اُمید
ہر پیدا ہونے والا بچہ ، دُنیا میں خدا کا یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ ابھی خدا انسان سے (نعوذ باللہ ) مایوس نہیں ہوا ہے۔
امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب حسبِ معمول مدینہ کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے ۔ ایک گھر کے پاس سے گزرے تو دو خواتین کے درمیان ہونے والی بحث سُن کر ٹھٹھک گئے ۔ دونوں خواتین کے درمیان ماں بیٹی کا رشتہ تھا۔ بزرگ خاتون اپنی نوجوان بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کے لیے آمادہ کر رہی تھیں ۔ بیٹی کا اصرار تھا کہ یہ بے ایمانی ہے ۔ امیر المومنین نے سختی سے ملاوٹ کے لیے منع فرمایا ہے۔ ماں نے کہا ''امیر المومنین کونسا اِس وقت ہمیں دیکھ رہے ہیں ، جو اُنھیں پتہ چل جائے گا ۔'' بیٹی نے جواب دیا۔ '' امّاں خدا تو ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ وہ تو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہوتا ہے ۔'' حضرت عمر ؓ اِس نوجوان لڑکی کی دینداری اور دیانتداری سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے صاحبزادے کا رشتہ اِس لڑکی سے طے کر کے اور اُسے اپنی بہو بنا کر اپنے گھر لے آئے ۔ اِسی لڑکی کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اور یہی لڑکی حضرت عمرؓ کی وہ پوتی تھی ، جسے پانچویں خلیفہِ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کی والدہ محترمہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ خلافت راشدہ کے چاروں خلفأ کے بعد جب بنو اُمیّہ کی بے اعتدالیوں کے باعث اسلامی خلافت بادشاہت میں تبدیل ہو چکی تھی ۔
99ھ میں یہی عمر بن عبدالعزیز بنو اُمیّہ کے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی ایک ایسی وصیت کے تحت جس کا علم کسی کو بھی نہ تھا منصبِ خلافت پر فائز ہوئے ۔ یعنی اُنہوں نے عین اسلامی طریقہِ حکومت کے مطابق اِس منصب کے لیے نہ تو کوئی خواہش ظاہر کی اور نہ ہی اِس کے لیے کسی قسم کی کوشش کی ۔ بلکہ اِس کے برعکس اُنہوں نے اعلان کیا کہ '' میری جگہ اگر کوئی بھی یہ ذمے داری اُٹھانے کے لیے تیار ہو تو میں دستبردار ہوتا ہوں ۔'' لیکن لوگوں کے اصرار پر وہ یہ منصب لینے پر آمادہ ہوگئے ۔ اپنے ڈھائی سالہ دورِ خلافت میں اُنہوں نے اپنے طرزِ عمل سے طویل عرصے کے بعد اُمتِ مُسلّمہ کو خلافت راشدہ کے سُنہری دورکی جھلک دکھا دی ۔ اِسی لیے مورخین اِن کے دورِ خلافت کو خلافت راشدہ کا تسلسل قرار دیتے ہیں ۔ خلیفہ بنتے ہی اُنہوں نے احتساب کا عمل اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کیا ۔ اُنہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی وہ تمام جائیدادیں جو ناجائز طور پر اُنھیں وراثت میں ملی تھیں بیت المال کو واپس کر دیں۔ اپنی بیوی کے تمام زیورات اور خاندانی زروجواہر تک واپس کردیے۔تمام شاہانہ پروٹوکول ترک کردیا ۔
سادگی اختیار کی ، تمام غیر اسلامی اور ظالمانہ قوانین منسوخ کردیے، ہر ظالم کی گردن پکڑ کر مظلوم کو اُس کا حق دلوایا ۔ تمام ناجائز ٹیکس ختم کردیے ۔ عدالت کا احترام بحال کیا اور بیت المال کو اُمت کی امانت قرار دیکر ، خود اپنی ذات کے لیے ، چراغ میں جلنے والے تیل کی ایک بوند کو بھی حرام قرار دیا ۔ اِن کے اقدامات کے نتیجے میں ، مختصر ترین عرصے میں عوام کو خلافت اور بادشاہت کا فرق بالکل صاف نظر آنے لگا ۔ دوسری طرف اِن کے اِس طرزِ عمل نے بنو اُمیّہ کے حکمران خاندان میں ہلچل مچادی اور اُنھیں یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ بنو اُمیّہ خاندان کے ہاتھ سے یہ موروثی حکمرانی نہ نکل جائے ۔ لہذا صرف ڈھائی برس کے بعد ہی ایک سازش کے ذریعے اِس عظیم المرتبت شخصیت کو زہر دے کر موت کی نیند سُلا دیا گیا ۔ لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے ، جب کہ اِن کے قاتلوں کا نام و نشان وقت کی دھول بن گیا ۔ کسی بھی مطلق العنّان حکمران کو اِس امر پر قائل کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ وہ اپنے اختیارات اور طاقت سے از خود دستبردار ہوجائے ۔ ایسا صرف وہی حکمران کریگا ، جس کے دِل میں خوفِ خدا ہو یا پھر وہ اپنے ملک و قوم سے مخلص ہو ۔
اِس وقت ہمارے ملک کو جس قسم کے حالات درپیش ہیں ، اِن حالات میں ہمیں ایک ایسے ہی حکمران کی اشد ضرورت ہے ، جو ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ، بجائے خود کو مضبوط کرنے کے ، ملک کے اداروں کو مضبوط بنائے ۔ آئین کے تحت اداروں کے طے شدہ اختیارات واپس کر کے اُنھیں خود مختار بنائے تا کہ ''چیک اینڈ بیلنس'' کے طے شدہ اصول کے تحت ادارے ایک دوسرے کی کوتاہیوں پر نظر رکھتے ہوئے اصلاح کا عمل جاری رکھیں اور مملکتِ پاکستان دیگر جدید ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں کی طرح ، ایک حقیقی جمہوری اور اسلامی ریاست کے قالب میں ڈھل کر دُنیا کے سامنے اپنا کھویا ہوا تشخّص بحال کر سکے ۔ واضح رہے کہ یہاں میری مراد کسی ایسے حکمران سے نہیں ہے ۔ جو طاقت کے بل پر اِس قوم پر مُسلط ہوجائے اور احتساب و اصلاحات کے کھوکھلے نعرے لگا کر قوم کو مزید گہری دلدل میں دھکیلنے کا سبب بن جائے ۔
ہم چار مرتبہ ایسے ''نجات دہنداؤں '' کو بھُگت کر ہی موجودہ مقام ذلّت تک پہنچے ہیں ۔ میں صرف ایسے حکمران کی بات کر رہا ہوں جو مروجّہ آئین کے تحت ، آئینی طریقے سے اقتدار میں آئے ، اُسکی پشت پر عوام کی طاقت موجود ہو ۔ جس کا ظاہر ہے کہ ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے بیلٹ کے ذریعے تبدیلی ۔ بیلٹ کے ذریعے تبدیلی تو اِس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے ، لیکن ہمارے مسائل کا حل صرف ایک ایسا ہی دیانتدار حکمران ہے ، جو از خود اپنی ذات میں سمیٹے ہوئے اختیارات اُن اداروں کو واپس کرنے کا حوصلہ اور نیت رکھتا ہو ، جو کہ آئینی طور پر اُنہی اداروں کا حق ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بجائے خود اپنی ذات کے ، قانون کی حکمرانی پر یقین کامل رکھتا ہو ۔ اور ریاستی اداروں کے وضع کردہ تمام قوانین کو خود اپنی ذات پر بھی اِسی طرح لاگو کرے ، جیسے وہ قوانین اِس ملک کے کمزور اورغریب طبقے پر لاگو کیے جاتے ہیں ۔ ملک کے تمام اہم ترین ادارے اِن شعبوں کے ماہرین کے حوالے کرے جو کہ اِنہیں چلانے کا وسیع تر تجربہ رکھتے ہوں ۔ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں اِسی طرح مخلص ہو ، جیسے کوئی ماں اپنی اولاد کے لیے ہوتی ہے ۔
ملک میں امن و امان کو مثالی بنا کر ریاست کی رٹ قائم کرے تا کہ عوام کے لیے روزگار کے نئے وسائل پیدا ہوسکیں اور بازاروں میں بلا کسی خوف کے کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں ۔ ظالم اور طاقتور طبقات کا گلا آہنی ہاتھوں سے پکڑ کر اُن سے ٹیکس وصول کر سکے تا کہ ملک کے غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر خرچ کر نے کے لیے بجٹ کی کمی نہ ہو ۔ بہترین تعلیمی نظام جنگی بنیادوں پر رائج کرے ۔ سب سے بڑھ کر نظام انصاف کو شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ اِس کی رفتار کو بھی تیز تر کرے ۔
سفارش اور رشوت کلچر کا خاتمہ کر کے صرف اور صرف میرٹ کو کسوٹی بنائے ۔ وی آئی پی کلچر،جاہ وحشم اور محافظوں کے حصار سے باہر آکر اُس کی آنکھیں زمینی حقائق کو دیکھ سکیں اور ہوٹرز کا شور سُننے کے اُس کے کان عادی نہ ہوں ۔ عزیز و اقارب ، دوست اور پیشہ ور خوشامدی اُس کے قرب سے گھبراتے ہوں اور حقدار اپنا جائز حق طلب کرتے وقت اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے ہچکچاتا نہ ہو ۔ اُس کے دِل میں سوائے خوفِ خدا کے کسی زمینی خدا کا خوف نہ ہو ۔ جسے عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ ملک کتنی ترقی کر چکا ہے اور عوام کس قدر خوشحال ہوچکے ہیں ؟ میڈیا پر اشتہار چلانے کی ضرورت نہ محسوس ہو ۔ کیونکہ ترقی کوئی ایسی خفیہ چیز نہیں جو کسی کو نظر ہی نہ آئے ۔ ترقی اور خوشحالی تو اپنی زبان سے خود ہی بولتی ہے ۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی اشتہار دے کر یہ بتانے کی کوشش کرے کہ سورج نکل آیا ہے ۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ می ںکس قسم کی خیالی باتیں کر رہا ہوں؟ کیا ایسا کبھی ممکن ہو سکتا ہے ؟ میرا جواب ہے کہ بالکل ممکن ہے ۔ اِسکی مثال ابتداء میں ہی آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ میں مایوسی کو کُفر سمجھتا ہوں ، تاریخ میں کئی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنے اخلاصِ عمل کے باعث قوموں کی تقدیریں بدل کر رکھ دی ہیں ۔ ترکی اور ملائشیا تو بالکل سامنے کی مثالیں ہیں ۔ جو پہلے ہوتا رہا ہے ، وہ اب کیوں نہیں ہوسکتا ؟ تاریخ تو متواتر خود کو دہراتی رہتی ہے۔ پھر خدا تو ہر شے پر قادر ہے وہ جب چاہے کسی کو بھی عروج عطا کردے ، صرف خلوصِ نیت شرط ہے ۔ پھر نا اُمیدی اور مایوسی کیسی ؟ نوبل انعام یافتہ ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کی تحریر کا ایک اقتباس آخر میں درج کرتا چلوں ۔ ٹیگور کہتا ہے ''ہر پیدا ہونے والا بچہ ، دُنیا میں خدا کا یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ ابھی خدا انسان سے (نعوذ باللہ ) مایوس نہیں ہوا ہے ۔''