بیانِ حلفی

سنہ 1978کے قطر کا تو اپنا برا حال تھا وہ ہمیں منافع کیسے دے سکتا تھا۔ تو اس کا جواب تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں ہوگا


آفتاب اقبال November 17, 2016
بعض بدبخت افراد یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ میرا نام میاں رابرٹ ڈینیرو کیسے ہو سکتا ہے۔ فوٹو؛ فائل

میرے عزیز ہم وطنو، مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ میری اس بات پردیگر فضول قوموں کی طرح نہایت غیر ضروری طور پر ہنسنے لگیں گے۔

زوال کی اس سے بڑی علامت بھلا اور کیا ہو گی کہ آپ کا لیڈر بیان حلفی وغیرہ کے ذریعے کہہ رہا ہے کہ مشہور جہاز ران کرسٹو فر کولمبس اور میرے دادا ابو نے امریکا میں اکٹھے ہو کر لوہے کا کاروبار کیا تھا جس سے بے حد منافع ہوا۔ اس قدر شدید منافع دیکھ کر کولمبس صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے جبکہ دادا ابو نے اس زرِ کثیر کے ساتھ لاہور میں اتفاق فونڈری کی بنیاد رکھی۔ اس وقت میرے تقریباً سات، آٹھ چچے تائے ہوا کرتے تھے اور سب میں بڑا اتفاق تھا۔

اس کے بعد ہمارے خاندان نے پرتگال میں بھی ایک مل لگائی اور واسکوڈے گاما نے بھی خوش ہو کر ہمیں ایک لمبا قرضہ عطا کیا۔ بعض بے وقوف لوگ یقین نہیں کرتے مگر واسکوڈے گاما میرا سسرالی رشتہ دار تھا۔ اگر یقین نہ آئے تو گاما پہلوان رستم ہند کے کوائف نکال کر دیکھ لیں کہ بابا جی بھولو پہلوان خاندان کے بزرگ تھے اور خاکسار اس خاندان کا داماد ہے۔ واسکوڈے گاما انکل نے ہمیں جو قرضہ دیا اس سے ہم نے مشرقِ وسطی میں لا تعداد ملیں اور فیکٹریاں قائم کیں۔ پھر ہم نے دن رات محنت کی اور بے پناہ پیسہ کمایا۔

میرے برادرِ خورد شہباز شریف صاحب چونکہ نہایت چرب زبان اور ذہین واقع ہوئے تھے، چنانچہ ابا جی نے انہیں نت نئی پارٹیاں گھیرنے پر لگا دیا تاکہ کاروبار مزید ترقی کر سکے۔ مجھ سے بھی پوچھا گیا کہ ہمیں اگلا قرضہ کس اہم شخصیت سے مل سکتا ہے۔ میں نے کافی غوروخوض کے بعد نیلسن منڈیلا کا نام لے ڈالا۔ کیونکہ میرے خیال میں ایک تو وہ بڑی اہم شخصیت تھا کہ ڈھائی 300 سال تو بیچارے نے جیل ہی کاٹ رکھی تھی، ہیں جی؟

میری یہ بات سن کر سب کے سب سکتے میں آگئے۔ اور کیوں نہ آتے، آخر منڈیلا صاحب کی شخصیت میں جادو ہی اتنا شدید تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب موصوف زندہ ہوا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے اب تو وفات پا چکے ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابا جی مرحوم و مغفور دنیا کے نقشے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ ساتھ ہی ساتھ حیرت کا اظہار بھی کرتے چلے جا رہے تھے۔ میں سمجھا کہ شاید دنیا کا نقشہ انھوں نے دیکھا ہی پہلی بار تھا اسی لیے حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔ مجھے پاس کھڑا دیکھ کر فرمانے لگے، میں چاہتا ہوں کہ تم لندن میں دو چار قیمتی فلیٹ خرید لوتاکہ مشکل وقت میں یہ تمہارے کام آسکیں۔ میں نے کہا جناب خرید تو میں لوں مگر پیسے کہاں سے آئیں گے؟ کہنے لگے ''قطر سے''، پوچھا ''کیسے؟'' بولے ''یہ مجھے نہیں معلوم''۔

خیر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ میں نے اوکھے سوکھے ہو کر مزکورہ فلیٹ خرید ہی لیے۔ مگر مجھے پتہ ہی نہیں چل سکا کہ اس نیک کام کیلیے اتنا سرمایہ کہاں سے آیا، ہیں جی؟ وہ تو اللہ بھلا کرے اس قطری شہزادے کا کہ جس نے گذشتہ دنوں ایک محیرالعقول قسم کا خط بھیج کر میری حیرت کسی حد تک رفع کر دی کیوںکہ میں دن رات یہ بات سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا کہ وہ آخر لندن والے فلیٹ خریدنے کیلیے میرے پاس سرمایہ کہاں سے آیا۔

مذکورہ خط میں شہزادے نے انکشاف کیا کہ فلیٹس خریدنے کیلیے سرمایہ اس کے ابا جی نے فراہم کیا کیونکہ ہمارے بزرگوں نے آپس میں مل جل کر ایک کاروبار کیا تھا جس سے ہمیں بہت منافع ہوا تھا۔ یہ بات سنہ 1978 کے آس پاس کی ہے۔

عزیز ہم وطنو، اب اگر آپ یہ کہیں کہ سنہ 1978کے قطر کا تو اپنا برا حال تھا وہ ہمیں منافع کیسے دے سکتا تھا۔ تو اس کا جواب تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں ہو گا۔ پھر اگر آپ میں سے بعض شر پسند اور چغل خور قسم کے لوگ یہ پوچھنے بیٹھ جائیں کہ اس دور میں اس شہزادے کی اپنی عمر کیا تھی جس نے چند روز پہلے یہ حیرت انگیز خط لکھ کر پوری کائنات کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ تو جناب اس پر مجھے بھی شدید حیرت ہوئی کیونکہ اس وقت شہزادہ خیر سے پورے ایک سال کا ہو چکا تھا۔ یعنی اتنی چھوٹی سی عمر اور امور سلطنت وغیرہ میں اس قدر دلچسپی، سبحان اللہ، یہ کسی معجزے سے کم نہیں، ہیں جی؟

بہرحال، میرے عزیز ہم وطنو، میں نے اوپر جو کچھ کہا ہے سچھ کہا ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیںکہا ہے۔

فقط آپ کا خیر اندیشن

میاں رابرٹ ڈینیرو

نوٹ:

بعض بدبخت افراد یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ میرا نام میاں رابرٹ ڈینیرو کیسے ہو سکتا ہے۔ تو جناب والا، اگر آپ میری دیگر گزارشات کا یقین کر بیٹھے ہیں، تو اس کا بھی کر لیں، ہیں جی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں