عورتیں ہی عورتیں
ڈاکٹرز کے کلینک میں کیا ہوتا ہے؟ جب میاں بیوی، خواتین و حضرات کے علیحدہ علیحدہ حصے میں داخل ہوتے ہیں، تھوڑی دیر کے۔۔۔
بچوں کو لے کر پارک گیا جب وہ چھوٹے تھے، والدہ اور اہلیہ بھی ہمراہ تھیں۔ دونوں خواتین کو ایک بینچ پر بٹھایا اور رمیز، دانش اور دانیال کو لے کر جھولے جھلانے لے گیا۔ واپسی پر ہم نے چھ کپ آئسکریم لی کہ سب مل کر کھائیں گے۔ دیکھا کہ والدہ اور اہلیہ کے ساتھ دو اور خواتین بیٹھی ہیں۔ یہ سب بسکٹ اور چپس کھا رہی تھیں اور گھل مل کر باتیں کر رہی تھیں۔ والدہ نے کہا کہ پہلے آئسکریم خواتین کو دے دو اور باقی تم جا کر لے آؤ۔ بیٹے نے ماں کے حکم کی تعمیل کی۔ بچوں کو واپس پارک کا چکر لگوایا اور آئسکریم کے دو مزید کپ خریدے۔
جب خواتین کی طرف واپس آیا تو وہ دو اجنبی خواتین جا چکی تھیں۔ پوچھا کہ یہ کیا جاننے والی تھیں یا کوئی رشتے دار یا کوئی سہیلی؟ والدہ نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ نہیں یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ ان کے بچے بسکٹ لائے تو ہمیں پیش کیے لہٰذا جب تم آئسکریم لے کر آئے تو ہم نے انھیں دیں۔ خواتین بہت جلد آپس میں گھل مل جاتی ہیں جب کہ مرد حضرات دیر لگاتے ہیں۔ پورے کالم میں آپ کو خواتین کی کچھ مختلف خوبیاں نظر آئیں گی اور آخر میں اہم بات جو ہم کہنا کیا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹرز کے کلینک میں کیا ہوتا ہے؟ جب میاں بیوی، خواتین و حضرات کے علیحدہ علیحدہ حصے میں داخل ہوتے ہیں، تھوڑی دیر کے بعد ایک اور جوڑا کلینک میں آتا ہے۔ دونوں آدمی چپ چاپ بیٹھے ہوں گے جب کہ خواتین ایک دوسرے سے اس طرح باتیں کریں گی جیسے دو سہیلیاں بڑے عرصے بعد ایک دوسرے سے ملی ہوں۔ یہ خواتین کی ویسی ہی خوبی ہے جیسی کہ پہلے منظر میں دی گئی تھی۔
بیویوں کی ایک اور خوبی ملاحظہ فرمائیے۔ ارشد کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دوستوں کا پروگرام بنایا ہے بمعہ بیگمات۔ کبھی کوئی ثناء کہہ سکتی ہے کہ اس نے اپنی سہیلیوں کا پروگرام بنایا ہے بمعہ ان کے صاحبان۔ عورتیں جلد گھل مل جاتی ہیں حتیٰ کہ اپنے شوہر کے دوست کی بیوی کو بھی اپنی سہیلی بنا لیتی ہیں۔ نہ جان پہچان، نہ پڑوسن، نہ سہیلی، نہ کزن۔ بس ایک چیز سب خواتین میں مشترک ہوتی ہے کہ ان کے شوہر آپس میں دوست ہیں۔ اتنی اعلیٰ ظرف ہوتی ہیں یہ خواتین۔ اب مرد یہ بتائیں ان میں کتنا ظرف ہے؟ ایک اکڑ ہے، انا ہے، غرور نفس ہے، جب کہ عورت کو قدرت نے لچک عطا کی ہے، تکیے کی طرح آرام دہ لچک۔ آئیے اب چوتھا منظر دیکھتے ہیں۔
ایک دوست کی بچی کی شادی تھی۔ انھوں نے کارڈ پر مسٹر اینڈ مسز لکھا تھا۔ ہم دونوں کئی ایک تقریبات میں شریک ہوئے۔ اس بات کو پانچ سات ماہ ہو چکے ہیں۔ پچھلے دنوں بیگم نے پوچھا کہ آپ کے دوست کی بچی کی شادی ہوئی تھی، کیا ہوا وہ خوش تو ہے؟ جواب تھا کہ بھئی ہم دوست اس موضوع پر بات نہیں کرتے۔ دوسرا سوال تھا کہ کوئی خوش خبری ہے؟ اب مرد ایسے موضوع بلکہ نازک موضوعات پر کہاں گفتگو کرتے ہیں۔ جب کہ خواتین بے دھڑک اور بے تکلفی سے ہر قسم کی گفتگو کر جاتی ہیں۔ اتنی بے تکلف ہوتی ہیں خواتین آپس میں۔ مرد بھی بے تکلف ہوتے ہیں لیکن اتنے نہیں جتنی خواتین۔ اب پانچواں منظر ایک کتاب کا حوالہ ہے، ایک کامیڈین کا مزاح ہے۔
عمر شریف نے ایک پرتکلف پروگرام میں کہا کہ جب بھی کوئی جنازہ جاتے دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کس کا انتقال ہو گیا تو جواب آتا ہے کہ یہ بھائی اقبال فوت ہوچکے ہیں یا بھائی رمضان دنیا سے چلے گئے ہیں۔ کبھی کوئی رضیہ یا رقیہ کا نام نہیں لیتا۔ یہ قصہ عطاء الحق قاسمی نے اپنی ایک کتاب میں تحریر کیا ہے۔ خواتین کیوں نہ طویل عمر پائیں۔ پچھلے پانچوں مناظر دیکھ لیں۔ آپ کو خواتین گھلنے ملنے والی، اعلیٰ ظرف اور صاف دل کی نظر آئیں گی۔ خواتین نے اپنا ایک انداز اپنایا ہے۔ بالکل منفرد اور اچھوتا۔ ایسا ہمیں اپنے بچپن میں تو نظر نہیں آیا۔
یہ بات صرف مردوں تک محدود تھی۔ جب دو مرد آپس میں ملتے تو وہ ہاتھ ملاتے یا عید کے موقعے پر حضرات ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ ایسا کسی قریبی عزیز کے بڑے عرصے کے بعد ملنے پر عموماً ہوتا تھا۔ اب مردوں کی دیکھا دیکھی خواتین نے بھی آپس میں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کا انداز اختیار کیا ہے۔ دیکھیں! خواتین کتنی جلدی دوسروں کی اچھی باتوں کو اپنانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔
عورتوں کو یہ فائدہ ان کی کس خوبی کی وجہ سے ملا؟ تمام مناظر کو غور سے دیکھیے۔ عورت کو یہ برتری اس کے دوستانہ طرز عمل کے سبب ملتی ہے۔ قدرت نے عورت میں لچک پیدا کر کے اسے ہر قسم کے حالات میں اپنے آپ کو ڈھال لینے کا ہنر عطا کیا ہے۔ اب اس کی اس خوبی سے کن ظالم مردوں نے فائدہ اٹھایا۔ وہ مرد جنہوں نے عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کا مقام دینے کے بجائے اسے چیز یا کوئی شے سمجھنا شروع کیا۔ مشرق نے اسے زر اور زمین کی طرح سمجھ لیا جب کہ مغرب نے اسے دولت اور شراب کے ساتھ ملا کر www کی طرح کا محاورہ ایجاد کیا۔ اب ذرا چھٹا منظر ملاحظہ فرمائیے! پھر ہم کچھ ظالم عورتوں کی بھی بات کریں گے۔
ایک زمیندار کے ہاں دعوت تھی۔ جن کے دوستانہ تعلقات کی نوعیت فیملیز تک تھی وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ دیہی ماحول کی دعوت سے لطف اندوز ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ خواتین و حضرات کے پنڈالوں کے درمیان کئی فرلانگ کا فاصلہ تھا۔ مردوں میں چکن فرائی، روسٹ، پراٹھے اور مچھلی تھی، چار بجے تک فارغ ہو گئے اور گھروں کو روانہ ہونے کے لیے گاڑیوں تک بڑھے۔ مینو پر گفتگو ہوئی تو مرد شرمندہ ہو گئے۔ خواتین کے لیے صرف ابلے ہوئے چاول میں گائے یا بھینس نما گوشت، وہ بھی کچا۔
بات کھانے کی نہیں بلکہ ایک جیسا کھانا کھانے کی تھی۔ مردوں کے چہرے پر شرمندگی تھی کہ یہ کیسا انداز میزبانی تھا۔ یہ سراسر خواتین کی تحقیر تھی۔ راستے میں نظریں جھکا کر ایک ہوٹل کے قریب خواتین کے لیے کھانے کا انتظام کیا۔ یہ ہیں ظالم مرد جو خواتین کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ اس میں شہر وگاؤں، غریب و امیر اور پڑھے لکھے یا جاہل کی کوئی تمیز نہیں۔
اب آخری منظر کی جانب آتے ہیں۔ یہ وہ ظالم خواتین ہیں جو کسی لڑکی یا عورت کی ماں، بہن بھی ہو سکتی ہیں یا چچی و پھوپھی۔ یہ گھر کے بسے رہنے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہ کوئی سہیلی بھی ہو سکتی ہیں اور ''خواتین کے حقوق'' کی کوئی کارکن یا لیڈر بھی۔ یہ"House Breaker" قسم کی خواتین، عورت کی اس لچک کا فائدہ ایک عورت کو نہیں اٹھانے دیتیں جو قدرت نے اس کے اندر رکھی ہے۔ یہ حقوق نسواں کی علمبردار، چاہے وہ این جی اوز کی شکل میں ہوں یا کوئی کزن، سہیلی یا خالہ و ممانی یا چچی ۔ بی جمالو کا کردار ادا کرتی ان عورتوں کو محترم بلقیس ایدھی کے ان تجربہ کار الفاظ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
لڑانے والی خواتین سے بڑھ کر ان عورتوں کو بلقیس صاحبہ کی باتوں پر غور کرنا چاہیے، وہ جن کو اپنے شوہر سے شکایت ہے یا وہ خواتین جن کے گھر ڈگمگا رہے ہیں یا وہ لڑکیاں جو عدالت میں جانے کا سوچ رہی ہیں۔ مسز ایدھی کہتی ہیں کہ ''زمانے کی ٹھوکر میں رہنے سے بہتر ہے کہ اپنے گھر میں ایک کی ٹھوکر میں رہو۔'' آخر میں خواتین کے ایک مذاکرے میں ایک سمجھدار خاتون کی بات۔ شاید کہ کسی ایک بہن کا گھر بچ جائے تو یہ حاصل کلام ہو گا۔ وہ خاتون کہتی ہیں کہ ''فرمانبردار بیوی ہی شوہر کو اپنے حکم کے تابع رکھتی ہے۔'' تکیے کی لچک لازمی ہے لیکن اگر پلنگ کی لکڑی کی سختی نہ ہو تو آرام نہیں ملتا۔ قدرت کی اس حکمت کو سمجھیں گی کالم پڑھنے والی عورتیں۔