’’گورنر جسٹس سعید الزماں صدیقی‘‘

یکم جولائی 1999 کو نوازشریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں جسٹس سعید الزماں صدیقی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے


Asghar Abdullah November 23, 2016
[email protected]

ڈاکٹرعشرت العباد ایک طویل مدت سندھ کی گورنری کرنے کے بعدآخرکاررخصت ہوگئے ہیں۔ ان کی جگہ اب سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے لی ہے۔ ان کی عمر لگ بھگ اسی برس ہوگئی ہے اور تقریب حلف برداری کے فوراًبعدہی خبرآئی کہ وہ اسپتال میں آرام فرمارہے ہیں مگریہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ بڑھاپا اور بیماری تو ہرایک کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔

جسٹس سعیدالزماں کی بطورگورنرتعیناتی کی اہمیت بس اتنی ہے کہ اس سے بطورچیف جسٹس ان کے متنازعہ کردارکی یادیںقومی سطح پرپھرسے تازہ ہوگئی ہیں اور ان کی تعیناتی پرمختلف حلقوں کی جانب سے جواعتراضات وارد کیے گئے ہیں۔ ان کاپس منظربھی یہی ہے۔

سعید الزماں صدیقی مارچ 1981 کو ضیا مارشل لادورمیں سندھ ہائی کورٹ کے جج مقررہوئے۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ بے نظیربھٹوحکومت کے خاتمہ کے بعد 6 نومبر1990 کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور19مئی 1992 کو نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ میںسپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے۔ وہ 1993ء کوسپریم کورٹ کے اس 11رکنی بنچ میں شامل تھے، جس نے نوازشریف حکومت کی برطرفی کالعدم قراردے کران کو بحال کردیا تھا۔

وزیراعظم اورچیف جسٹس کے درمیان یہ تنازع ابھی حل طلب تھاکہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کا مسئلہ اٹھ کھڑاہوا۔ جسٹس سجادعلی شاہ نے حکومت کو سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی فہرست دے دی ۔ حکومت نے ان سفارشات پرعمل کیا، نہ ان پرکوئی اعتراض لگایا، مگران کوغیرموثرکرنے کے لیے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17سے کم کر کے 12مقررکردی۔اس پراحتجاجاً چیف جسٹس نے صدر کو ایک خط لکھ دیا۔

ادھرسپریم کورٹ کے چھ ججوں نے یہ موقف اختیارکرلیاکہ چیف جسٹس نے پانچ ججوں کی فہرست حکومت کوبھجوانے سے پہلے ان سے مشاورت نہیں کی تھی۔ دریں اثناسپریم کورٹ نے ایک آئینی درخواست پرآئین کی چودھویں ترمیم کوآئین کے خلاف قراردے کرکالعدم کردیااوروزیراعظم کے نامناسب ریمارکس پران کو توہین عدالت کانوٹس جاری کر دیا۔اب حکومت نے عافیت اسی میں سمجھی کہ چیف جسٹس کی ہدایت کے بموجب ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کوسپریم کورٹ بھجوانے کا نوٹیفیکیشن جاری کردے۔ وزیراعظم نوازشریف توہین عدالت نوٹس پرسپریم کورٹ پہنچے۔

بہرحال حکومت اورچیف جسٹس کے درمیان جوشکر رنجی پیدا ہوچکی تھی،وہ ختم نہ ہوسکی۔ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چل رہی تھی کہ27 نومبر 1997 کو سپریم کورٹ کے کوئٹہ بنچ کے دوججوں جسٹس ارشادحسن خاں اورجسٹس خلیل الرحمان خاںنے ایک شخص کی درخواست پراپنے ہی چیف جسٹس کو تاحکم ثانی عدالتی اور انتظامی امورنمٹانے سے روک دیا، دوسرے لفظوں میں معطل کردیا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا واحدحکم ہے کہ سپریم کورٹ کے 17میں سے دوججوں نے اپنے عدالتی حکم کے ذریعہ چیف جسٹس کو معطل کردیاہو۔

حیرت انگیزطورپر حکومت نے کوئٹہ بنچ کے حکم کی روشنی میں فوراً سمری تیارکرکے ایوان صدربھجوادی۔ مگراس سے پہلے کہ صدراس پردستخط کرتے، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کوئٹہ بنچ کے حکم کو کالعدم کردیااورقراردیاکہ اس نوعیت کی پٹیشن پرنسپل سیٹ پرہی دائراورسماعت کی جاسکتی ہے۔ مگر گزشتہ روز سپریم کورٹ پشاوربنچ کے دوججوں جسٹس سعید الزماں صدیقی اورجسٹس فضل الٰہی نے حکومتی پارٹی کے ایک مقامی رہ نمااخونزادہ بہرہ سعید ایڈووکیٹ کی درخواست پر کوئٹہ بنچ کافیصلہ بحال کردیا۔ پہلے کی طرح سپریم کورٹ کی پشاوربنچ کا فیصلہ بھی کالعدم کردیا۔

سپریم کورٹ نے پشاوراورکوئٹہ بنچوں کوکام سے روک دیا تھامگراس کے باوجود انھوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ ادھر گزشتہ روز سپریم کورٹ پردھاوابول دیاگیا ۔ جسٹس سعید الزمان صدیقی نے اپنے تئیں ' قائمقام چیف جسٹس' قرار دے کر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف آئینی پٹیشن کی سماعت کیلے فل کورٹ بنادیا۔سپریم کورٹ کافل کورٹ 17 ججوں سے مکمل ہوتاتھا، مگرچیف جسٹس سجاد علی شاہ اس کا حصہ نہیں ہوسکتے تھے کہ کیس انھی کے متعلق تھا۔

جسٹس اجمل میاں اس لیے شریک نہ ہوسکتے تھے کہ چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں انھی کوچیف جسٹس ہوناتھا۔باقی پندرہ جج رہ جاتے تھے ۔ ان میں سے پانچ ججوں نے چیف جسٹس کے خلاف اس کارروائی کاحصہ بننے سے انکارکردیا۔ چنانچہ نیافل کورٹ بناتواس میں دس جج تھے، 23دسمبر 1997میں اس دس رکنی فل کورٹ نے ہی چیف جسٹس سجادعلی شاہ کوچیف جسٹس کے عہدے سے الگ کیا تھا اور ان کی 'خالی اسامی' پرجسٹس اجمل میاں کو مستقل چیف جسٹس مقررکرنے کی سفارش کی تھی،اوراسی روز سہ پہر کو ایوان صدرمیں ان کی حلف برداری کی تقریب بھی ہوگئی۔

چیف جسٹس اجمل میاں کی ریٹائرمنٹ کے بعد یکم جولائی 1999 کو نوازشریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں جسٹس سعید الزماں صدیقی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے، مگرجنوری2000 میں جنرل مشرف کے پی سی او پر انھوں نے حلف نہیں لیا۔

یہ ہے وہ منظرپس منظر، جس میں سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی اس بڑھاپے اوربیماری کے عالم میں بھی سندھ کے نئے گورنربنائے گئے ہیں۔ اورلطف یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں بنائے گئے ہیں، جب وزیراعظم نوازشریف کومستقبل قریب میں ایک بار پھر کسی عدالتی پیشی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اکبرالہ آبادی نے کہا تھا،

یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں