فیس بک حصہ دوئم

بہت سارے دوستوں نے اچھا بھی کہا چنانچہ جو پوسٹس باقی رہ گئی تھیں وہ بھی لکھے دیتا ہوں


امجد عزیز ملک November 20, 2016

گذشتہ کالم میں مزے مزے کی فیس بک پوسٹس آپ کی نذر کی تھیں جس کا بنیادی مقصد ایک ہی تھا کہ یہ فیصلہ کیے بغیر کہ فیس بک کا فائدہ کیا ہے اور نقصان کیا ہے؟ چند لمحے تفریح کے کالم پڑھتے ہوئے بھی گذار لیے جائیں لیکن کراچی سے وقار نعیم نے بڑا غصہ اتارا ہم پر کہنے لگے کہ کیا پہلے تھوڑا تنگ ہیں فیس بک سے کہ آپ نے بھی اس پر کالم لکھ مارا !ملتان سے چوہدری نذیر بھی گرجے برسے کہ فیس بک نے ساری قوم کو تباہ کر دیا ہے بچے دن رات موبائل فون اور کمپیوٹر پر فیس بک میں بغلیں جھانکتے رہتے ہیں اور آپ بھی فیس بک کا سیاپہ اپنے کالم میں لے آئے۔

بہت سارے دوستوں نے اچھا بھی کہا چنانچہ جو پوسٹس باقی رہ گئی تھیں وہ بھی لکھے دیتا ہوں کہ ابھی سی پیک سیاپے پر بھی لکھنا ہے۔علامہ اقبال ڈے پر چھٹی نہ ملی تو فیس بک پر بے شمار پوسٹ تھیں مجھے یہ پسند آئی جس کا عنوان تھا، اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں؟لکھنے والے نے علامہ اقبال کو کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کیا!اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں۔۔بے باکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن...مکاری و روباہی پر اتراتا ہے مومن...جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو۔۔وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن...کردار کا ،گفتار کا ،عمل کا مومن ...قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن...سرحد کا ہے مومن کوئی پنجاب کا مومن...ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن...اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں...ایک اور پوسٹ ملاحظہ فرمائیں۔

"قوت برداشت کامیابی کا نسخہ کے عنوان سے لکھا ہے کہ غصہ دنیا کے نوے فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تو اس کی زندگی کے نوے فیصد مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔برداشت دنیا کی سب سے بڑی اینٹی بائیوٹک اور دنیا کا سب سے بڑا ملٹی وٹامن ہے۔آپ اپنے اندر صرف برداشت کی قوت پیدا کر لیں تو آپ کو ایمان کے سوا کسی دوسری طاقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ انسان اکثر اوقات ایک گالی برداشت کر کے سیکڑوں اور ہزاروں گالیوں سے بچ سکتا ہے اور ایک بری نظر کو اگنور کر کے دنیا بھر کی غلیظ نظروں سے محفوظ ہو جاتا ہے"

ایک خاتون ایک پوسٹر اٹھائے ہوئی ہیں جس پرموضوع لکھا ہے سوچنے کی بات ۔"اذان ہوتی ہے تو ٹی وی کی آواز کم کر دی جاتی ہے مگر نظر ٹی وی پر رہتی ہے اور دل کرتا ہے کہ اذان جلد ختم ہو کیا یہ اذان کا احترام ہے؟آپ خود فیصلہ کریں ۔اذان کا جواب دیا کریں تاکہ موت کے وقت کلمہ نصیب ہو" مجھے یقین ہے کہ جس نے خاتون کے ہاتھ میں یہ پوسٹر دیکھا ہو گا اس نے خاتون پر نظریں جمائے رکھی ہوں گی جو لکھا ہے وہ بمشکل ہی پڑھا ہو گا۔خیبر پختون خوا کے بڑے نامور گلوکار ہوا کرتے تھے، فضل مالک عاکف، جنہوں نے گائیکی میں جدت لانے کی کوشش کی اور کئی خوبصورت گیت گائے آج کل برطانیہ میں ہوتے ہیں اور کبھی کبھار کچھ پوسٹ کر دیتے ہیں، تازہ پوسٹ ایک شعر ہے جس میں فرماتے ہیں کہ مزاج ملتے نہیں ، مطلبی مراسم ہیں... نبھائے جاتے ہیں ،اکثر منافقوں کی طرح!!!

ایک تصویر دل دکھا دینے والی ہے ڈرائی فروٹ کی دکان پر دو بچے شیشے کے شوکیس کے باہر سے ڈرائی فروٹ پر زبان لگائے ہوئے ہیں، پاؤں میں جوتے نہیں اور اس تصویر پر لکھا ہے کہ چھوٹی سی زندگی میں ارمان بہت تھے۔۔ہمدرد نہ تھا کوئی۔مگر انسان بہت تھے۔۔۔ بہت گہری بات ہے سمجھنے والوں کے لیے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا ایک مؤثر پیغام بھی ہے۔

فرانس سے ممتاز ملک نے پوسٹ کیا ہے" ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خان کی طرح اسے نظر انداز کر دیا کرتے تھے اور انھیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے۔لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے، زندگی عمر سے نہیں تجربے سے آدمی کو بڑا کرتی ہے" آج کل کی نئی نسل ابا اماں کی نہیں بلکہ فیس بک کی ہو کر رہ گئی ہے اور جو فیس بک کہتی ہے اسے ہی مانتی ہے اللہ خیر کرے اس نسل کا کیا ہو گا جس کے لیے سر دست دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

فائق امیر جو کینیڈین ہو گئے ہیں لیکن پاکستان اور پشاور کی محبت ان کے دل سے نکل نہیں سکی، ان کی پوسٹس خاصی دلچسپ ہوتی ہیں اس بار انھوں نے حبیب جالب کی نظم پوسٹ کی ہے، ملاحظہ فرمائیں اب گناہ و ثواب بکتے ہیں۔۔۔مان لیجیے جناب بکتے ہیں۔۔۔میری آنکھوں سے آ کے لیجاؤ۔۔۔ان دکانوں پہ خواب بکتے ہیں۔۔۔پہلے پہلے غریب بکتے تھے۔۔۔اب تو عزت مآب بکتے ہیں۔۔۔بے ضمیروں کی راج نیتی میں۔۔۔جاہ و منصب خطاب بکتے ہیں۔۔۔شیخ، واعظ ،وزیر اور شاعر۔۔۔سب یہاں پر جناب بکتے ہیں۔۔۔دور تھا انقلاب آتے تھے۔۔۔آج کل انقلاب بکتے ہیں۔۔۔دل کی باتیں حبیب جھوٹی ہیں۔۔۔دل بھی خانہ خراب بکتے ہیں۔

بہرحال ایسی بے شمار پوسٹس ہیں جنھیں تحریر کرنے کے لیے کئی گھنٹے اور کئی صفحات درکار ہیں ۔سوشل میڈیا نے بلاشبہ انقلاب برپا کر رکھا ہے لیکن اسے بہت سے زاویوں سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔درحقیقت یہ خالصتاً ذاتی نوعیت کے معاملات ہیں جنہوں نے ہر قسم کی پرائیویسی ختم کر کے رکھ دی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی پوسٹ کی ہوئی کوئی تصویر یا پوسٹ اس کے دوستوں کے علاوہ اور کوئی نہیں دیکھ سکتا تو اسے یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اس کی فرینڈشپ لسٹ میں بہت سے انجانے لوگ بھی ہیں جو اس کی پرائیویسی کو عام کر دیتے ہیں۔

خاص طور پر بچیوں کو فیس بک استعمال کرنے میں بڑی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے جہاں وہ بلیک میلرز کی گرفت میں باآسانی آ جاتی ہیں اور پھر اپنی زندگی جہنم بنا لیتی ہیں۔یہ درست ہے کہ کسی طرح آپ اہم نوعیت کی خبروں سے آگہی حاصل کرتے ہیں لیکن زیادہ تر پوسٹس جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہوتی ہیں ۔جعلی تصویروں والی آئی ڈیز بھی بے شمار ہیں ان سب سے ہوشیار رہتے ہوئے بچوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو کسی بھی لمحہ فیس بک سے نظریں ہٹانے کو تیار نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے دیرینہ دوست احباب فیس بک پر اپنے غم غلط کر لیتے ہیں لیکن یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ فیس بک پر پوسٹ کی جانے والی کوئی بھی پوسٹ اور تصویر محفوظ نہیں یہ سوشل میڈیا بڑی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں