مفتوح قوم

اسلامی خیالات کی وجہ سے کہیں ہم پر قدامت پرستی کا لیبل نہ لگ جائے


فاطمہ نقوی November 22, 2016
[email protected]

غلام ہندوستان میں انگریزوں کے نافذ کردہ نظام تعلیم کے بانی لارڈ میکالے نے 2 فروری 1835 کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کیا ہے میں نے وہاں کوئی بھکاری دیکھا اور نہ کوئی چور ، وہاں کی اخلاقی اقدار بہت بلند اور لوگ بہت ذہین ہیں ،ہم شاید بہت طویل عرصہ وہاں قبضہ رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ان کی اصل یعنی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ دیں، میری مراد ان کی روحانی اور ثقافتی اقدار سے ، بس اس مقصد کے حصول کے لیے میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہمیں ان کا قدیم اور پرانا نظام تعلیم اور ان کی ثقافت کو تبدیل کرنا چاہیے اور ہندوستانیوں کے ذہن میں بٹھادینا چاہیے کہ مغرب اور انگریزی سماج ان سے عظیم تر ہے۔

اس طریقے سے وہ اپنی عزت نفس اور آبائی کلچر دونوں کو بھلاکر وہ کچھ بن جائیں گے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں یعنی ایک مفتوح قوم'' اس سوچ کو لے کر انگریزوں نے مسلمانوں کی تہذیب، ثقافت کا خاتمہ کیا، اپنی زبان کو بتدریج فارسی کی جگہ متعارف کروایا ۔آج ہمارا یہ حال ہے کہ آزادی کے اتنے سال گزرنے کے باوجود ہم ان دیکھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

پاکستان کا ہر بچہ بوڑھا جوان شکر ادا کرکے نہیں تھکتا کہ ہمارے قومی رہنماؤں کی غلامی کے ساتھ ساتھ ان کی ثقافت، افکار، خیالات، تہذیب سے بھی نجات ملی مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے ایک وطن تو حاصل کرلیا مگر ہم ذہنی طور پر اسی غلامی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے لوگ ہیں، ہمیں آج انگریزی لباس، انگریزی زبان، انگریزی ثقافت پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ اور اپنی زبان پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود آج بھی سرکاری زبان اردو نہ بن سکی۔ خیر یہ وہ راگ ہے جسے ہر کوئی الاپ بھی رہا ہے اس کی افادیت کا قائل بھی ہے مگر اس پر عمل پیرا ہونے سے گھبراتا ہے کہ کہیں ہم پر بنیاد پرستی کا دھبہ نہ لگ جائے۔

پچھلے دنوں علامہ اقبال کا 139 واں یوم پیدائش تھا، قوم واضح طور پر دو حصوں میں بٹی نظر آئی۔ دو صوبوں نے عام تعطیل کا اعلان کیا اور دونوں نے عام تعطیل کی جگہ اقبال ڈے پر اسکول، کالج، دفاتر کھولنے کے عزم کا اعادہ کیا مگر جہاں اسکول کی چھٹی عنایت نہ کی گئی وہاں اساتذہ باقاعدہ مذمت کرتے نظر آئے ہیں لیکن کچھ اداروں نے اس موقعے پر باقاعدہ بھرپور طریقے سے منایا جانے، طلبا کے لیے علامہ اقبال کے فلسفۂ کو اجاگر ان کی نظموں کے اندر چھپے پیغام کو واضح کرنے کے لیے مختلف پروگرامز منعقد کیے۔ اسی طرح کا ایک پروگرام ''دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور CMIS کمیونٹی آف مانیٹرنگ اینڈ امیرومنٹ اسکولز نے منعقد کیا اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ علامہ اقبال کی شخصیت ان کی شاعری اور پیغام کو واضح کرنے کے لیے گورنمنٹ اسکولز کے طلبا کے لیے کوئز کروایا گیا ۔

جس کے تین حصے تھے۔ حفیظ اقبال، فہیم اقبال اور عمل اقبال۔ اس پروگرام کی تیاری کے دوران ایک ساتھی رخسانہ راشد نے ایک تجویز پیش کی کہ ہم ان رہنماؤں کی یاد مناتے ہیں یوم پیدائش اور برسی وغیرہ مگر ان رہنماؤں کے ایصال ثواب کے لیے دعاؤں کا تحفہ روانہ نہیں کرتے اس لیے اس مرتبہ سے یہ کیا جائے کہ جب بھی کسی قومی رہنما کی شان کے لیے پروگرام کا انعقاد کیا جائے تو پروگرام کے شروع میں شرکا سورۂ فاتحہ اور سورۃ اخلاص پڑھ کر آغاز کریں۔ مگر ان کی اس تجویز کو ایک دو لوگوں نے رد کردیا مگر ہمارے دل کو یہ تجویز چھوگئی کیونکہ اب تو مغربی معاشرے سے متاثرہ ہم نے اپنی پارلیمنٹ ہو یا پروگرامز مرحومین کی یاد میں ایک دو منٹ کی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں مگر ہماری تہذیب میں مرحومین کو بڑے خوبصورت انداز میں کلام پاک کا کچھ حصہ پڑھ کر ان کی خدمت میں ثواب کی صورت میں پیش کردیا جاتا ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ جو لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ان کی تہذیب، ثقافت اور روایات کو اس طرح مغربی تہذیب سے گڈ مڈ کردو کہ رفتہ رفتہ یہ باتیں ختم ہوجائیں اور واقعی ہم مسلمان ہونے کے باوجود مسلمانوں کے واضح طور پر طریقوں کی ترویج کرنے کے بجائے ان پر عمل کرتے وقت یکجائی میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے۔

ان اسلامی خیالات کی وجہ سے کہیں ہم پر قدامت پرستی کا لیبل نہ لگ جائے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم مغربی تہذیب میں گوڈے گوڈے ڈوب بھی جائیں تب بھی یہ لیبل ہم پر چسپاں ہی رہے گا۔ اسی لیے ہمیں اپنی تہذیبی ورثہ کی حفاظت کرنی چاہیے اور اپنی روایات کی پاس داری کرنے میں کسی بھی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

بلکہ فخر محسوس کرنا چاہیے۔علامہ اقبال کی فکر ہو یا قائد اعظم کے خیالات ، لیاقت علی خان کی فراست ہو ہمیں ان کی قدر بھی کرنا چاہیے اور ان پر عمل بھی کیونکہ ان رہنماؤں کا طرز فکر کبھی بھی مذہبی روایتوں سے متصادم نہیں ہے۔ ان رہنماؤں نے ہماری لیے جو کچھ کیا ہم ان کا بدلہ تو نہیں اتارسکتے مگر ان کے خیالات، وافکار پر عمل کرکے اور ان کی یاد میں منائے جانے والے پروگرامز میں ایک منٹ کی خاموشی کے بجائے قرآنی آیات کے ذریعے ایصال ثواب پہنچایا کریں تو ہمیں بھی اچھا لگے گا اور آنے والی نسلیں بھی یہ بات جان جائیںگی کہ ہم مسلمانوں، پاکستانیوں کی اپنی روایات اور اقدار ہیں، ہم ان کو عام کرکے مغربی خیالات سے بھی چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ انگریزی زبان سیکھنا یا مغربی لباس پہننا برائی نہیں لیکن اپنی تہذیب پر شرمانا برائی ہے، ہمارا دامن الحمدﷲ تمام چیزوں سے بھرا ہوا ہے۔

ہماری زبان میں اتنی لچک و وسعت ہے کہ آج صدیاں گزر جانے کے باوجود قائم و دائم ہے۔ ہمارا مذہب تو ایسا ضابطۂ حیات پیش کرتا ہے جس میں پیدائش سے لے کر مرنے کے بعد تک کی زندگی کا شعور موجود ہے، ہم ان پر عمل پیرا ہوکر ہی شاہراہ حیات میں ممتاز مقام پاسکتے ہیں کیوںکہ کوئی بھی ملک ہو اس نے اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنی تہذیب کی نفی کرکے کبھی باعزت مقام حاصل نہیں کیا۔ چین کے رہنما نے کہا تھا چین بے زبان نہیں ہے۔ ان کی زبان کا فخر آج دنیا کے سامنے ہے کہ چینی تمام دنیا کی معیشت پر چھائے ہوئے ہیں انھوں نے اپنی زبان کو ختم نہیں کیا بلکہ اپنی زبان، اپنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے۔ امید ہے کہ یوم قائد اعظم پر ہم میں سے ہر شخص ان کی یاد تازہ کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار نہیں کرے گا بلکہ کلام الٰہی پڑھ کر ان کی خدمت میں پیش کرے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں