عوامی رابطہ مہم زوروں پر

پی ٹی آئی کے ’کپتان‘ کو توقع کے مطابق سپورٹر نہ ملے، جماعت اسلامی احتجاج میں مصروف


Junaid Khanzada December 25, 2012
پی ٹی آئی کے ’کپتان‘ کو توقع کے مطابق سپورٹر نہ ملے، جماعت اسلامی احتجاج میں مصروف۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، رواں سال دوسری بار اندرون سندھ عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں حیدرآباد بھی پہنچے، وہ سانگھڑ کے شہر کھپرو، وہاں سے میرپورخاص، ٹنڈوالہیار اور پھر کوٹری گئے، لیکن ہر جگہ 'کپتان' کو اپنے 'سپورٹرز' کی کمی کا سامنا رہا۔

پی ٹی آئی کے راہ نما اس عوامی رابطہ مہم کے شیڈول سے صحافیوں کو آگاہ نہیں کرسکے، جس کا نتیجہ بھی سامنے آگیا۔ کھپرو، میرپورخاص، ٹنڈوالہیار، کوٹری اور پھر حیدرآباد میں عوامی اجتماعات دیکھ کر 'کپتان' کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں اور کیمرے کی آنکھ نے کئی جگہ ان کی خفگی اور برہمی بھی دیکھی۔ چوبیس گھنٹے پہلے معلوم ہوا کہ عمران خان عوامی رابطہ مہم کا آغاز کھپرو سے کریں گے۔ 'کپتان' نے 'سپورٹروں' کی تعداد دیکھتے ہوئے جلسے کی 'پچ' پر اپنی 'اننگز' کو طول نہیں دیا اور میرپورخاص اور ٹنڈوالہ یار کے لیے روانہ ہو گئے، جہاں ان پر یقیناً واضح ہو گیا کہ ان علاقوں میں پی ٹی آئی کا پیغام صحیح طرح سے نہیں پہنچا ہے۔

بہرحال تین اضلاع کے ڈھائی گھنٹے کے طویل دورے کے بعد عمران خان کا قافلہ کوٹری کی خورشید کالونی گیا اور اس کے بعد حیدرآباد کے مقامی ہال میں چند سو کرسیوں سے سجے پنڈال میں انصاف اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے کارکنوں سے انھوں نے خطاب کیا۔ اس خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں فیصلہ کُن میچ ہونے والا ہے، جس میں ہم ایک گیند سے تین تین وکٹیں گرائیں گے۔ عام انتخابات میں نظریاتی نوجوانوں کا کرپٹ سیاست دانوں سے مقابلہ ہو گا، تحریک انصاف پچیس فی صد ٹکٹ نوجوانوں کو دے گی، پی ٹی آئی ایک نیا پاکستان بنائے گی، جس کی بنیاد عدل و انصاف پر ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوری اور کرپشن ختم کر دی جائے تو پاکستان کو کسی سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ستر فی صد پارلیمنٹیرین ٹیکس نہیں دیتے اور یہ لوگ کبھی اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے۔

ملک کے تمام سیاست دانوں کے مفادات ایک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سندھ سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہے، یہاں تبدیلی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پہلی سیاسی جماعت ہے، جو پارٹی کے اندر الیکشن کروا رہی ہے، جن پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں، وہ ملک میں کیسے جمہوریت لاسکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم منتخب ضلعی تنظیموں کی سفارشات پر ٹکٹ دیں گے، کیوں کہ یہ نوجوانوں کو اوپر لائیں گی۔ انھوں نے کہا کہ روایتی سیاست کرنے والے انتخابات کو خریدنے کی تیاری کر رہے ہیں، لیکن اب ان کا مقابلہ نظریاتی نوجوانوں سے ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑی سونامی یعنی انقلابی تبدیلی اس ظالم نظام کو بہا کر لے جائے گی۔ تبدیلی کا آغاز خیبر سے ہوگا اور یہ پنجاب اور دیگر صوبوں سے ہوتی ہوئی کراچی تک آئے گی۔

ان اجتماعات کے بعد عمران خان نے عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کی رہایش گاہ پر اپنے اعزاز میں عشائیے میں شرکت کی۔ وہاں عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی سڑکوں پرخون خرابا ہو گا۔ الیکشن اپنے وقت پر ہونے چاہییں، ہمیں اور عوام کو چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم پر پورا اعتماد ہے، لیکن الیکشن کمیشن کو بھی آزاد ہونا چاہیے اور ایسی نگراں حکومت آنی چاہیے، جس پر سب متفق ہوں۔ اس موقع پر ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ عمران خان سے پاکستان کے عوام کو توقعات ہیں کہ وہ دہشت گردی اورکرپشن کے خلاف بھی نمایاں کام کریں گے، سندھ میں غربت اورکرپشن کی مثال نہیں ملتی، پاکستان کو دہشت گردی کی ایسی آگ میں جھونک دیا گیا ہے، جس کے نتائج ہمیں بلور اور بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کی صورت میں ملتے ہیں، اس وقت پاکستان اور سندھ خطرے میں ہے، کیوں کہ ٹھٹھہ سے لے کر کراچی تک ایک الگ ملک اور صوبہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی حیدرآباد میں مسلسل یونیورسٹی، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجزکے قیام کے لیے ہر ہفتے مظاہرے کر رہی ہے۔ گذشتہ دنوں بھی باب الاسلام مسجد گل سینٹر اور غوثیہ مسجد امریکن کوارٹر میں احتجاجی مظاہرے سے نائب امیر رضوان احمد نے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے اس کے فروغ کے لیے کردار ادا کرے اور میڈیکل وانجینئرنگ کالجز کے لیے عملی قدم اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی اور کالجز نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی نقصان ہو رہا ہے، اگر یہی صورت حال رہی تو حیدرآباد ملک کا پسماندہ ترین ضلع بن جائے گا، ہر سال ہزاروں طلباء انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرتے ہیں، مگر یونیورسٹی، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی سفر آگے نہیں بڑھتا۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کے قیام کے اعلان کو تقریباً ایک سال ہوگیا ہے، مگر عملاً کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ زون وسطی کے امیر محمد حنیف شیخ نے کہا کہ حکومت اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کے سلسلے میں فوری اقدامات کرے۔ اس موقع پر سائٹ زون کے امیر شاہد نبی عباسی و دیگر نے بھی خطاب کیا، جب کہ عوام نے جماعت اسلامی کی یونیورسٹی بناؤ مہم کو سراہا اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ واضح رہے کہ 1986 میں ایم کیو ایم نے اپنی مقبولیت کے زمانے میں کوٹا سسٹم کے خاتمے اور حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا عوام کی طرف سے مطالبہ کیا تھا، لیکن گذشتہ بارہ سال سے حکومت میں شامل ہے، اس کے باوجود کوٹا سسٹم کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی بنانے کا اعلان ہو سکا ہے۔ اعلی تعلیم کے لیے اہلیت کے حامل طلباء کی تعداد میں اضافے کے بعد اس مسئلے کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

حیدرآباد میں تاریخی جلسے کے دوران مسلم لیگ فنکشنل، پنجاب کے صدر اور پیر صاحب پگارا کے سسرالی رشتے دار مخدوم احمد محمود نے اپنے مختصر خطاب میں کہا تھا کہ پورے پنجاب میں کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کے اتنے چاہنے والے ہیں، سندھی بھائیوں نے ہمیشہ اس گھرانے اور پاکستان کے ساتھ محبت کی ہے، ہم ان کی اس محبت کو ضایع نہیں ہونے دیں گے، پاکستان کی تعمیر اور سندھ کی خوش حالی کے لیے اس کا استعمال ہوگا، پیر صاحب عوام کے خیرخواہ اور ایمان دار بزرگوں کے تربیت یافتہ ہیں، ہمیں عوام کی نمایندگی کا حق ادا کرنا ہے، بے روزگاری، غربت اور ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے، مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق اس جماعت سے ہے۔

جس نے لاوزال قربانیاں دی ہیں اور عوام کی بے لوث خدمت کی ہے۔ اس خطاب کے ایک ہفتے بعدتک وہ فنکشنل لیگ کے ساتھ رہے، اور پھر ڈھائی ماہ کے لیے پنجاب کے گورنر بننے کے لیے لاہور چلے گئے۔ پیر صاحب پگارا نے ان سے استعفی لے لیا، لیکن حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست داں کا پی پی پی اور مسلم لیگ فنکشنل کے بارے میں کہنا ہے کہ سندھ میں قوم پرستوں کی چڑیائیں، نون لیگ کے جال پر جا کر بیٹھ رہی تھیں، اس لیے مسلم لیگ فنکشنل کو صدر آصف علی زرداری کے دیے ہوئے ٹاسک کے مطابق ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔

آصف علی زرداری اور پیر پگارا اچھے دوست ہیں اور رہیں گے، لیکن صوبے سے باہر قوم پرستوں کو کسی کا ساتھ میسر نہ آئے، اس لیے انھیں پیر پگارا کی قیادت میں بڑھنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ اگر انتخابات کے بعد پیر صاحب پگارا، چند ایسی نشستوں پر مسلم لیگ قاف، نون، قوم پرستوں کے تعاون سے جیت جاتے ہیں، جہاں قاف، نون اور آزاد امیدوار کام یاب ہوتے تھے، تو یہ فنکشنل لیگ اور پی پی پی دونوں کی کام یابی ہوگی۔ اس طرح کم سے کم سندھ میں یہ دونوں مل کر حکومت بنا سکتے ہیں اور انھیں ایم کیو ایم کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا کہ اس بات میں کتنا دم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں