نو دو گیارہ
اس میں شک نہیں کہ پر اسرار علوم میں علم الاعداد کا علم مستند مانا جاتا ہے
اس سے قبل کہ آپ میرے عنوان کے عجیب ہونے پر غور فرمائیں میں تکنیکی اعتبار سے آپ پر اس کا انتخاب واضح کردوں۔ دیکھیے رواں سال کا عدد9 عدد ہے یعنی (2+0+1+6=9) اور نومبر سال کا 11 واں مہینہ ہوتا ہے (1+1=11) لہٰذا 2 نومبر کو ہم ''نو دو گیارہ'' بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ اردو میں اسے محاورتاً استعمال کیا جاتا ہے جس کا مفہوم ہے ''یہاں سے چلے جاؤ''۔
تو لگتا یہ ہے کہ اس بار عمران خان نے احتجاج سے پہلے علم الاعداد کے کسی ماہر سے بھی مشورہ کیا۔ مذاق سے قطع نظر میں آپ کو بتاؤں کہ میں زمانہ طالب علمی کے دوران علم الاعداد کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتا رہا۔ درجنوں کتابوں کو کھنگالا۔ اس دور میں اس علم کی شدھ بدھ رکھنے والے میسر ماہرین سے ملاقاتیں رہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پر اسرار علوم میں علم الاعداد کا علم مستند مانا جاتا ہے۔
کائنات کی کھوج کی دعوت قدرت کی طرف سے بھی ہے لیکن اس میں حدود کا خیال تنبیہ کے طور پر ہے۔ یعنی کل کیا ہونے جارہاہے یا اگلے لمحے اگلے گھنٹے آپ اس کی پیش گوئی سے باز رہیں، کیوںکہ غیب کا علم صرف اﷲ کے پاس ہے جب کہ باقی ذرایع ٹامک ٹوئیاں مارنے والی بات ہے۔ تُکا چل گیا تو بلے بلے، ورنہ کہہ دیتے ہیں حساب لگانے میں کہیں غلطی ہوگئی۔ بہر حال یہ میرا موضوع نہیں لیکن عمران خان کی LOC DOWN اسلام آباد کی تاریخ نے مجھے چونکادیا اور میرا ایک پرانا شوق عود کر آیا۔ جب میں اسے بروئے کار لاکر نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگا تو مجھے قدرت کی سخت تنبیہ یاد آگئی اور میں فی الفور باز آگیا۔ چلیں موضوع پر آتے ہیں تو نومبر میں کون نو دو گیارہ ہونے جارہاہے بظاہر تو وہ جو صاحبِ اقتدار ہے اس کا نقصان زیادہ ہوگا۔ میرا خیال ہے ضمنی الیکشن انتہائی قدم کی وجہ ہیں۔ انھیں اپنا مستقبل صاف دکھائی دینے لگا۔
چنانچہ وہ آر یا پار والی پوزیشن میں آگئے لیکن ساتھ سارا ملک بھی آگیا۔ بات پھر کسی طرف کے اشارے کی ہے۔ کم از کم میڈیا پر تو یہی سنائی دے رہا ہے کچھ مخصوص چینلز نے تو اس ضمن میں ایسی ایسی کہانیاں بیان کیں جیسے وہ ان میٹنگز کا حصہ رہے ہوں۔ ہمارے یہاں یہ مرض عام پایا جاتا ہے کہ خود کو دوسروں سے ممتاز کیسے کیا جائے؟ کیسے دنیا کو جتا دیا جائے کہ علم و فضل کے تمام دریا ایک ہی مقام سے امڈتے ہیں کہ اشارے والے بھی ان پر روز ہنستے ہوںگے کہ جو ہم نے کہنا تو دور کی بات سوچا تک نہیں۔ وہ کس قدر وثوق سے بیان کیا جارہاہے اپنے پاس اب ماشااﷲ اینکرز کی کمی نہیں بلکہ اتنی بہتات ہے کہ ہم اس معاملے میں کم از کم خود کفیلی سے بھی آگے بڑھ گئے۔ چاہیں تو ان کی باقاعدہ ایکسپورٹ کرسکتے ہیں۔
2 نومبر کو کیا ہوگا؟ اس کے بعد کیا۔ دسمبر، جنوری نئے سال میں کون کون رہتا ہے، کون نہیں یہ تو صرف قدرت ہی جانتی ہے لیکن ملک کے موجودہ حالات بہرحال اس امر کے متقاضی ہرگز نہیں کہ کوئی اکھاڑ پچھاڑ ان معنوں میں بھی ہو کہ وزیراعظم پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا یا ڈلوایا جائے کیونکہ اگر وہ مان بھی گئے تو آیندہ سیاست کے Rule of Games کیا ہوںگے۔ یہ احتجاج کرنے والوں کو بھی سوچ لینا چاہیے۔
کل وزیراعظم آپ بھی ہوسکتے ہیں اور آج کی حکومت اپوزیشن تب اگر وہ یہی طریقہ اختیار کریں تو ظاہر ہے آپ انھیں ملک دشمن قرار دے لیں یا غاصب جانا تو پھر آپ کو بھی ہوگا، جان لیں کہ اشارہ تو ہوا کی امانت ہوتا ہے کدھر بھی جاسکتا ہے۔ لہٰذا بھائی میرے ہوش کے ناخن لیں۔ جو راستہ آپ کھولنے جارہے ہیں وہ کس قدر خطرناک ہے آپ شاید اس کے مضر اور گہرے اثرات سے واقف نہیں اور آپ میں تو ویسے بھی برداشت کا اچھا خاص فقدان ہے۔ آپ تو نواز شریف کی طرح ٹھنڈا مزاج نہیں رکھتے جنھیں آپ روز گالیاں دیتے اور دلواتے ہیں، لیکن وہ بس ہوں ہاں کرکے رہ جاتے ہیں۔
آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ جس عہدے کو آج آپ برے القابات سے نوازتے ہیں اس عہدے پر کل آپ بھی متمکن ہوسکتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کسی شخص کی میراث نہیں، عوام کا انتخاب ہے، بھروسہ ہے، آپ کہتے ہیں وہ کرپٹ ہیں، وہ بھی آپ کے لیے یہی کہتے ہیں۔ چلیں ہم نے آپ کا موقف مان لیا۔ لیکن وہ کرپٹ آدمی ہوا میں اڑ کر وزیراعظم نہیں بن گیا اسے ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے منتخب کیا ہے انھی کو موقع دیں اسے ہٹانے کا۔ البتہ اگر کسی نے کرپشن کی تو اسے اجاگر ضرور کرتے رہیں میں نے اپنے ایک بھی کالم میں آپ سے نہیں کہاکہ آپ سخت اپوزیشن نہ کریں۔ اور اب جب کہ معاملہ عدالت عالیہ کے سپرد ہوگیا تو فیصلہ بھی اسی کو کرنے دیں۔ لیکن عدالت میں کیس چلنے کا ایک طریقہ کار وضع ہے اس میں وقت تو لگے گا۔
آپ کس جلدی میں ہیں؟ ملک کا ہر ایک خاص و عام یہ جاننا چاہتا ہے کہ نوازشریف سے آپ کی مخاصمت بلکہ صرف اور صرف نواز شریف کے لیے آپ کا بغض اب اظہر من الشمس ہے یہ نفرت کیوں اور کب آپ کے دل میں پیدا ہوئی مجھے علم نہیں۔ لیکن بڑھی ہوئی اس قدر زیادہ ہے کہ وہ باقاعدہ ایک مرض کی شکل اختیار کر گئی، وہ کیا کہتے ہیں فلاں کو فلاں کا فوبیا ہوگیا۔ کیوںکہ کرپشن کے خلاف لڑنے والے واحد ٹارزن اگر آپ ہی ہیں تو وہ تو آپ کی صفوں میں بھی موجود ہے۔
ایسے لوگ آپ کی جماعت میں ماشا اﷲ بڑے عہدوں پر بھی ہیں آپ کے قریبی رفقائے کار بھی۔ گویا گفتگو کا نچوڑ ، با حاصلِ گفتگو اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ آپ ایک نہایت ضدی اور درشت مزاج شخص ہیں۔ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا مسیحا قرار دیتے ہیں۔ قوم کا نجات دھندہ، لیکن ضروری ہوگا کہ یہ بات قوم سے بھی پوچھ لی جائے۔ میرے بھائی کوئی سیاسی جماعت آپ کے ہمراہ نہیں۔ علامہ صاحب بھی نہیں صرف آپ ہیں اور کچھ نامعلوم اشارے جو ہمیں تو دکھائی نہیں دے رہے لیکن ممکن ہے عیدالفطر کا جو چاند رویت ہلال کمیٹی کو نظر نہیں آیا، اپنے KPK میں دیکھ لیا ہو۔ ایک بات مردوں والی مان لیجیے کہ آپ تو نواز شریف حکومت کو رخصت نہیں کرسکے خواہ آپ نے کتنے ہی دھرنے دیے وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے اب ادھر ادھر کے کاندھے ڈھونڈ رہے ہیں۔ خان صاحب! وزیراعظم آپ کبھی بنے تو اس کا صرف اور صرف ایک راستہ ہے الیکشن ۔