بارہ کتابیں اور ایک مثالی اسکول

اس طرح کے کیلنڈر‘ کتابیں اور دیگر میٹریل نئی نسل کی اپنی تہذیب‘ زبان اور اس کے ادب سے دوری کو ختم تو نہیں کرسکتے


Amjad Islam Amjad December 15, 2012
[email protected]

KARACHI: سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس کالم کا موضوع کوئی ایسا اسکول نہیں جس میں طالب علموں کے پاس کل ملا کر بارہ کتابیں ہوں یا انھیں ایک ہی جماعت میں بارہ کتابیں پڑھائی جاتی ہوں بلکہ یہاں بارہ کتابوں سے مراد اردو کی وہ بارہ عظیم کتابیں ہیں جنھیں پڑھے بغیر کوئی شخص صحیح معنوں میں اردو کا فارغ التحصیل طالب علم نہیں کہلا سکتا اور اسکول سے مراد وہ مثالی بورڈنگ اسکول ہے جو کچھ مخیر اور صاحب دل حضرات نے لاہور سے 30 کلومیٹر دور ایک نیم دیہی علاقے میں پاکستان کے تمام صوبوں کے غریب لیکن ذہین اور لائق طلباکے لیے قائم کیا ہے۔ اب یہ دونوں باتیں چونکہ تفصیل کی متقاضی ہیں، اس لیے سب سے پہلے ذکر ان بارہ کتابوں کا جنھیں اس بار ''فارم ایوو'' والوں نے اپنے سالانہ کیلنڈر کا موضوع بنایا ہے۔

جنوری 2013ء سے دسمبر 2013ء تک جس ترتیب سے ان کتابوں کو رکھا گیا ہے، وہ کچھ یوں ہے:

(1) کلیات میر۔ (2) دیوان غالب۔ (3) باغ وبہار۔ (4) طلسم ہوش ربا۔ (5) حیات جاوید۔ (6) آبِ حیات۔ (7) شعر العجم۔ (8) کلیات اقبال۔ (9) غبار خاطر۔ (10) آگ کا دریا۔ (11) نسخہ ہائے وفا۔ (12) آبِ گم۔

اس کیلنڈر کا عنوان یہ مصرعہ ہے کہ جہانِ حکمت و دانش کا آئینہ ہے کتاب۔

یہ اس ادارے کی طرف سے شایع کیا جانے والا چودھواں کیلنڈر ہے اور حسب سابق اس بار بھی اس کا پس منظر مسلمانوں کی تہذیبی تاریخ اور علم ودانش کے فروغ میں ان کا حصہ ہے۔ حیرت اور تعریف کی بات یہ ہے کہ ایک کاروباری ادارہ ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ معاشرے سے صرف لیتے ہی نہیں اس کو کچھ دیتے بھی ہیں یعنی جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذہنی اور اخلاقی صحت کے معاملات کو بھی اپنے فرائض میں شامل سمجھتے ہیں اور اپنی پراڈکٹس کی تشہیر سے زیادہ ان اخلاقی اصولوں کی ترویج میں دلچسپی لیتے ہیں جو کبھی ہماری تہذیبی زندگی کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ اس بار انھوں نے یہ آموختہ کتابوں کے حوالے سے دہرایا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:

حکومت کا تو کیا غم ہے کہ وہ اک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا

مگر وہ علم کے موتی' کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

کیلنڈر کی شاندار افتتاحی تقریب کے موقع پر انتظار حسین نے بالکل درست کہا کہ ان عظیم عہدساز اور سدابہار کتابوں کی فہرست میں کئی اور کتابوں کو بھی رکھا جا سکتا تھا لیکن ایک سال کے بارہ مہینوں کے حوالے سے جو انتخاب کیا گیا ہے وہ بہت متوازن' جامع' خوبصورت اور متنوع ہے کہ اس میں گزشتہ تین سو برس کے اردو ادب کا گویا عطر کشید کر لیا گیا ہے۔ آج کے معلومات اور ٹیکنالوجی زدہ دور میں جب کہ حافظؔ کی یہ خواہش ''فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے'' ایک دیوانے کا خواب لگتی ہے اور ہماری نئی نسل عام طور پر کتاب اور بالخصوص اردو اور اس سے متعلق دیگر ملکی اور غیرملکی زبانوں کی کتابیں پڑھنا ایک کار فضول سمجھتی ہے کہ ان کے نام نہاد انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں میں نہ صرف ان کا داخلہ ممنوع ہے بلکہ انھیں یہ تلقین بھی کی جاتی ہے کہ ان کی قومی اور مادری زبان صرف نوکروں سے گفتگو کے لیے موزوں ہے۔ اب ظاہر ہے جس زبان کی اوقات یہ ٹھہرائی جائے گی اس میں موجود علم اور ادب کی ان بچوں کے نزدیک کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس میں ان کا کیا اور کتنا قصور ہے!

اس طرح کے کیلنڈر' کتابیں اور دیگر میٹریل نئی نسل کی اپنی تہذیب' زبان اور اس کے ادب سے دوری کو ختم تو نہیں کرسکتے لیکن اس طوفان کی شدت کو یقینا کم کر سکتے ہیں جو ہمارے مستقبل کی کھیتیوں کو روندتا اور اجاڑتا چلا جا رہا ہے۔ ممکن ہے اصلاح احوال کی یہ اِکا دُکا اور چھوٹی چھوٹی کوششیں آنے والے کل میں ایک زندہ احساس اور مہم کی شکل اختیار کر جائیں اور یوں ہم اپنے بچوں کو عالمی شہری بنانے کے ساتھ ساتھ ''پاکستانی'' بنانے میں بھی کامیاب ہو جائیں اور ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکیں جس میں ماضی' حال اور مستقبل ایک ہی تار میں پروئے ہوئے دانوں کی شکل اختیار کر جائیں۔

جہاں تک اس مثالی اسکول کا تعلق ہے جو میجر رفیق حسرت' طارق گابا' امتیاز الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے غزالی ٹرسٹ اسکولز کے برادرم اشتیاق گوندل اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر ''غزالی پریمیئر کالج'' کے نام سے قائم کیا ہے تو اس کی کہانی بہت دلچسپ ہے کہ گزشتہ برس حج کے موقع پر کچھ دوست منیٰ کے ایک خیمے میں جمع ہوئے۔ سبھی معاشی اعتبار سے خاصے سوکھے (پنجابی میں ''سوکھا''خوش حال کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے) تھے اور موضوع گفتگو یہ تھا کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا کچھ حصہ اس کے بندوں تک کیسے پہنچایا جائے کہ یہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

قرعۂ فال شعبہ تعلیم کے نام نکلا۔ طارق گابا صاحب نے اپنے والدین کے نام پر ملتان روڈ سے سندر کی طرف جانے والی سڑک پر ساڑھے سترہ کنال بیش قیمت اراضی جو لب سڑک واقع ہے اس مجوزہ تعلیمی پروگرام کے لیے پیش کر دی جس کے ایک حصے پر پہلے سے کچھ تعمیر موجود تھی۔ اسی کو ٹھیک ٹھاک کر کے غزالی ٹرسٹ کی انتظامیہ کی مدد سے پاکستان کے چاروں صوبوں سے ساتویں اور آٹھویں جماعت کے ایسے 80 طلبا کو منتخب کیا گیا جن کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا لیکن جن میں سے بیشتر کے والدین انھیں مزید پڑھانے کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔

ان بچوں کو ہنرمند اور تربیت یافتہ اساتذہ کی نگرانی میں ایک بورڈنگ ہاؤس میں اس طرح رکھا گیا کہ ان کے تمام تر تعلیمی اور رہائشی اخراجات مع کتابوں اور یونیفارم کے' ٹرسٹ کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خصوصی تعارفی تقریب میں مہمانوں کو اسکول اور ہاسٹل میں موجود سہولتیں دکھائی گئیں۔ معلوم ہوا کہ اس وقت بورڈنگ ہاؤس کی دوسری منزل زیرتعمیر ہے اور آیندہ برس طلبا کی تعداد دگنی یعنی 160 ہو جائے گی اور اس کے علاوہ اردگرد کے گاؤں سے کچھ بچوں کو بطور ڈے اسکالرز بھی داخلہ دیا جائے گا۔ تقریب کے مہمانانِ خاص اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال اور صوبائی وزیر چوہدری عبدالغفور تھے۔

کسی نے سوال اٹھایا کہ سارے ملک سے دو چار سو بچوں کو اس طرح کی مفت تعلیم دینے سے کیا فرق پڑ جائے گا جس پر غزالی ٹرسٹ کے چیئرمین اشتیاق گوندل نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ 1995ء میں پہلا غزالی اسکول ایک کمرے' ایک کلاس اور ایک استاد سے شروع ہوا تھا اور آج اللہ کے کرم سے پورے ملک کے تین سو سے زیادہ اسکولوں میں 45 ہزار طلبا اور دو ہزار سے زیادہ استاد اس کارخیر کا حصہ بن چکے ہیں یعنی نیت نیک ہو تو راستے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں