا قیامت دینا بھی چاہے تو نہیں دے سکتا۔