میرے بیٹے کی شہادت ’برائے فروخت‘ نہیں

’’مگر سر! سولہ دسمبر کو میرے بیٹے کی برسی ہے اور مجھے اس دن اپنے گھر والوں کے ساتھ ہونا ہے‘‘ وہ چلاّیا۔


قیصر اعوان December 16, 2016
آپ لوگوں کو تو اُن کی یاد سال کے سال ہی آتی ہے مگر ہم اُن کی یاد میں روز جیتے روز مرتے ہیں اور سولہ دسمبر تو ہمارے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔

''جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں ہیں تمہیں ادارہ جوائن کئے ہوئے اور تم میرے پاس چھٹی کی درخواست لے کر آگئے ہو!'' باس نے اشرف کی درخواست غصّے سے اُس کی طرف واپس پھینکتے ہوئے کہا۔

''مگر سر، میرا جانا بہت ضروری ہے، میرے۔۔۔''

''میں نے ایک ہفتہ پہلے نوٹس جاری کردیا تھا کہ سولہ تاریخ تک کسی کو چھٹی نہیں ملے گی، اور تمہیں تو چھٹی ہی سولہ تاریخ کی چاہیئے۔'' باس نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے بیزاری سے کہا۔

''سرآپ میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کریں، میرے۔۔۔''

''تھوڑی دیر وہاں بیٹھ کر انتظار کرو، میں اس میٹنگ سے فارغ ہوکر تم سے بات کرتا ہوں۔''

باس نے پیچھے پڑی کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر سے اپنی میز کے اردگرد بیٹھے اسٹاف ممبران سے میٹنگ میں مصروف ہوگئے۔

''ہاں! تو بات چل رہی تھی کہ اس سال اسٹیج کیسا ڈیزائن کیا جائے، میرا آئیڈیا ہے کہ بیک گراؤنڈ میں ایک بڑی اسکرین لگا دی جائے جس پر پورے شو کے دوران شہید ہونے والے بچوں کی تصویریں چلتی رہیں۔ اس سے دیکھنے والوں میں ایک بڑی زبردست سی جذباتی کیفیت پیدا ہوگی، آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟

''زبردست رہے گا، سر'' سب یک زبان ہوکر بولے۔

''اور بیک گراؤنڈ میوزک ذرا درد بھرا ہونا چاہیئے۔ پچھلے سال والے میوزک ٹریک نے بالکل بھی مزہ نہیں کیا تھا۔'' باس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ ''ارسلان صاحب! یہ آپ کی ذمّہ داری تھی، پچھلی مرتبہ میں نے نظر انداز کردیا تھا مگر اس بار میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔''

''اس بار آپ کو مایوسی نہیں ہوگی سر'' ارسلان صاحب کے لہجے میں ندامت واضح تھی۔

''میرے خیال سے اینکر بدلنے کی ضرورت نہیں ہے، جبران شاہ ہی چلے گا۔ وہ روتا بھی خوب ہے اور رُلانے کا فن بھی خوب جانتا ہے، میرے خیال سے اُس سے بہتر آپشن کوئی نہیں ہوسکتا۔'' باس نے تائید چاہی۔

''مگر اس مرتبہ وہ شاید زیادہ پیسوں کا تقاضا کرے، پچھلے سال کے شو کی کامیابی کے بعد اُس کی ڈیمانڈ کافی بڑھ گئی ہے، وہ اس سال کوئی اور چینل بھی جوائن کرسکتا ہے۔'' شریف صاحب نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔

''نہیں میری اس سے بات ہوگئی ہے، پیسے تو وہ واقعی تھوڑے زیادہ مانگ رہا ہے مگر ہم ایڈجسٹ کرلیں گے۔'' باس نے پُر اعتماد لہجے میں کہا۔ ''ہمیں اتنے اسپانسرز بھی تو اُسی کی وجہ سے مل رہے ہیں، اُس کا حق بنتا ہے۔''

''سر! ایک مسئلہ ہے، میں نے کچھ شہید ہونے والے بچوں کے والدین سے رابطہ کیا تھا مگرزیادہ تر نے پروگرام میں شرکت سے انکار کردیا ہے، اور کچھ کو دوسرے چینلز پہلے ہی مدعو کرچکے ہیں، بس دو چار نے ہی ہامی بھری ہے اور۔۔۔''

''آپ نے انہیں بتایا نہیں کہ آپ کو اس کے باقاعدہ پیسے دیے جائیں گے اور آنے جانے اور رہائش کا سب خرچ بھی چینل برداشت کرے گا؟'' باس نے انور صاحب کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔

''جی سر! مگر پیسے لینے سے سب نے ہی صاف انکار کردیا ہے۔''

''پھر آپ ایسا کریں کہ جنہوں نے شرکت کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کردی ہے آپ ان کی پوری کی پوری فیملی کو ہی مدعو کرلیں، جتنے زیادہ لوگ ہوں گے ہمیں اُتنا ہی زیادہ وقت مل جائے گا۔ باقی سب جبران سنبھال لے گا، اُس نے باتیں ہی ایسی کرنی ہیں کہ وہ بولیں گے کم اور روئیں گے زیادہ، بات خودبخود ہی لمبی ہوتی چلی جائے گی، اور ہاں! یہ ذہن میں رہے کہ جس شہید بچے کے بارے میں بات کی جارہی ہو اس وقت اسی کی تصاویر اسکرین پر دکھائی جا رہی ہوں، اس سے ماحول مزید غمگین ہوجائے گا اور اچھا کیمرہ ورک ان مناظر کو مزید پُرسوز بنادے گا۔

حاضرین ہوں یا ناظرین، دیکھنے والوں کا کلیجہ نہ پھٹ گیا تو پھر کہنا۔ ایک اور بات۔۔۔ ''

''سر! پلیز میری درخواست پر دستخط کرکے مجھے اجازت دیں۔'' پیچھے کرسی پر بیٹھا اشرف یکدم سے کھڑا ہوکر باس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ اُس کی آواز میں ایک عجیب سی کپکپاہٹ تھی۔

''کیسے احمق آدمی ہو تم، یہاں اتنی اہم گفتگو چل رہی ہے اور تم ہمیں بیچ میں ڈسٹرب کر رہے ہو۔ پروفیشنلزم بھی کوئی چیز ہوتی ہے، کوئی چھٹی نہیں، جاؤ یہاں سے۔'' باس کو اُس کی اس حرکت پرشدید غصّہ آ گیا تھا۔

''مگر سر! سولہ دسمبر کو میرے بیٹے کی برسی ہے اور مجھے اس دن اپنے گھر والوں کے ساتھ ہونا ہے'' وہ چلاّیا۔ ''وہ بھی اُن معصوم شہیدوں میں شامل تھا جنہیں ''خراج عقیدت'' پیش کرنے کی آپ یہاں تیاریاں کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں کو تو اُن کی یاد سال کے سال ہی آتی ہے مگر ہم اُن کی یاد میں روز جیتے روز مرتے ہیں اور سولہ دسمبر تو ہمارے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا، ہمارے آنسو تو اُن کے جانے کے بعد کبھی تھمے ہی نہیں ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کے قابل اینکرز کی گھڑی ہوئی باتوں کا کمال ہے۔'' آنسو ابھی بھی اُس کی آنکھوں سے پانی کی طرح بہہ رہے تھے۔

''تو آپ کیوں نہیں اس پروگرام میں آکر اپنے خیالات کا اظہار کرتے، آپ کو اس کے الگ سے پیسے ملیں گے جو یقیناً آپ کی سیلری سے کہیں زیادہ ہوں گے؟'' انور صاحب نے پروفیشنل انداز میں آفر کی، شہیدوں کے والدین سے رابطہ کرنا انہی کی ذمّہ داری تھی۔

''سر! معاف کیجیے گا۔ میرے بیٹے کی شہادت برائے فروخت نہیں ہے۔ اُن کے جانے کے بعد ہماری تو دنیا ہی اُجڑ گئی اور آپ نے اسے کاروبار بنالیا ہے۔'' وہ یہ کہہ کر کب کمرے سے چلا گیا کسی کو پتہ ہی نہیں چلا، سب تو پتھر کے ہوگئے تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔