کچھ اور اہل زر نے بڑھالیں ’’مراعاتیں‘‘

سرحدوں پر گولیاں چل رہی ہیں، ہندوستانی فوجیں پاکستانی آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں


Saeed Parvez November 27, 2016

سرحدوں پر گولیاں چل رہی ہیں، ہندوستانی فوجیں پاکستانی آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، معصوم شہری شہید و زخمی ہو رہے ہیں، در ودیوار چھلنی ہو رہے ہیں، ابھی تین روز پہلے بھارتی فوج نے ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا، دس مسافر شہید ہوئے اور بیس کے قریب زخمی ہوگئے۔ یہی نہیں ہلاک و زخمی ہونے والوں کو اسپتال پہنچانے کے لیے آنے والی ایمبولینسوں پر بھی گولیاں برسائی گئیں۔

جس دن بس پر گولیاں برس رہی تھیں عین اسی دن اسی وقت اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ جس میں ممبران قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر سوچ بچار ہو رہی تھی، اور سوچ بچار کے بعد ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں تقریباً دو گنا اضافہ کردیا گیا ہے۔ ہمارے ہونہار ممبران پارلیمنٹ اس دوگنا اضافے میں مزید اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے، مگر وزیر اعظم نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ فی الحال اتنا ہی اضافہ ممکن ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر پاک بھارت سرحدوں پر امن و امان ہوتا تو ہمارے حکمرانوں نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ممبران پارلیمان محلوں میں مزید چراغاں کردینا تھا۔

دن میں مسافر بس پر گولیاں برسائیں اور ممبران پارلیمنٹ پر دولت برسی اور پھر اسی شام ایک صاحبہ مسکراہٹیں بکھیرتی ہوئی ٹیلی ویژن اسکرین پر نمودار ہوئیں اور فرمایا ''ممبران قومی اسمبلی کی تنخواہیں، اضافے کے بعد بھی بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ممبران سے کم ہیں۔'' اور میں پھر سوچ رہا ہوں کہ ہماری یہ صاحبہ موازنے کے لیے بلوچستان چلی گئیں! کیوں؟

یہ اس پارلیمنٹ کا ذکر ہو رہا ہے جہاں مرکزی وزرا اکثر غیر حاضر پائے جاتے ہیں، جہاں بادشاہ وقت کے بھانجے، بھتیجے غیر حاضر رہتے ہیں، یہی حال دیگر ممبران کا ہے مگر غیر حاضری پر ان کی تنخواہیں نہیں کٹتیں۔ ان کو مراعاتی پیسوں سمیت سب کچھ برابر ملتا رہتا ہے۔

اے میرے پیارے ووٹر! اور کیا ثبوت درکار ہے تجھے کہ لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر سرد و گرم موسم کی پرواہ کیے بغیر... اے مرے پیارے ووٹر! تو جن لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتا ہے وہ ''تیرے'' نہیں ہیں۔ وہ کسی اور ''دنیا'' کے رہائشی ہیں، جہاں رنگ برستے ہیں، نور بکھرتے ہیں، اطلس و کم خواب لہلہاتے ہیں، سبزہ و گل کھلکھلاتے ہیں ، چاند شرماتے ہیں کہ ان سے کہیں زیادہ خوبصورت چاند وہاں پائے جاتے ہیں۔

جہاں ہر روز، روز عید ہے، ہر شب شب برأت۔ اے میرے پیارے ووٹر! تو کس آس امید پر الیکشن میں ووٹ ڈالنے چلا آتا ہے۔ ''یہ لوگ'' کبھی تیرے نہیں بنیں گے۔ یہ کبھی بھی اپنی دنیاؤں کی روشنیوں کا کچھ حصہ تجھے نہیں دیں گے۔ یہ کبھی بھی اپنے روز عید اور ہر شب، شب برأت میں سے تیرا حصہ نہیں نکالیں گے۔ یہ تیرے کبھی تھے اور نہ کبھی ہوں گے۔ لہٰذا اے میرے پیارے ووٹر! تو بھی ان سے اپنے سارے ناتے توڑ دے اور ''اپنی دنیا آپ پیدا کر، اگر زندوں میں ہے''۔ اپنی قیادت میں خود کو تلاش کر۔

جب مسائل زدہ لوگ کبھی طوفان اٹھا دیتے ہیں، تو یہ محل سراؤں کے باسی مسائل زدگان کے ہاتھوں میں جھنجھنا تھما کر کہتے ہیں:

ایسی باتیں نہ کرو' جاؤ کھیلو
جاؤ کھیلو' یہ لو جھنجھنا
ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے
اجی ''پیار'' میں کیا رکھا ہے

یہ محل سراؤں کے باسی اللہ کی زمین کے قابض سمجھتے ہیں کہ ''عوام'' سیاسی طور پر بالغ نہیں ہوئے۔ یہ کیا جانے کاروبار سیاست کیسے چلایا جاتا ہے۔

مجھے یاد آیا متحدہ قومی موومنٹ جب مہاجر قومی موومنٹ تھی عمران فاروق بھی زندہ تھے، ایم کیو ایم والے پاجامہ کرتا اور کالی واسکٹ پہنے جب قومی اسمبلی میں داخل ہوئے تو محل سراؤں کے باسیوں نے اس فقرے سے ان کا سواگت کیا ''طبلے سارنگیاں کہاں چھوڑ آئے؟'' یعنی ان کے سادہ لباس کا مذاق اڑایا کہ یہ کرتا پاجامہ اور واسکٹ طبلہ سارنگی بجانے والوں کا پہناوا ہے۔ یہاں یہ بات صرف اس لیے لکھی ہے کہ ان ''جدی پشتی'' قابضین کو ''کسی اور'' کا وجود قومی اسمبلی میں برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ عمران فاروق نے اس روز اسمبلی میں یہ مشہور شعر بھی پڑھا تھا۔

غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا

شاعری کا یہی کمال ہے کہ ایک شعر ہی بھاری ہوتا ہے۔ باقی میں کالم کیا لکھتا ہوں، زخموں کو کریدتا ہوں۔ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے اس گھر میں جنم لیا جہاں جنم جنم کے باغی حبیب جالب نے بھی جنم لیا۔ یقینا میری مٹی میں کچھ نم موجود تھا، سو میرے اندر باغی بھائی کے خیالات جڑ پکڑگئے۔ اس جڑ پکڑنے کا نتیجہ ہے کہ میں باغی شاعر پر لکھے لفظوں کو سینت سینت کر دس کتابیں بنا چکا ہوں جن میں 1200 صفحات کی کتاب بنام ''میں طلوع ہورہا ہوں'' اور 500 صفحات کی کتاب بنام ''گھر کی گواہی'' بھی شامل ہیں۔

میں بھی اسی آس امید کے ساتھ آخری سانس لینا چاہتا ہوں جالب کی طرح اسی یقین کے ساتھ دنیا چھوڑنا چاہتا ہوں۔

رستہ کہاں سورج کا کوئی روک سکا ہے
ہوتی ہے کہاں رات کے زنداں میں سحر بند

سو بقول غالب ''گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے، میں بڑا سکھی ہوں، بڑے آرام میں ہوں'' دنیا بھر کے مظلوموں، مجبوروں، مقہوروں کے دکھ میرے ساتھی ہیں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوش ہوں۔ ضمیر پر کوئی رتی برابر بوجھ نہیں ہے ظالموں اور ان کے حلقہ بگوشوں سے میرا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ قاضی نذرالاسلام کا پیروکار ہوں، وہ کہتے ہیں ''میں زمانہ حال کا شاعر ہوں، مستقبل کا پیغام بر نہیں '' کوئی کہتا ہے شاعر کا قید و بند سے کیا واسطہ، لوگو! میری جان ضیق میں ہے مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ مستقبل مجھے یاد رکھے گا یا نہیں، تمنا ہے تو فقط اتنی کہ جو لوگ خلق خدا کو بھوکوں ترسا رہے ہیں، میرا کلام ان کے لیے پیام موت ثابت ہو'' قاضی صاحب کے بعد کچھ اور لکھنا حرام ہے۔ سو میں یہ گناہ نہیں کروں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں