دوسری پیش گوئی
’’مرد بیمار‘‘ کا خطاب پانے والا ترکی مصطفی کمال کے بعد کا دور گزار رہا تھا
انتخابی دنگل کے علاوہ کرکٹ و فٹ بال کے مقابلوں میں پیش گوئیاں کی جاتی ہیں کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔ ایک دو صحیح اندازوں کو تُکا لگانا یا بائی چانس کہا جاسکتا ہے۔ اگر پچیس تیس سال تک کسی کی باتیں سچ ثابت ہورہی ہوں تو اسے بڑا سمجھ دار شخص کہا جاتا ہے ۔
کوئی کالم نگار امریکی و برطانوی انتخابات میں نجومیوں کی پیش گوئیوں کا جائزہ لیتا ہے تو کوئی قلم کار کھیل کے میدانوں میں جانوروں کے درست اندازوں پر واہ واہ کرتا ہے۔ انتخابات اور کھیلوں کے علاوہ کچھ لوگ قوموں کے عروج و زوال کی پیش بینی کرتے ہیں۔ اگر پچاس سو برسوں کے بعد ان کے کہے کے مطابق ہوبہو ہوجائے تو انھیں دور اندیش کہا جاتا ہے۔ آج ہم امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ہونے والے واقعات کے حوالے سے ستر سال قبل کی گئی پیش گوئی کی بات کررہے ہیں۔
یہ سیالکوٹ کے قریب کا علاقہ تھا۔ پاکستان بننے کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے۔ دسمبر کی تیس تاریخ تھی، سرد موسم میں ہر طرف گرما گرم نعرے سنائی دے رہے تھے۔ ''لے کے رہیںگے پاکستان'' چند لوگ مراد پور کے قریب جمع تھے اور ایک تقریر سن رہے تھے۔ ابھی تو قائد، نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کے ریڈیو خطاب میں پانچ ماہ اور پانچ دن باقی تھے۔ ساڑھے سات ماہ بعد پاکستان بننا تھا، اس چھوٹے سے جلسے میں ایک مقرر نے کچھ باتیں ہندوستان کے حوالے سے کہیں تو کچھ پیش بینیاں روس، امریکا، جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے بارے میں کیں۔
پہلی اور پھر دوسری پیش گوئی پر بات کرنے سے پہلے ہم اس زمانے کا منظرنامہ دیکھتے ہیں، خاص طور پر پاکستان بننے سے دو چار سال پہلے کے حالات، دوسری جنگ عظیم زوروں پر جاری تھی۔ جاپان اور جرمنی بڑی بے رحمی سے دندنا رہے تھے۔ انھوں نے برطانیہ اور فرانس سمیت پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ امریکا اپنی طاقت بچائے ہوئے تھا۔ ''مرد بیمار'' کا خطاب پانے والا ترکی مصطفی کمال کے بعد کا دور گزار رہا تھا۔ وہ ترکی جس نے برصغیر کو خلافت جیسی تحریک کے ذریعے مزاحمت کا درس سکھایا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سوویت روس اپنے کمیونزم کی چوتھائی صدی مکمل کرچکا تھا۔ انگریزوں کو کمزور کرنے والا ہٹلر جرمنوں کو دنیا کی اعلیٰ ترین قوم منوانے کی خواہش لے کر آگے بڑھا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب امریکی سرمایہ دارانہ نظام اپنے عروج پر تھا۔ جمہوریت دو سو سال مکمل کرکے سند پاچکی تھی۔ آج کے پچاس سے زیادہ آزاد مسلم ممالک گوری چمڑی والوں کی غلامی میں تھے۔ گاندھی اور نہرو کی قیادت میں ابھرنے والی کانگریس پہلی مرتبہ آزادی کے ساتھ ساتھ برہمن راج کے سپنے بکھیر رہی تھی، مسلمانان ہند اپنے قائداعظم کی قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے قیام کے خواب دیکھ رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سیالکوٹ میں پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھتا ہے۔
پاکستان کے قیام کے تیرہ ماہ بعد قائداعظم انتقال فرما گئے۔ لیاقت علی خان کو امریکا و روس کے دعوت نامے ملنے پر تاریخ کی گرد جمی ہوئی ہے۔ ہم اور ہمارے ایوب خان امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے قریب تھے تو بھارت اور ان کا جواہر لال نہرو سوشلزم کے نزدیک۔ دنیا دو سپر پاورز میں بٹی ہوئی تھی۔ ویت نام پر امریکی مظالم ہوئے تو ان کے اتحادی خاموش رہے تو افغانستان پر ہونے والی روسی جارحیت پر دوسرا گروہ چپ رہا۔ اپنے اپنے ساتھی اور اپنا اپنا سچ، امریکا کو ویت نام میں اپنی شکست کا بدلہ چکانے کا موقع تب ملا جب روس افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں پٹ رہا تھا۔ یہ 80 کا عشرہ تھا جب دونوں بڑی طاقتیں دنیا کے تمام اہم معاملات کا فیصلہ کرتی تھیں۔ دور دور تک کسی کی شکست کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
چالیس لاکھ کی جدید ترین اسلحے سے لیس روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کی بات کو مذاق میں اڑا دیا جاتا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھااور بہت جلد دیکھا کہ 80 کی دہائی ختم ہونے سے پہلے روس اپنی فوجوں کی واپسی کی دہائی دینے لگا۔ امریکی اسلحے، سعودی ریال، پاکستانی راہداری اور افغان جذبے نے سوویت روس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ لینن کا مجسمہ ان شہریوں نے گرادیا جنھیں ستر برسوں سے آہنی پردوں میں جکڑا گیا تھا۔ دیوار برلن گرادی گئی اور دونوں جرمنی بھی یکجا ہوگئے۔ یوں کارل مارکس کا دیا ہوا نظام روس کے گورباچوف کے ہاتھوں یہ جنگ ہارگیا۔ یہ تھی پہلی پیش گوئی جو بیسویں صدی کے خاتمے سے دس سال قبل پوری ہوگئی۔ دسمبر 46 میں کی گئی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی پہلی پیش گوئی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا۔
دوسری پیش گوئی کیا تھی؟ سوویت یونین کو دریائے آمو کے دوسری طرف دھکیلنے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا، عمدہ سیاسی نظام، سونے چاندی و تیل کے ذخائر، محنتی و مضبوط لوگ، زرخیز زمین اور اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی نے امریکا کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی و معاشی قوت بنادیا۔ صدیوں پرانی دو پارٹیوں کی روایات نے جمہوری نظام کو مضبوط تر کردیا۔ اوباما کی کامیابی نے امریکی معاشرے کی اعلیٰ ظرفی پر مہر ثبت کردی۔ ایسے میں 2016 آگیا، جب ڈیموکریٹک پارٹی کی ہلیری کلنٹن کا مقابلہ ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوا۔ ہر طرف ہلیری ہلیری کی صدائیں گونج رہی تھیں، وہ کامیاب ہوجاتیں تو وہی کچھ کرتیں جو اس سے پہلے ہوتا تھا۔ امریکا محفوظ و مامون ہوتا لیکن ٹرمپ کی کامیابی نے دنیا کی بساط الٹ کر رکھ دی۔ خطرناک، بظاہر احمق، خوفناک، منہ پھٹ اور سیکس اسکینڈلز میں ملوث رہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوگئے۔
میڈیا جسے جزوی مسخرہ اور کل وقتی غیر مہذب کہہ رہا تھا وہ اب چار سال تک وائٹ ہاؤس پر حکمرانی کرے گا۔ ایسا کبھی نہ ہوا تھا، امریکی عوام سڑکوں پر ہیں، اب تک گھیراؤ جلاؤ، دھاندلی کے الزامات اور احتجاج کو تیسری دنیا سے منسوب کیا جاتا تھا۔ ہارنے والے انکاری ہیں ٹرمپ کو صدر ماننے سے۔ کہیں احتجاجی ریلیاں ہیں، تو کہیں آنسو گیس کی شیلنگ، کہیں نونو کے نعرے ہیں تو کہیں گاڑیوں اور عمارتوں کے شیشے توڑے جارہے ہیں۔ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے مڈل کلاس کے کم پڑھے لکھے گورے ایک طرف ہیں تو دوسری طرف خواتین، کالے، غیر قانونی مقیم اور مسلمان اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی خطرے میں محسوس کررہے ہیں۔
امریکا ایک دوراہے پر آگیا ہے، ٹرمپ کو ووٹ دینے والے آدھے امریکی ان پر انتخابی منشور پر عمل کرنے کے لیے دباؤ ڈالیںگے تو ہلیری کو ووٹ دینے والے انھیں صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کا کہیںگے۔ امریکی سیاست میں کشمکش کو نہیں روکا جاسکے گا۔ یوں معاشی طاقت میں کمزوری کے سبب دفاعی قوت میں ضعیفی کا خطرہ امریکا پر منڈلانے لگا ہے۔ خوبصورت سیاسی نظام اور خوشحالی کے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ ایسی تلوار جو ڈونلڈ ٹرمپ کو ہٹانے پر بھی نہیں ہٹ سکے گی۔ کم تعلیم یافتہ اور نیم بے روزگار گورے نوجوان امریکی نظام کے لیے ایٹم بم بن سکتے ہیں۔ اندرونی طور پر کمزور امریکا کے لیے دنیا کی سربراہی کے بجائے اپنی بقا کے لالے پڑے ہوںگے۔ ایسے میں امریکا کو ٹرمپ کے بعد کسی لارڈ ماؤنٹ بیٹن یا گورباچوف کی ضرورت ہوگی؟ بھارت اور روس کی طرح کسی جلاد کی۔
برطانیہ بھی حالیہ دنوں میں سپر پاور تھا جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، آج وہ سکڑ گیا ہے اور سمٹ گیا ہے۔ سوویت روس کی شکست ابھی کل ہی کی بات ہے۔ کسی دور میں مغل بڑے طاقت ور ہوا کرتے تھے تو کبھی سلطنت عثمانیہ بڑی مضبوط ہوا کرتی تھی۔ کبھی رومن و پرشیئن امپائر کی دھوم تھی۔ جس قیصر و کسریٰ کو حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں مسلمانوں نے شکست دی، کبھی مسلمان سپر پاور تھے تو کبھی بابل و نینوا۔ دو صدیوں کے سنگم پر پہلی کے بعد دوسری سپر پاور اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے؟ ''کیا پہلی کے بعد وہ پیش گوئی سچ ثابت ہوگی کہ ایک وقت آئے گا جب سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی''۔ کیا وہ وقت آگیا کہ پوری ہونے جارہی ہے دوسری پیش گوئی؟