دوسرا سونامی
عمران خان نے 30 اکتوبر کو اسلام آباد کی جانب دوسرا سونامی برپا کرنے کی بات کی ہے
عمران خان نے 30 اکتوبر کو اسلام آباد کی جانب دوسرا سونامی برپا کرنے کی بات کی ہے۔ رائے ونڈ میں بھرپور جلسے نے تحریک انصاف کے حوصلوں کو توانائی بخشی ہے۔ دارالخلافہ میں بیت الخلا کی تعمیرات اور سردی کے لیے کمبلوں کی خریداری خطرناک ارادوں کو ظاہر کررہی ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ جمہوریت کے یہ خواب تو ہم نے اپنے دور طالب علمی میں نہ دیکھے تھے، ہم سے پہلے والی نسل کے بھی سپنے یہ تو نہ تھے۔
خواب کیا تھے؟ ایوب دور میں پارلیمانی نظام پہلا خواب تھا۔ آج ملک میں یہ نافذ ہے۔ دوسرا خواب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات تھے۔ چند لوگوں کے بجائے اب ہر فرد ملک کے مقدر کا ستارہ ہے۔ تیسرا خواب ون مین ون ووٹ تھا۔ اب آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، ڈویژن اور ضلع کو اسمبلی میں سیٹیں ملتی ہیں۔ ابھی داڑھی مونچھیں بھی نہ آئی تھیں کہ ادھوری خواہش پوری ہوئی۔
دو مضبوط پارٹیوں کا الیکشن میں ٹکراؤ ہوا، مجیب اور بھٹو کی صورت میں دو بڑی شخصیات سامنے آئیں لیکن ایک مشرق کا نمایندہ تھا تو دوسرا مغرب کا لیڈر۔ قومی اتحاد کی تحریک میں بھی دو نشان سامنے آئے، تلوار اور ہل کا مقابلہ ہوا، لیکن نہ پی این اے ایک پارٹی تھی اور نہ جمہوریت آگے بڑھی۔ انتخابی دھاندلی نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کروایا اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے حلف ہی نہ اٹھایا۔ یوں مارشل لا لگ گیا اور جمہوری خواب بکھر کر رہ گئے۔ اسکول سے کالج جانے کا خواب پورا ہوا تو کیا ہوا۔
ضیا الحق کا مارشل لا لگا تو خواہش رہی کہ جمہوریت اور اسمبلیاں بحال ہوں۔ پھر خدا خدا کرکے انتخابات تو ہوئے لیکن غیر جماعتی بنیاد پر، وزیراعظم، سینیٹ، چیئرمین اور اسپیکر و کونسلرز تو تھے لیکن دو پارٹیاں نہ تھیں۔ امریکا کی ڈیموکریٹ اور ری پبلکن کی طرح کی دو پارٹیاں یا برطانیہ کی لیبر اور کنزرویٹو کی طرح کی دو پارٹیاں۔ تمنا تو تمنا ہوتی ہے، جو دل کی دل میں رہ جاتی ہے، جب یہ آرزو اور خواہش بن کر پوری ہونے تو لگیں لیکن کس طرح؟ یہ بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے۔
بے نظیر اور نواز شریف دو نوجوان اور مقبول لیڈر بن کر ابھرے۔ یہ پچھلی صدی کے آخری عشرے کی بات ہے۔ خواہش پوری ہونے لگی ایک مرد تو ایک عورت۔ ایک سرمایہ دار تو دوسری کا پس منظر جاگیردارانہ۔ ایک قدامت پسند تو دوسری لبرل۔ ایک پاکستان میں پڑھا ہوا تو دوسری باہر کی پڑھی ہوئی۔ کیا کچھ نہیں تھا، ہر قسم کی ورائٹی تھی، لیکن اگر نہ تھی تو وہ برداشت، وہ برداشت جو جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔
لاہور اور لاڑکانہ کے ڈومیسائل کو طنزیہ انداز میں بیان کیا گیا۔ خطرے کا اظہار کیا گیا کہ کہیں وزیراعظم پنجاب میں گرفتار نہ ہوجائیں، تو وزیراعلیٰ دورہ سندھ کے دوران پکڑے نہ جائیں۔ اتنی گرما گرمی میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی میعاد پوری نہ کرسکا۔ ہر کوئی دو تین سال بعد نکال باہر کیا جاتا۔ یوں ابھی صدی ختم ہی نہ ہوئی تھی کہ ملک سے جمہوریت ختم ہوگئی۔ دونوں سابق وزرائے اعظم جلاوطن کر دیے گئے۔ نوجوان طالب علم خواب دیکھتے دیکھتے جوانی کی حد پار کرکے بالوں میں سفیدی دیکھنے لگے۔ اتنے عشرے گزر گئے لیکن حقیقی جمہوریت دیکھنے کو نہ ملی۔ صدی بدل گئی لیکن نہ بدلی تو ملک کی قسمت نہ بدلی۔
پرویز مشرف نئی صدی میں پاکستان کے حکمران تھے۔ سپریم کورٹ نے انھیں تین برسوں میں جمہوریت بحال کرنے کا وقت دیا تھا۔ آرمی چیف جب ملک کا صدر بن گیا تو پھر جمہوریت تو نہ رہی۔ بے شک وزیراعظم، چیئرمین، اسپیکر، اراکین اسمبلی، سب کچھ تھا لیکن کچھ کمی لگ رہی تھی۔ نہ کوئی مقبول قائد ملک میں موجود تھا اور نہ دو مضبوط پارٹیاں نظر آرہی تھیں۔ ایسے میں وکلا تحریک چلی اور مشرف اقتدار کا نصف النہار پر چمکتا دمکتا سورج کالے کوٹ والوں کی زد میں آکر سیاہی مائل ہوکر غروب ہوگیا۔ جلاوطن بے نظیر اور نواز شریف اب پاکستان میں تھے۔ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر نئی صدی میں پاکستان کو حقیقی جمہوریت دینے کے معاہدے پر دستخط کرچکے تھے۔ بے نظیر کی شہادت کا افسوس تھا تو پرویز مشرف کے استعفے پر سرور بھی۔
آصف زرداری کی صدارت اور شہباز شریف کی پنجاب میں حکومت کا دور دورہ تھا کہ عمران خان لاہور کے مینار پاکستان میں لاکھوں کا جلسہ کرکے ایک قوت بن کر سامنے آئے۔ ٹو پارٹی سسٹم کا خواب ٹرائی اینگل فائٹ میں بدل گیا۔ 2013 کے انتخابات میں تین بڑی پارٹیاں ابھر کر سامنے آئیں۔ دھاندلی کا الزام لگا اور ایک برس کی نواز شریف کی حکومت احتجاج کی زد میں آگئی۔
الزام سیاسی تھا جیسا کہ بھٹو پر لگایا گیا تھا ووٹوں کو چرانے کا الزام۔ قسمت کے دھنی نواز شریف بچ گئے کہ آصف زرداری نجات دہندہ بن کر پہنچے۔ دو سال بیتے تو اب صورت حال کچھ اور ہے ووٹوں کے بعد نوٹوں کو چرانے کا الزام ہے۔ پانامہ لیکس میں براہ راست وزیراعظم کا نام نہیں ہے، نام ان کے بچوں کا ہے، لیکن قوم سے اس مسئلے پر خطاب اور اسمبلی میں وضاحتی تقریر نے نواز شریف کو اس معاملے میں ملوث کردیا ہے۔ اب چار طرف دلچسپ صورت حال ہے کہ ہوگا کیا؟
تین طرفہ گھیراؤ کے علاوہ چوتھی جانب سے سکون کا راستہ نواز حکومت کے لیے موجود ہے۔ عمران خان کا اسلام آباد میں دھرنے کا ارادہ ہے، وہ ایک طرف سے نواز حکومت کو گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اکیلے، تنہا اور سولو فلائٹ لیے عمران ایک طرح سے حکومت کے لیے آسانی ہے تو دوسری طرف ایک مشکل۔ مشکل یہ ہے کہ سمجھا جارہاہے کہ اگر کوئی حقیقی اپوزیشن ہے تو وہ صرف اور صرف عمران خان ہیں۔ حکومت کی جانب سے دوسری دیوار ان کے ملک کے طاقت ور حلقوں سے تعلقات ہیں۔ آرمی چیف کی میعاد ختم ہونے میں ایک ماہ رہ گیا ہے۔
نواز حکومت کے لیے یہ مرحلہ بڑا نازک ہے۔ تیسری دیوار بھارت سے تعلقات ہیں۔ عوام کی جانب سے ہندوستان سے جارحانہ رویے کی خواہش کے باوجود حکومت کے مفاہمانہ رویے کا تاثر تیسرا خطرہ ہے۔ یہ تین طرفہ دیوار ہے۔ چوتھی جانب ایک پرسکون راستہ ہے۔ پانامہ لیکس پر شفاف تحقیقات کے لیے راضی ہونا یا آصف زرداری کا پھر نجات دہندہ بن کر آجانا یا کوئی اور معجزہ۔ حکومت کے پاس وقت کم ہے۔
اپوزیشن کے ٹی او آرز قبول کرنا ایک محفوظ راستہ ہے۔ بغیر کسی کی مدد کے یا معجزے کے انتظار کے۔ ایک ہے یہ راستہ اور دوسرا ہے ایک پر خطر راستہ۔ دوسرا پرخطر راستہ ہے یعنی سونامی کا سامنا۔ لیکن یہ ہمارا خواب نہیں تھا۔ ہمارا خواب تو جمہوریت تھی، ایسی جمہوریت جس میں نہ کوئی سونامی لائے نہ کوئی اس کا سامنا کرے۔ ایسی جمہوریت جس میں برداشت ہو، مضبوط پارٹیاں ہوں اور مقبول سیاسی شخصیات ہوں۔ خواب ایسے نظام کا تھا جس میں الزام نہ ہو کسی دھاندلی کا اور نہ دھمکی ہو کسی احتجاج کی۔ ایسا خواب جس میں شفاف انتخابات ہوں۔ ایسا سپنا جس میں حکمران کی ایمانداری پر سوال نہ اٹھے۔ جس میں نہ ہو الیکشن کے ایک سال کے بعد ووٹ چرانے کے الزام میں پہلا سونامی، پھر اس کے دو برسوں بعد نوٹ چرانے کے الزام میں دوسرا سونامی۔