چاند سورج کی جوڑی
جناح کے دائیں ہاتھ یعنی نوابزادہ لیاقت علی خان کو چاند قرار دینا کوئی غلط بات نہیں
لاہور:
اگر ایک استانی کو اپنے ایک طالب علم سے بہت پیار ہے تو وہ کیا کرے گی؟ اگر ایک پرائمری اسکول ٹیچر کو ایک بچے سے محبت جتائے تو دوسرے عجیب محسوس کریں گے۔ ایک ترکیب ہے جس سے وہ اپنے پسندیدہ شاگرد سے والہانہ محبت کا اظہار بھی کرے گی اور دوسرے بچے برا بھی نہیں مانیں گے۔ برا ماننا تو بڑی بات ہے اس کلاس کے دوسرے بچوں کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ہماری مس کس بچے کو بہت چاہتی ہیں۔
اس سوال کا جواب آج کے کالم میں ہی کہیں ملے گا اور ساتھ ہی ساتھ یہ واقعہ خودبخود جڑ جائے گا۔ ایک سیاسی بات ہے قائداعظم آسمانِ سیاست کا ایسا سورج تھے، جیسے جارج واشنگٹن، مصطفی کمال اتاترک، ہوچی منہ، گاندھی جی اور نیلسن منڈیلا، بابائے قوم جنھوں نے اپنی قوم کو غلامی سے بیدار کرکے آزادی دلائی۔ قائداعظم کے یوم ولادت کے حوالے سے ہم پاکستان کی بات کریںگے، لیکن پہلے دیکھیںگے کہ قائد کے کیا 2+1 یعنی تین کارنامے ہیں۔ پھر آفتاب و ماہتاب کیا۔ چاند سورج کے اس ذکر میں ہم پاکستان کے کئی رہنماؤں کا تذکرہ کریںگے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بات ہوگی تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا بھی ذکر ہوگا۔ مولانا شاہ احمد نورانی اور نواز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان اور الطاف حسین کو بھی یاد رکھا جائے گا۔ پہلے ہم قائداعظم کی بات کریںگے، اس کے بعد دوسرے نصف درجن پاکستانی رہنماؤں کی۔ یوں ہم پاکستان کے نوے فیصد یا یوں کہہ لیں کہ ''ایکسپریس'' کے قارئین کی بہت بڑی تعداد کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ پروفیسر اسٹینلے والبرٹ نے انوکھی بات کہی ''دنیا میں چند افراد نے نمایاں انداز میں تاریخ کا دھارا بدلا۔ ان سے بھی کم افراد نے دنیا کا نقشہ بدلا۔ شاید ہی کسی کو قومی ریاست کے قیام کا کریڈٹ دیا جاسکتا ہے۔ محمد علی جناح نے بیک وقت تینوں کارنامے سرانجام دیے''۔
جناح اگر برصغیر پاک و ہند کی سیاست کا سورج قرار پاتے ہیں تو چاند ہوئے لیاقت علی خان۔ تحریک پاکستان کے ان دو رہنماؤں کے بعد ہم مسلم لیگ (1906ء)، جماعت اسلامی (1941ء)، جمعیت علما پاکستان (1948ء)، پیپلزپارٹی (1967ء)، ایم کیو ایم (1984ء) اور تحریک انصاف (1996ء) کے قائدین کی بات کرکے ایک صدی کی سیاست تو ایک کالم میں سمیٹنے کی کوشش کریںگے۔ ہم دیکھیں گے کہ ان سیاسی پارٹیوں میں چاند سورج کی جوڑی کسے قرار دیا جاسکتا ہے۔
جناح کے دائیں ہاتھ یعنی نوابزادہ لیاقت علی خان کو چاند قرار دینا کوئی غلط بات نہیں۔ اپنے قائد کے مزاج کو سمجھ کر اور ان کی ہدایت پر چلنے والے کو یہ نام دیا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سمجھ دار نوابزادہ لیاقت علی خان پر مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح نے اعتماد کا اظہار کیا۔ پہلے سیکریٹری جنرل بنایا جو آزادی کی تحریک کے ہر مقام پر اپنے قائد کے شانہ بشانہ تھے۔ دوسرے مرحلے پر جب پاکستان قائم ہو گیا تو وزیراعظم کا اہم ترین منصب سونپ کر بابائے قوم نے قائد ملت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا کہ لیاقت واقعی ان کے ذہین دوست ہیں۔
قائداعظم کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کا کوئی با اعتماد ساتھی نہیں تھا، جیسے لیاقت علی اپنے قائد کے دست راست تھے۔ بھٹو اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو تیار کر رہے تھے کہ وہ ان کی جگہ لیںگی، اگر حالات سازگار ہوتے تو مرتضیٰ بھٹو اپنے والد کے جانشین بنتے۔ مولانا مودودی کے با اعتماد ساتھی میاں طفیل محمد ثابت ہوئے، مولانا امین احسن اصلاحی اور کوثر نیازی بھی ایک وقت میں مولانا مودودی کے قریب تر تھے لیکن آخر تک ساتھ نبھانے والے میاں طفیل محمد ثابت ہوئے، جن پر اراکین جماعت کی اکثریت نے اپنے بانی کی قیادت سے معذرت کے بعد اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
چاند سورج کی جوڑی اس کالم کو عنوان اس لیے دیا گیا ہے کہ سورج کی اپنی روشنی اور آب و تاب ہوتی ہے جب کہ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی ہے، یوں ہم پاکستان کے دیگر تین سیاسی پارٹیوں پر گفتگو کے بعد جانیںگے کہ کس طرح پاکستانی سیاست کو ایسے چاہے جانے والے رہنما ملے۔ کس طرح ایک سیاسی تنظیم نے چاند اور سورج کی مانند لیڈروں سے رہنمائی حاصل کی۔ کس طرح کی کیمسٹری ہوتی ہے دو لوگوں میں کہ وہ مختلف مزاج کے ہونے کے باوجود ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔
نواز شریف اور شہباز شریف کو مزاج کے اعتبار سے چاند سورج سے تو تشبیہ دی جاسکتی ہے لیکن معاملہ کچھ الٹ بھی دکھائی دیتا ہے، نواز شریف نسبتاً ٹھنڈے مزاج کے پرسکون رہنما ہیں جب کہ شہباز شریف کو ایک جذباتی انسان قرار دیا جاسکتا ہے۔ بھٹو بھی پرجوش شخص تھے جب کہ شہباز شریف اپنے نام کی طرح ہونے کے باوجود صلاحیت میں بھٹو سے کہیں کم درجے پر فائز ہیں۔ بھٹو و شہباز کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن جس طرح چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کا ساتھ دیا ہے اور وفاداری نبھائی ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ ہم 80ء کے عشرے میں ابھرنے والی مسلم لیگ میں شریف برادران کو چاند سورج کی جوڑی قرار دے سکتے ہیں۔
عمران خان تحریک انصاف کے بانی ہیں اور کرشماتی شخصیت۔2011ء کے بعد جس طرح شاہ محمود قریشی نے اپنے کپتان کا ساتھ نبھایا ہے تو ہم ان دو شخصیات کو چاند سورج کی جوڑی کہہ سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں شاہ محمود قریشی کا تجربہ بہت زیادہ ہے اور وہ وزیر خارجہ جیسے اہم منصب پر فائز بھی رہ چکے ہیں۔ اس سچائی کے باوجود بھی عمران کا اپنا ووٹ بینک ہے اور وہ ایک تنظیم کے بانی ہیں، لہٰذا ہم انھیں قائد و لیاقت، مودودی و طفیل، بھٹو و بے نظیر اور نواز و شہباز کے ہم پلہ قرار دے سکتے ہیں۔
جمعیت علما پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی کا ساتھ جس طرح پروفیسر شاہ فرید الحق نے نبھایا وہ تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جاسکتا، اسی طرح الطاف حسین کے ساتھ ایم کیو ایم میں فاروق ستار کو چاند سورج کی جوڑی قرار دینے پر سوالیہ نشان موجود ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
کالم نگار کا قائد سے پیار اس استانی کی مانند ہے جو ایک بچے کو چاہتی ہے، اس کے پیار کا راز فاش نہ ہو تو ٹیچر کو کیا کرنا چاہیے؟ اس استانی کو تمام بچوں کو پیار کرنا چاہیے، ایک شدت اپنے پسندیدہ بچے کے لیے ہوگی لیکن وہ چھپے ہوئے جذبات ہوںگے جو کوئی نہیں سمجھے گا۔ قائداعظم اور قائد ملت کے بارے میں لکھنے کے لیے ہم نے پاکستان کی چھ سیاسی پارٹیوں کے درجن بھر رہنماؤں کو قرار دیا ہے چاند سورج کی جوڑی۔