بک ریویو طلسم مٹی کا

فیروز ناطق خسرو کے شعری جھروکے سے ان کی بے نیاز مہکار کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔


رضاالحق صدیقی December 17, 2016
فیروز ناطق خسرو کی غزل پڑھنے کے بعد دو باتیں کُھل کر سامنے آتی ہیں۔ احساس کی سنجیدگی اور رویے کی بے نیازی۔

میں زادِ راہ سمجھتا ہوں فکرِ غالب کو
سخن میں میر کو اپنا امیر کرتا ہوں

غزل ایک ایسا وسیع اور گھنا جنگل ہے، جس میں سب درخت ایک جیسے لگتے ہیں لیکن شعر سے لگاؤ رکھنے والوں کو اس جنگل کی تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی کبھی کچھ درخت اپنے قد اور پھیلاؤ کی وجہ سے خود کو نمایاں کرنے میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے فیروز ناطق خسرو بھی ایسے ہی درختوں میں سے ایک ہیں۔ وہ ان شاعروں میں شامل ہیں جو اپنی غزل کی چلمن کے پیچھے بھی صاف دکھائی دیتے ہیں۔ فیروز ناطق خسرو کے شعری جھروکے سے ان کی بے نیاز مہکار کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
نام ان کا بھی لکھے خسرو کوئی تاریخ میں
کاٹتے رہتے ہیں جو ہر وقت تیشے سے پہاڑ
میں نے کہا کہ آئینہ خانہ ہے میرا گھر
کہنے لگے کہ دل کو بھی آئینہ رو کرو
میں تتلیوں کو سفارت پہ بھیجتا ہوں کبھی
میں جگنوؤں کو بھی اپنا سفیر کرتا ہوں

فیروز ناطق خسرو کی غزل پڑھنے کے بعد دو باتیں کُھل کر سامنے آتی ہیں۔ احساس کی سنجیدگی اور رویے کی بے نیازی۔ بظاہر یہ خصوصیات متضاد نظر آتی ہیں لیکن زیادہ گہرائی سے مطالعہ کریں تو غزل میں ان خصوصیات کا عمل شعری تصویر کو زیادہ فطری اور بامعنی بناتا ہے۔

اگر آپ کو جنگل میں ناچتے مور کے خوشنما پروں کی دل فریب حرکت اچھی لگتی ہے تو آپ فیروز ناطق خسرو کی غزل نہ پڑھیں لیکن اگر رقص کے رنگین دائرہ کے مرکز کی تلاش میں سرگرداں آپ کی نگاہ مور کے پیروں پر آکر ٹھہر جاتی ہو اور آپ مور کے پروں کی شوخی اور پیروں کی بدصورتی میں تمیز کرسکتے ہیں تو فیروز ناطق خسرو کی غزل ضرور پڑھیں، آپ کو پسند آئے گی۔

زندگی ایک سنجیدہ معروضی حقیقت ہے اور اس حقیقت کی تصویر کے رنگ مور کے پروں کی طرح شوخ اور کچے نہیں، دھیمے اور پکے ہونے چائیے۔ ادب اگر زندگی کی تفہیم کا اہم وسیلہ ہے تو اس وسیلے کو طلسم ہوشربا نہیں بانگِ درا ہونا چاہیئے۔ اسی فکری روش پر رواں دواں فیروز ناطق خسرو کی غزل پر رومان سے زیادہ عرفان کی چھاپ نظر آتی ہے۔

یہ درست ہے کہ فیروز ناطق خسرو کے ہاں رومانی احساس کی چھاپ گہری نہیں، تاہم زندگانی کی حقیقت کے چہرے کو بے نقاب کرنے اور اس کی روح کے پاتال میں اترنے کے لئے ان کی غزل میں ایک جمالیاتی رویہ ضرور ملتا ہے۔ وہ شاعری میں اکثر جگہ بحر و آہنگ کی خوشگوار غنائی فضا اور الفاظ کے صوتی حسن سے شعر میں اپنے جمالیاتی رویے کو برقرار رکھتے ہیں۔
میں اپنی تصویر اٹھائے سب سے پوچھتا پھرتا ہوں
لوگو مجھ کو غور سے دیکھو کیا میں پہلے جیسا ہوں
اور کسی کو کیا بتلاؤں دن میں کتنی بار
چہرے سے پہلے آئینہ دیکھا کرتا ہوں
میں تصویروں سے اپنی مختلف ہوں
مجھے ہر ملنے والا ڈھونڈتا ہے
آنکھ پتھر ہوئی خود اپنی ہی عریانی سے
آئینہ ٹوٹ گیا شدتِ حیرانی سے

ایک نقص جو، ان کے ہاں پایا جاتا ہے وہ ہے تضاد، ایک غزل میں وہ کہہ رہے ہوتے ہیں۔
آنکھ والوں کے لئے میر کا کہنا ہے بجا
ورنہ دیوار میں منہ ہیں نہ ہیں در میں آنکھیں

اور اسی غزل کے مقطع میں وہ کہتے ہیں اور مقطع وہ شعر ہے جسے حاصلِ غزل کہا جاتا ہے جس میں شاعر اپنی پوری جان لگاتا ہے۔
یہ جہاں آئینہ خانے سے نہیں کم خسرو
نقش در نقش ہیں دیوار میں در میں آنکھیں

یہ کوئی فنی نقص نہیں ہے، فیروز ناطق خسرو قادرالکمال شاعر ہیں۔ انہیں اس غزل کو مجموعے میں شامل کرتے ہوئے دونوں میں سے ایک شعر شامل کرنا چاہیئے تھا۔ اسی طرح کی کئی اور مثالیں ہیں۔

زیرِنظر مجموعہِ شعر ''طلسم مٹی کا'' خود میں بھرپور معنویت لئے ہوئے ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
ہٹی نگاہ تو ٹوٹا طلسم مٹی کا
وگرنہ چاک پہ رقصاں تھا جسم مٹی کا

فیروز ناطق خسرو کے مجموعہ شاعری ''طلسم مٹی کا'' احساس کی سنجیدگی اور رویے کی بے نیازی کا حامل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں