فیس بک… آزادی اظہار کا علمبردار

رواں سال ماہ اپریل میں امریکی سیاستدان برنی سینڈر کی حمایت کرنے والے چھ فیس بک گروپس کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔


تزئین حسن November 27, 2016
سماجی رابطہ کا سب سے موثر ادارہ فلسطینی صحافیوں کے پیجز ڈیلیٹ لیکن عر بوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے مواد کو مسلسل نظر انداز کررہا ہے ۔ فوٹو : فائل

کولمبیا یونیورسٹی کا ٹوسینٹر آف ڈیجیٹل جرنلزم،(Tow centre of digital journalism) ٹیکنالوجی کے انضمام کے نتیجے میں صحافت کے میدان میں پچھلے دو عشروں میں آنے والی تبدیلیوں پر تحقیق کرنے والا ادارہ ہے۔ محترمہ ایملی بیل اس کی ڈائریکٹر ہیں جو دنیا کے معروف اخبارات میں 'میڈیا کے میدان میں ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ' پر تبصرہ کرتی رہتی ہیں۔

26 ستمبر2016ء کو کولمبیا جرنلزم ریویو میں شائع شدہ ایک مضمون میں انھوں نے فیس بک کی متعدد بے ضابطگیوں کو اپنا موضوع بنایا، جن میں عالمی سیاست پرادارہ کی جانبدارانہ پالیسی سرفہرست تھی۔ ایملی بیل کے مطابق حال ہی میں فیس بک پر فلسطین کے معروف خبررساں اداروں' شہاب نیوز ایجنسی' اور 'قدس نیوز نیٹ ورک' سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کا الزام عائد ہواہے۔

فلسطینی صحافیوں نے شکایات کی ہے کہ اسرئیلی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد، فیس بک انتظامیہ فلسطینی صحافیوں کے ساتھ تعصب برت رہی ہے کیونکہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ دنیا فلسطین کے نقطہ نظرسے واقف ہو۔ فیس بک انتظامیہ بھی اعتراف کرتی ہے کہ اس کے ایک وفد نے دہشت گردی سے متعلق مواد کو اپنے پلیٹ فارم سے دور رکھنے کے لئے اسرائیل کا دورہ کیا تاکہ پالیسی میکرز اور ماہرین سے مذاکرات کے جا سکیں۔

رواں سال ماہ اپریل میں امریکی سیاستدان برنی سینڈر کی حمایت کرنے والے چھ فیس بک گروپس کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ ماہ جولائی میں ٹریفک سگنل پر امریکی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے فلینڈو کاسٹایل کی مرتے لمحوں کی شاہد وڈیو فیس بک سے ہٹا لی گئی۔ اگست کے دوسرے ہفتے میں فیس بک انتظامیہ نے امریکا کی دو سیاسی جماعتوں Being Liberatarian اور Democrats Logic Occupy کے فیس بک پیجز بغیرکوئی وجہ بتائے بلاک کر دئیے۔

ستمبر ہی کے مہینے میں سویڈن کے ایک اخبار نویس کا فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کے نام ایک کھلا خط بھی بہت مشہور ہوا جس میں انھوں نے ویت نام کی جنگ سے متعلق ایک بچے کی برہنہ تصویر پر فیس بک کی سنسر شپ پالیسی کی مذمت کی۔ سنسر شپ کے مذکورہ با لا تقریباً تمام واقعات میں فیس بک نے بعد ازاں یہ کہہ کر معذرت کی کہ یہ ایک غلطی کی وجہ سے ہوا۔ 90 فیصد پیجز یا گروپس کو دوبارہ بحال کر دیا گیا مگر قابل اعتراض مواد کی نشاندہی نہیںکی گئی۔

گزشتہ چند مہینوں کے دوران مقبوضہکشمیر میں حالیہ احتجاجی مہم کے دوران جن لوگوں کے اکاونٹس معطل کئے گئے وہ بحال نہیں کئے گئے۔ اس میں سے ایک اکاونٹ پروفیسر ہما ڈار کا تھا جوکیلی فورنیا کی برکلے یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں، انھیں فیس بک انتظامیہ نے مطلع کیا کہ ''ان کا اکاونٹ کسی صورت دوبارہ بحال نہیں کیا جائے گا۔''

برطانوی اخبار 'گارڈین' کے مطابق ماہ جولائی میں مقبوضہ کشمیر میں حزب المجاہدین کے جواں سال کمانڈر برہان وانی کی انڈین سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد دنیا بھر میں متعدد ایسے لوگوں کے اکاؤنٹس ڈیلیٹ کئے گئے جنہوں نے برہان وانی کے جسد خاکی کو فیس بک پر اپنی پروفائل تصویر بنائی یا اس سے متعلق ویڈیوز شئیر کیں۔ ان افراد میں ایک پاکستانی اداکار حمزہ علی کے علاوہ بیرون ملک مقیم متعددکشمیری، پاکستانی اور دیگر قومیتوں کے افراد بھی شامل تھے۔

امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق بھارت میں ایسے فلم سازوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان کے اکاؤنٹس معطل کئے گئے جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی تصویریں اور ویڈیوز اپنے فیس بک وال پر شئیر کیں۔ واضح رہے کہ ان واقعات میں نہتے مظاہرین پر انڈین ملٹری اور پیرا ملٹری کی فائرنگ سے 100 سے زیادہ ہلاکتیں اور سینکڑوں کی تعداد میں بچوں اور نوجوانوں کی آنکھیں مستقل طور پر ضائع ہوگئیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر فیس بک انتظامیہ اس معاملے میں فریق کیوں بنی؟ یہ تضاد بھی نا قابل فہم ہے کہ اسرائیلی صحافیوں سے معذ رت کرکے ان کے اکاؤنٹس بحال کر دئییگئے مگر بھارت کے خلاف لکھنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا گیا۔

خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق فیس بک نے امریکی سماجی کارکن میری سکولا اور لندن کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی کے آنند دبایش سے کشمیر سے متعلق ان کی پوسٹس ڈیلیٹ کرنے پر معذ رت کی۔ بعد ازاں دبایش اور سکولا نے فیس بک انتظامیہ کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ احتجاج کے دوران جن لوگوں کے اکاؤنٹس معطل یا مستقل طور پر ڈیلیٹ کئے گئے ان میں کوئی بھی فیس بک کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کی خلاف ورزی نہیںکر رہا تھا بلکہ وہ کشمیریوں کے خلاف ہونے والے تشدد کو بے نقاب کر رہے تھے۔ پٹیشن میں فیس بک انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ سنسر شپ کے ان واقعات کی تحقیقات کرائی جائیں۔

پروفیسر ہما ڈار اور آنند دبایش میں فرق صرف یہی تھا کہ ہما کشمیری مسلمان تھیں۔ مقبوضہ کشمیر کے شہری سن 2010ء سے فیس بک کی جانبدارانہ سنسر شپ کی شکایات کر رہے ہیں مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اگریہی لوگ امریکا کی کسی ریاست کے شہری ہوتے تو کیا فیس بک انتظامیہ انھیں اس قدر طویل عرصہ تک نظر انداز کرتی؟ یادرہے کہ فیس بک ڈیٹا کے مطابق مواد پر پابندی لگانے کے حوالے سے انڈیا امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔

یعنی دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت کے علاوہ سب سے بڑی جمہوریت کو بھی اظہار رائے پر قدغن لگوانے کے لئے فیس بک کی مدد کی ضرورت ہے۔ پیجز گروپس اور ویڈیوز کو ڈیلیٹ یا بلاک کرنے کے ان تمام واقعات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون سی پالیسیز یا پروٹوکولز ہیں جن کی بنیاد پر مواد کو قابل اعتراض قرار دینے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ بلینز ڈالر منافع کمانے والا یہ ادارہ اس معاملے میں پراسرار طور پر خاموش ہے۔

اگست اور ستمبر ہی کے مہینوں میں فیس بک نے راقم کے ایک بلاگ کو کم از کم چار مرتبہ بلاک کیا، جب راقم نے دوسرا بلاگ بنا کر اپنی صحافیانہ سرگرمیاں جاری رکھنا چاہیں تو نامعلوم ہیکرز نے راقم کے تمام بلاگز نہ صرف ہیک کئے بلکہ ٹویٹرپر ایک گروپ نے مجھے عافیہ صدیقی سے تشبیہ دے کر ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی۔ میرے فیس بک اکاؤنٹ اور بلاگر پروفائل میں ہیکنگ کے ذریعے ایسی تبدیلیاں کی گئیں، جن سے میری نجی معلومات کے علاوہ ذاتی تحفظ کی خاطر بنائے گئے دائروں اور شمالی امریکا میں مسلمان کمیونٹی کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔ واضح رہے کہ مذکورہ تمام اداروں اور افراد کی طرح راقم نے بھی فیس بک کے کمیونٹی اصولوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔

متعدد بار رپورٹ کرنے اور کسٹمر سروس سے فون پر استفسار کے بعد بھی فیس بک نے میرے بلاگ پر کسی ایسے مواد کی نشاندہی نہ کی جو اس کے کمیونٹی اصولوں سے متصادم ہو یا کسی بھی اعتبار سے قابل اعتراض ہو۔ ہیکرز نے فیس بک اور بلاگز پر اس وقت تک میرا پیچھانہ چھوڑا جب تک میں نے اپنے بلاگ کو فیس بک پر شئیر کرنے سے توبہ نہ کر لی، نتیجتاً مجھے اپنے 99 فیصد قارئین سے محروم ہونا پڑا۔

' کولمبیا جرنلزم ریویو' کے ایک سٹاف رائیٹر ڈیوڈ آوبرٹ کا کہنا ہے کہ سنسر شپ کے معاملے میں فیس بک ان پبلشرز سے مختلف نہیں جو اپنی بقا کے لئے فیس بک پر انحصار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت میڈیا کا ہر ادارہ اپنی بقا کے لئے 1.7 بلین سبسکرائبر رکھنے والی اس ڈیجیٹل کمپنی پر انحصار کرتا ہے۔ اس کی طاقت اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی پبلشر اس کی برابری کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ طاقت بڑھ رہی ہے۔ تاہم افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کی سب سے موثرمیڈیا کمپنی شفافیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے مسلسل پہلو تہی کررہی ہے۔

ماہ نومبر میں پولینڈ میں دائیں بازو کی قریباً 70جماعتوں نے فیس بک کے خلاف ایک یادداشت پر دستخط کئے جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ فیس بک سنسر سے متعلق اپنی پالیسیوں کا عوامی سطح پر اعلان کرے۔ یادرہے کہ فیس بک کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ ادارہ نفرت پھیلانے والی گفتگو (Hate Speech)، غنڈہگردی (Bullying ) اور دھمکی آمیز (Threatening ) گفتگوپر پیجز کو بلاک یا اکاؤنٹس معطل کرنے اور ایسا مواد ہٹانے کا مجاز ہے۔ اس سلسلے میںOpen Democratic Logic نامی سیاسی جماعت کا موقف تھا کہ پیج بناتے ہوئے فیس بک ہم سے معاہدہ کرتی ہے، ہم اس کے کمیونٹی اصولوں کے خلاف کوئی مواد نہیں ڈالیں گے مگر قابل اعتراض مواد میں سیاسی گفتگو یا رائے شامل نہیں۔ اگر کوئی ان اصولوں کی خلاف ورزی نہ کرے لیکن پھر بھی فیس بک اس کے خلاف ایکشن لے تو اخلاقی اور قانونی طور پر فیس بک غلطی پر ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیس بک پر پابندی عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے قواعد و ضوابط میں کوئی تبدیلی لائے تو اپنے صارفین کو مطلع کرے ، وہ بغیر انتباہ کے ان کے اکاؤنٹس ختم نہیں کرسکتا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی میں فیس بک کو حکومت کی طرف سے عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ جرمن استغاثہ نے عدالت میں پناہ گزینوں کے خلاف نسل پرستوں کی نفرت انگیز گفتگو پر مبنی ایسی 438 پوسٹس کی لسٹ فراہم کی جنھیں (نشاندہی کے باوجود) فیس بک نے نظر انداز کیا اورڈیلیٹ نہیںکیا۔ سوشل میڈیا پر ایسے نفرت پھیلانے والے مواد کی موجودگی کے باعث پناہ گزینوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں غیرمعمولی طور پر اضافہ ہوا۔ جرمن اخبار ' Der Speigal' کے مطابق جرمن تنظیم پگیڈا (Pegida )جو مسلمانوں اور پناہ گزینوں کے خلاف کھلم کھلا نازی نعرے لگاتی ہے،کا قیام فیس بک ہی کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔

یہ تنظیم پناہ گزینوں کے خلاف حملوں میں براہ راست ملوث ہے اور جرمن حکومت کے لئے مسلسل مسئلہ بنی ہوئی ہے جو جرمن آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لئے ایک ملین سے زائد مہاجرین کو آباد کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔ فیس بک انتظامیہ کی جانبداری اور تعصب کا عالم یہ ہے کہ فلسطینی صحافیوں کے پیجز کو ڈیلیٹ کیا جا رہا ہیتاہمدوسری طرف عبرانی زبان میں عر بوں کے خلاف نفرت پھیلانے والا مواد اسرائیلی پیجز پر موجود ہے، اسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

کشمیریوں اور فلسطینیوں سمیت دنیا کی مظلوم اقوام بالخصوص مسلمان اقوام یہ شکایت کرتی ہیں کہ فیس بک انتظامیہ دوہرے معیارات رکھتی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں میں یہ احساس خاصا گہرا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایسا مواد فیس بک پر موجود ہوتاہے جن سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوں اور ان کے خلاف نفرت پھیلتی ہو۔ فیس بک انتظامیہ ایسے مواد پر ٹس سے مس نہیں ہوتی بلکہ اسے آزادی اظہار کا تقاضا قراردیاجاتاہے۔ دوسری طرف مظلوم لوگوں کو آہ بھی کرنے نہیں دی جاتی۔ کشمیری قوم کے حق خود ارادیت کو بذات خود اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے لیکن وہ قابض قوت کے خلاف کچھ لکھتے ہیں تو ان کے پیجز ڈیلیٹ کردئیے جاتے ہیں۔

لوگوں کا خیال ہے کہ فیس بک انتظامیہ میں یہودی اور بھارتی لوگ موجود ہیں جو من پسند پالیسی کو فیس بک کی پالیسی کے طور پر منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خبررساں ادارے 'رائیٹرز'کی ایک رپورٹ کے مطابق فیس بک کے ادارتی فیصلے کرنے اور مواد سے متعلق پالیسی بنانے کے مراکز ڈبلن کے علاوہ بھارت کے شہر حیدرآباد دکن میں بھی موجود ہیں۔ شاید انہی مراکز کے سبب یہ تاثر مزید گہرا ہورہاہے کہ فیس بک جانب دار اور متعصب ادارہ ہے اور اس کا جھکاؤ اسرائیل کے ساتھ ساتھ انڈیا اور مغربی دنیا کے نسل پرستوں کی طرف ہے۔ وہ خود عالمی سیاسی معاملات میں اپنی ادارتی پالیسی کی وجہ سے واضح فریق بن رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔