بجھے نہ دل رات کا سفر ہے
غریبوں کے حقوق پر قابض تو بڑے بڑے محلوں اور بنگلوں میں بیٹھے ہیں
اللہ نے اپنا نائب بنایا، یہ مٹی کا پتلا تھا اور دن رات اپنی عبادت میں مصروف فرشتوں سے کہا اس مٹی کے پتلے کے سامنے سجدہ کرو۔ فرشتوں کے سردار نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ باقی سب نے اللہ کا حکم بجا لاتے ہوئے سجدہ کردیا۔ وہ دن اور آج کا دن حق و باطل کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اللہ کے ماننے والے اسی کی بتائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں اور شیطان کے پیروکار اس کا کہا مانتے ہیں۔ دنیا کے سارے ''کالے کرتوت'' انھی شیطان کے پیروکاروں کے حصے میں آئے ہیں۔ شیطان کا نیٹ ورک بہت بڑا ہے اور دن رات کام ہوتا ہے۔ اللہ کے بندوں نے نہ ایٹم بنائے ہیں نہ ایٹم بم گرائے ہیں، یہ سب کرتوت کالے آپ کے حصے میں آئے ہیں۔
اللہ نے کہا ''جو بوئے، وہ کاٹے'' مگر غلیظ لوگ اللہ کا فرمان نہیں مانتے ان کا کہنا ہے ''جو بوئے وہ کاٹے اور اپنے جھونپڑے میں بھوکا مرجائے''۔ اللہ کی زمین صرف اور صرف اللہ کی ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں کا برابر کا حق ہے۔
مگر صدیوں سے شیطان کے ماننے والوں نے اللہ کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ''ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں؟'' اور اللہ نبی کی دن رات مالا جپنے والے بھی ''الفت سے بیگانے'' انھی قابضین کے ساتھ ہیں۔ نبیؐ کا عمل تو یہ تھا کہ مسجد نبوی میں نماز کے آخر میں سلام پھیرا اور بھاگ کر چلے گئے، گھر بھی کیا تھا ایک حجرہ سا تھا، جو مسجد نبوی سے جڑا ہوا تھا۔ آپؐ گھر گئے اور دو اشرفیاں جو گھر میں فالتو پڑی تھیں کسی مستحق کو دے کر واپس مسجد میں تشریف لائے اور دعا فرمائی۔ صحابہ نے پوچھا تو انھیں بتایا کہ مجھے خیال آیا کہ دو اشرفیاں گھر میں فالتو پڑی ہیں، انھیں ٹھکانے لگانے گیا تھا۔ اللہ کے نیک بندے اسی طرح زندگی گزارتے ہیں اور شیطان کے بندے دوسری طرح گزارتے ہیں۔
یہ جو پانامہ لیکس، آف شور کمپنیوں کا شور مچا ہوا ہے اس سے پہلے سرے محل اور سوئس بینکوں میں پڑا ہوا روپیہ پیسہ اور پاکستان میں ''ناپاک'' جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، خانوں کا ہزاروں ایکڑ زمینوں پر قبضہ۔ میں کیسے مان لوں میں کیسے کہہ دوں میں کیسے لکھ دوں کہ نبیؐ کے کلمہ گو ہیں۔
کہاں دو اشرفیاں، کہاں پانامے والے، آف شور کمپنیاں، سرے محل، سوئس بینک، ہزاروں ایکڑ زمینوں پر قبضہ۔
ادھر پانامے ہیں جو لیک ہوگئے اور ادھر غریبوں کے پاجامے ہیں۔
یہ حکمرانوں اور حکمرانی کے طالبان کے درمیان جو محاذ آرائی چل رہی تھی جو سپریم کورٹ کی وجہ سے رک گئی۔ اس محاذ آرائی سے غریبوں کا کوئی ذرہ برابر تعلق واسطہ نہیں ہے۔ غریبوں کے حقوق پر قابض تو بڑے بڑے محلوں اور بنگلوں میں بیٹھے ہیں اور ان کے ''سانجھے دار'' کروڑوں روپے لگا کر جلسے جلوس، ریلیاں، بھنگڑے ڈھول ڈھمکے کروا رہے ہیں اور غریب دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے۔ ایک پرانے شاعر کا مشہور شعر ہے:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے سیاست تماش بینوں میں
مسائل زدگان تو آج کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ وہ رہنما آئے اور حضرت عمرؓ کا قول زندہ کردے ''نیل کے ساحل پر کوئی کتا بھی بھوکا مرگیا تو قیامت کے دن عمر اس کا جواب دہ ہوگا۔''
بس اسی انقلابی کا انتظار ہے، وہی آئے گا اور آکر غریبوں کو ان کا حق دلوائے گا، صدیوں سے عیش کرتے ظالموں کا خاتمہ کردے گا۔ان ظالموں نے تو سیاست کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔باپ کے بعد اولاد آ جاتی ہے۔ بے نظیر اور بلاول کو استعارہ بناکر حبیب جالب نے لکھا تھا:
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
پتا نہیں بلاول جالب کے دکھ کو سمجھتا یا نہیں، اور ان کے بعد راجے، چیمے، چٹھے، ٹوانے، رانے، ڈاہے وغیرہ وغیرہ۔ انھی خاندانوں کے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، بھتیجے ، بھانجے، اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ یہ اسمبلیاں بھی ان کی جاگیریں ہیں۔ جالب کے بعد انھیں یاد کرتے ہوئے میں نے شعر کہے تھے:
وہی سماں وہی شب کے حصار ہیں جالب
سیاستوں کے وہی کاروبار ہیں جالب
رہ وفا میں تری یاد کے اجالے ہیں
یہ اور بات کہ غم بے شمار ہیں جالب
ہم انتظار میں ہیں اور دل کہتا ہے کہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو ہیں کہ جب علامہ اقبال کا کہا پورا ہوگا:
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
ہم منتظر ہیں کہ جب فیض کا کہا پورا ہوگا اور
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
اور تاج اچھالے جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
ہم دیکھیں گے
ہم راہ تک رہے ہیں کہ جالب وعدہ کرکے گیا ہے :
میں ضرور آؤں گا اک عہد حسیں کی صورت
دکھ میں ڈوبے ہوئے حالات بدل جائیں گے
کوئی تحقیر کی نظروں سے نہ دیکھے گا ہمیں
پیار کے رنگ ہر اک سمت بکھر جائیں گے
پیار اگائے گی نگاہوں کو سکوں بخشے گی
یہ زمیں خلد بریں کی صورت
میں ضرور آؤں گا اک عہد حسیں کی صورت
دنیا جانتی ہے، زمانہ معترف ہے کہ جالب وعدے کا پکا ہے۔ اب دیکھیں وہ عہد حسیں کی صورت کب آتا ہے۔ بس جالب کا اتنا کہا ضرور دھیان میں رکھنا کہ:
بجھے نہ دل، رات کا سفر ہے