فضائل یہ مناقب یہ مراتب اﷲ اﷲ

محرم الحرام اسلامی مہینوں میں سب سے پہلا مہینہ ہے


[email protected]

محرم الحرام اسلامی مہینوں میں سب سے پہلا مہینہ ہے، اس کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں جنگ و قتال حرام ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں بہت سی فضیلتیں ہیں۔ آج 25 محرم الحرام ہے۔ مسلم شریف میں ہے کہ افضل روزہ رمضان کے بعد محرم الحرام کا ہے اور افضل نماز فرض کے بعد نماز تہجد ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اﷲؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، جب ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے کہاکہ اس دن اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا، ہم اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں۔

حضورؐ نے فرمایا ''ہم موسیٰ ؑ کے زیادہ قریب ہیں'' چنانچہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ تمام سابقہ اقوام میں محرم کی دس تاریخ کا روزہ معروف تھا حتیٰ کہ منقول ہے کہ رمضان سے قبل یہ روزہ فرض تھا مگر رمضان کے بعد اس روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔ حضور نبی کریمؐ نے ہجرت سے پہلے یہ روزہ رکھا اور جب مدینہ تشریف لائے تو اس کی تاکید فرمائی اور فرمایا ''اگر میں آیندہ سال رہا تو 9 اور 10 محرم کو روزہ رکھوںگا'' مگر آپؐ نے اسی سال دنیا سے پردہ فرمایا اور دس محرم کے سوا روزہ نہ رکھ سکے مگر اس کی تاکید ضرور فرما دی۔ (بحوالہ مکاشفۃ القلوب، ص:698)

عاشورہ محرم کی 10 تاریخ کوکہتے ہیں، اس دن واقعہ کربلا پیش آیا اور امام عالی مقام حضرت حسینؓ نے اپنے 72 جانثاروں کے ہمراہ اسلام کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، امام حسینؓ نہایت عبادت گزار تھے، آپؓ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بادشاہوں کی بدترین صفات یہ ہیں کہ دشمنوں سے ڈریں، بے سہارا اور ناداروں پر رحم نہ کریں اور عطا و بخشش کے وقت بخل سے کام لیں۔ اہل بیت اطہار اور آل رسولؐ کی شرافت و تکریم مسلم ہے۔

رسول اﷲؐ نے فرمایا ''ہر نکاح اور نسبت کا رشتہ قیامت کے دن منقطع ہو جائے گا، سوائے میرے سبب اور نسب کے'' نبی رحمتؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کو بھی اپنے اہل بیت سے قرار دیا۔ سید الشہدا امام مظلوم حسینؓ کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانے کے لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ احادیث مبارکہ ہی کافی ہیں۔

٭... حسینؓ مجھ سے ہیں اور حسینؓ سے ہوں۔ مزید فرمایا حسنؓ اور حسینؓ جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے پدر بزرگوار ان دونوں سے بہتر ہیں (ابن ماجہ) نبی کریمؐ نے فرمایا ''فاطمہؓ میرے وجود کا ٹکڑا ہے، سو جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا (صحیح بخاری) خطبہ حجۃ الوداع میں آپؐ نے فرمایا ''اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہاہوں جسے تم نے مضبوطی سے تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے، ایک کتاب اﷲ اور دوسری میرے اہل بیت (سنن ترمذی) اور مؤطا امام مالک میں کتاب اﷲ کے ساتھ سنت کا ذکر ہے۔

٭...رسول اﷲؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''بے شک حسنؓ اور حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (مشکوٰۃ)

٭...امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں ''حسنؓ سینے سے لے کر سر تک رسول اﷲؐ کے مشابہ اور حسینؓ سینے سے لے کر قدموں تک آپؐ کے مشابہ تھے۔ (ترمذی)

رسول اﷲؐ دونوں شہزادوں کے لیے یہ دعا فرماتے کہ ''اے اﷲ عز و جل! میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت فرما'' (ابن ماجہ،ابو داؤد)

٭...امام ترمذی نے اپنی کتاب میں ایک روایت درج کی ہے کہ حضرت امام بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی ضرورت کے لیے رات کے وقت رسول اﷲؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپؐ کوئی چیز چادر میں چھپائے ہوئے باہر تشریف لائے جب میں اپنی بات پوری کر چکا تو میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲؐ آپ چادر میں کیا چھپائے ہوئے ہیں؟ آپؐ نے چادر ہٹائی تو اس کے نیچے سے حسنؓ اور حسینؓ ظاہر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی (فاطمہؓ) کے بیٹے ہیں، اے اﷲ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت رکھ اور ان دونوں سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت رکھ۔ (ترمذی شریف)

٭...حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ''جس نے حسنؓ اور حسینؓ کو محبوب رکھا اس نے در حقیقت مجھے محبوب رکھا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے درحقیقت مجھ سے بغض رکھا۔ (ابن ماجہ 64/1)

٭...حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲؐ نے فرمایا ''لوگو! اﷲ تعالیٰ سے محبت رکھو، کیونکہ وہ تمہارا رب ہے اور تمہیں نعمتیں عطا فرماتا ہے اور مجھے محبوب رکھو اﷲ کی محبت کی وجہ سے اور میرے اہل بیت کو محبوب رکھو میری محبت کی وجہ سے۔ (ترمذی و مشکوٰۃ 573)

٭...ایک دوسرے مقام پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''میرے اہل بیت کی مثال نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو باہر رہا وہ غرق ہوا۔

ان تمام مندرجہ بالا احادیث و روایات سے ثابت ہوا کہ اہل بیت اطہارکی محبت ہر ایک مسلمان پر واجب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا آپؐ کو حسنین کریمین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے کتنی محبت تھی کہ آپؐ نے ان سے محبت کو اپنی محبت اور ان سے عداوت کو اپنی عداوت قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اہل بیت اطہارؓ سے بے حد محبت فرماتے اور ان کا انتہائی ادب واحترام کیا کرتے تھے۔

بیہقی شریف کی ایک روایت سے معلوم چلتا ہے کہ سیدالشہدا امام حسینؓ کو ولادت کے ساتھ ہی اﷲ عزوجل نے جبرئیل امین علیہ السلام کے ذریعے رسول اﷲؐ کو امام مظلومؓ کی شہادت اور واقعہ کربلا سے بھی مطلع فرمایا تھا، چنانچہ آج چودہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی واقعہ کربلا تاریخ انسانیت میں اسی طرح زندہ و تابندہ ہے جیسے یہ حال ہی کا واقعہ ہے۔ انسانیت واقعہ کربلا کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

کربلا کی جنگ اصولی جنگ تھی، حق و باطل سچ و جھوٹ کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس واقعے نے اپنا اثر نہیں کھویا، معرکہ کربلا کے اسباب اور سید الشہدا امام مظلوم حسینؓ کی شہادت کے انقلاب آفرین نتائج کل بھی انسانی تاریخ و انسانی تہذیب وتمدن کا اثر انگیز اور جلی عنوان تھے اور آج بھی ہیں۔

حیات انسانی کی تاریخ کے اس روشن باب اور عظیم و جلیل واقعے کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی، امام عالیٰ مقامؓ نے کربلا کے میدان حق و باطل میں اپنے احباب اور خاندان کے افراد کی جو گراں قدر قربانی پیش کی وہ عالم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت اور رہنمائی کا ایک عظیم باب اور تاریخ غیرت و حریت کا روشن ترین مینارہ نور بن چکا ہے اور حقیقی معنوں میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے امام مظلوم حسینؓ کی قربانیوں کو تاریخ تا قیامت فراموش نہیں کرسکے گی۔ آپؓ کی ان ہی قربانیوں کی بدولت آج پرچم اسلام سربلند ہے۔ سلام حسینؓ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں