قائداعظم اور کرسمس
مذہبی انتہا پسندی کی بڑی وجہ وہ تعصبات ہیں، جن سے گمراہ ہو کر عام لوگ ظلم اور زیادتی کے رستے پر چل پڑتے ہیں۔
25 دسمبر قائد اعظم کا یوم پیدائش بھی ہے اور ہمارے مسیحی بھائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کا دن بھی گویا پاکستان کی مسیحی برادری کے لیے یہ ایک دوہری خوشی کا دن ہے بلکہ ایک لحاظ سے فقے' فرقے اور عقیدے کی تقسیم سے بالاتر ہر مسلمان کے لیے بھی یہ ایک خوشی کا دن ہے کہ حضرت عیسیٰ کی رسالت اور انجیل کے الہامی صحیفہ ہونے پر ایمان ہمارے ایمان کی بنیادی شرائط میں شامل ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کو یاد کرتے ہوئے ایک بار پھر مجھے نیلسن منڈیلا کا وہ قول یاد آ رہا ہے جو میں نے چند دن قبل بھی کسی کالم میں درج کیا تھا کہ سیاستدان اور لیڈر میں فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور لیڈر اگلی نسل کے بارے میں۔ قائد کی زندگی' نظریات' سیاسی سفر اور تحریک پاکستان میں ان کے کردار پر جب بھی اور جس پہلو سے بھی نظر ڈالی جائے وہ ہر لحاظ سے ایک ''لیڈر'' ہی نظر آتے ہیں، تقدیر نے قیام پاکستان کے بعد انھیں زیادہ وقت نہیں دیا لیکن اگر ایسا ہو جاتا (اور کاش ایسا ہو جاتا) تو مجھے یقین ہے وہ بھی نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد کی طرح اپنی قوم اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر ڈال کر خود سیاسی عہدوں سے الگ ہو جاتے۔ گزشتہ دنوں مجھے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی دعوت پر کچھ وقت وائس چانسلر ڈاکٹر محمد مختار اور ان کے رفقائے کار اور طلبہ و طالبات کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا اور وہاں بھی گفتگو کا عمومی موضوع یہی رہا کہ ہم کہاں جانا چاہتے تھے اور کہاں آ گئے ہیں اور یہ کہ زوال کا یہ منظر نامہ کب اور کیسے ہمیں اس مقام پر لے جائے گا۔
جہاں سے ہم غار کے دوسرے کنارے پر موجود روشنی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ ایک اور تشویش انگیز بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے نظام تعلیم' میڈیا اور قومی نصب العین کو کچھ ایسی شکل دے دی ہے کہ ہماری نوجوان نسل قیام پاکستان کی ضرورت اور قائداعظمؒ کی شخصیت کے درخشاں پہلوئوں سے دور اور نا آشنا ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے دوست ایئر کموڈور (اب ریٹائرڈ) خالد چشتی نے جب قائد کی بہت سی ایسی تصاویر جمع کیں جن میں سے بیشتر ابھی تک سامنے نہیں آئیں تھیں تو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ ان میں جگہ جگہ قائد ہنستے اور مسکراتے نظر آ رہے ہیں جب کہ کرنسی نوٹوں' سرکاری دفاتر' اخبارات اور میڈیا پر ان کی جو تصویریں دکھائی جاتی ہیں ان سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ وہ شاید بہت خشک مزاج اور خوشگوار انسانی جذبات سے محروم کوئی قنوطی قسم کے ضرورت سے زیادہ ڈسپلن زدہ انسان تھے۔
خالد چشتی کی حاصل کردہ یہ تصاویر (جن میں سے کچھ کو برادرم نصرالصمد قریشی نے گزشتہ برس اپنے ادارے کے ٹیبل کیلنڈر کا حصہ بھی بنایا) قائد کے ایسے روپ کو سامنے لاتی ہیں جو بالخصوص نوجوان نسل کے لیے بہت دلکشی اور حوصلے کا باعث بنا کہ ان کی مسکراہٹ ایک ایسا صدقہ ہے جس کا دائرہ آیندہ آنے والی نسلوں پر بھی محیط ہے۔ کاش اب کوئی اور خدا کا ایسا بندہ سامنے آئے جو ہمارے سیاسی لیڈروں کو قائداعظم کے اس چہرے سے بھی روشناس کرا سکے جس کی آنکھیں اگلے الیکشن کے بجائے اگلی نسل پر ہوں۔ اگر قائد کی سی سوچ والے دس رہنما بھی پاکستان کو مل جائیں تو وہ سارے معاملات سدھر سکتے ہیں جن کے باعث آج مایوسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
کرسمس کے حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں بھی دنیا کے مہذب ملکوں کی طرح اقلیتی گروپوں کو مذہبی شناخت کے بجائے ان کی نسل' قوم اور شہری حقوق کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کیونکہ مذہب اور عقیدہ کسی بھی ملک کے شہریوں کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے جب ہم اس ذاتی معاملے کو گروہوں کی پہچان اور تعداد کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو بہت سی چیزیں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے اسلام اور عیسائیت سمیت دنیا بھر کے توحید پرست انسان مذہبی حوالے سے نہ صرف کئی ضمنی گروہوں میں بٹ چکے ہیں بلکہ اپنے اپنے عقیدے کو اصل ایمان قرار دے کر اپنے ہی ہم مذہبوں سے برسرپیکار ہیں۔ لیکن اس وقت میں اپنی بات کو کرسمس اور پاکستانی معاشرے میں مسیحی برادری کے کردار اور مسائل تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
چند برس قبل ''پھر یوں ہوا'' کے نام سے میں نے پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ بھی پیش کیا تھا جسے بالخصوص مسیحی برادری نے بہت پسند کیا تھا، جس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ آپ اپنے ہم وطنوں کو ایک مذہبی اقلیت کے بجائے اگر ایک برابر کے شہری کے طور پر دیکھیں (جو ان کا حق ہے اکثریت کا احسان نہیں) اور ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کریں تو اعتماد کی ایک ایسی فضا خود بخود پیدا ہو جاتی ہے جس کی رو میں بے شمار نام نہاد مسائل آپ سے آپ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔
کرسمس کے حوالے سے ایک اور بات جس کا ذکر رمضان کے دنوں میں اکثر کیا جاتا ہے اور جو بلاشبہ سیکھنے اور عمل کرنے کے قابل ہے، وہ تمام دنیا میں' جہاں جہاں مسیحی آبادی کی کثرت ہے' ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ لوگ ان کے معاشرے اور بالخصوص تاجر اور دکاندار حضرات کرسمس کے دنوں میں تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں بہت واضح اور نمایاں کمی کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے برادران اسلام سال بھر کی منافع خوری کے ریکارڈ توڑنے کے مقابلے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
دوسری اہم بات اس برادری کی پاکستان سے محبت' امن پسندی اور قوت برداشت ہے کہ اندرونی اور بیرونی سیاسی عوامل اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے جب ان کو یا ان کی عبادت گاہوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو یہ کس حوصلے سے اشتعال میں آئے بغیر پر امن طریقے سے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان کا یہ کردار تمام پاکستانیوں کے لیے قابل تقلید ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ جہالت' کم علمی اور ان سے پیدا شدہ وہ تعصبات ہیں، جن سے گمراہ ہو کر عام لوگ ظلم اور زیادتی کے رستے پر چل پڑتے ہیں۔ تمام نبیوں کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے بھی ایسے لوگوں کی اصلاح اور معافی کے لیے رب کریم سے دعائیں مانگی ہیں۔