جمہوری اقدار اوربردبار پاکستان
اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ ان میں رائج قدروں نے ان کو آزادی اور سربلندی کا ہی درس دیا ہوا ہے
ناپختہ اقدار و شہسوار: اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ ان میں رائج قدروں نے ان کو آزادی اور سربلندی کا ہی درس دیا ہوا ہے، جن میں کسی طاقتور فریق کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا کوئی عنصر شامل نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن موجودہ ارتقائی مرحلے پر آج ہر صورت میں یورپی نشاۃ ثانیہ کے مرتب شدہ جمہوری اقدار کے عملی و کلی اطلاق کے حتمی نتائج کے طور پر استبدادیت و استعماریت کے سامنے سرنگوں ہوجانے میں ہی بقائے حیات ملنے کی قدر اپنی مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگی ہے، جب کہ ان اقدارکے منتہائی مناظر میں عالم انسانیت اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ بھیانک حالات سے دوچار ہے۔
ایک طرف انتظامات معاشرت میں پھیلے نفاق و انتشار کا ہر دم متحرک رہنے والا ''پارا'' انسانی گروہوں کو انفرادی و اجتماعی سطح پر تمام صحت مند سرگرمیوں سے دور کرکے ان کو ایک دوسرے سے دست وگریباں رہنے کے نکتے پر حرکت دیے ہوئے ہے، تو دوسری جانب یورپی نشاۃ ثانیہ کے پانچ صدیوں پر مشتمل مختصر مگر تیز ترین عرصے کے دوران ہی جدید ترقی کے ''عیش و آرام'' میں کام آنے والے ایندھن کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں نے حیات کرۂ ارض کو زندگی اور موت کے دوراہے پر لاکھڑا کردیا ہے۔
جب کہ تاریخ کے ہر ایک ورق میں عالم انسانیت کے ارتقائی منظرناموں میں قومیں انتہائی طفلانہ انداز میں گرتی پڑتی، چوٹیں کھاتی، خود کو زخمی کرنے کے تجربات حاصل کرتی، آہستہ آہستہ بتدریج اپنے مراحل طے کرتی نظر آتی ہیں۔ جب کہ دنیا کو مکمل تباہی کے دہانے پر لانے والی جدید قدروں کی روشنی میں آج بہت ہی خوبصورت انداز میں اقوام کی تاریخ کے ان مراحل کو ان کی کم عقلی پر مبنی ناپختہ اقدار سے تعبیر کیا جانے لگا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانوں کے ان ابتدائی مراحل میں کسی گروہ کو بڑی بڑی تہذیبوں کی بنیادیں رکھتے اور ان تہذیبوں کو نیست ونابود ہوتے دیکھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
گرتے ہیں شہسوار ہی، میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا، جو گھٹنوں کے بل چلے
منفرد اقداری تاریخ: ان شہسواروں میں ہم بلاشبہ قدیم تہذیب فراعین (مصر) اور تہذیب فارس (فارس کے تو معنیٰ و مطالب ہی شہسوار کے ہیں) کو گنوا سکتے ہیں، جنھوں نے آگے بڑھ کر دیگر انسانی گروہوں کی قیادت کا سہرا اپنے سر رکھا تھا۔ ان دونوں تہاذیب کی ابتدا قبل از تاریخ سے ہوتی ہے اور ان سے متعلق افراد گردش لیل ونہار کے باوجود قائم و دائم ہیں۔
شاید اسی لیے ان دونوں کی تمام تر اقدار دیوتائیت سے اتنی متاثر دکھائی دیتی ہیں کہ ان کا تسلسل آج تک واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جوکہ انتہائی حیرت انگیز طور پر جدید مغربی اقدار کا آئینہ دار معلوم ہوتی ہیں۔ شاید اسی لیے ایک منظم طریقے اور دھیمے مرحلے کے طور عالم اسلام میں اب ان ہی دونوں قدیم تہاذیب سے متعلق انسانوں کو جدید اقدار کے نمونے کے طور پر پیش کیے جانے کی تیاریاں کی جانی لگی ہیں۔ تحریر اسکوائر اور دیوار مہربانی اس کی چھوٹی مگر قابل فہم مثالیں ہیں۔ مزیدار بات کہ ان دونوں قدیم تہاذیب کو ماضی میں عروج وشباب دینے والوں کا نسلی اور فکری تعلق مقامی آبادی سے قطعاً نہیں تھا۔
دوسری جانب تہذیب چائنا کے لوگ ہیں، جن کے ارتقائی مراحل اور اقدار کو سمجھنے کے لیے ہمیں تہذیب بیت المقدس سے بے دخل کیے گئے انسانوں کی تاریخ کو سمجھنا ہوگا، جوکہ دراصل پاکستان کی تاریخی قدروں کو سمجھنے اور پرکھنے کا بہترین اور لاثانی طریقہ بھی ہے۔ جس کی روشنی میں ہمیں پاک چین تعلقات کی طہارت و روحانی مضبوطی سمیت جدید دنیا میں ان کے مشترکہ قائدانہ کردار کو سمجھنے میں قابل فہم وٹھوس عقلی دلائل پر مبنی منظر انتہائی واضح دکھائی دیا جاسکتا ہے۔
جسے اگر بغیر کسی بقراطی فلسفے کے پرکھا جائے تو ہمیں صاف دکھائی دے گا کہ مادی طور پر مرتب قدروں کی پاسداری میں انسانی گروہوں کے مابین تقسیم و اختلاف سمیت خونریزی اور داخلی وخارجی جارحیت کے حتمی نتائج کا ظاہر ہونا ناگزیر ہوتا آیا ہے، جس کی قدیم مثال ارض فلسطین کی بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں تقسیم اور خانہ جنگی سمیت بابل اور یونان کی فلسطین پر جارحانہ بربریت کی صورت میں ملتی ہے۔ جب کہ تاریخ کی ایسی بہترین اور لاثانی مثال بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ جس میں پوری کی پوری بنی اسرائیلی قوم کو غلام بناکر بابل لے جائے جانے کا واقعہ تاریخ میں رقم ہوا۔
قدیم اقدار کاجدید درس: جدید مثال میں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی مادی اقدار کے نتیجے میں یورپی خانہ جنگی سمیت اقوام عالم کے ''باصلاحیت افراد'' کو غلام بناکر متحدہ ریاست ہائے امریکا لے جایا جانا ممکن بنا اور عالم انسانیت کے تمام گروہوں سے متعلق افراد ایسی جدید غلامی میں جانے کو بے قرار دکھائی دیے جارہے ہیں۔ بلاشبہ اقوام عالم پر اپنے قدیم تشخص سے بے اعتنائی برتنے کی اس مقبول ہوتی روش کی تمام تر ذمے داری یورپی نشاۃ ثانیہ میں حاصل کردہ ترقی اور ان کی روشنی میں مرتب شدہ جدید جمہوری اقدار پر عائدکی جاسکتی ہے۔
اقوام عالم میں تہذیب چائنا سے متعلق انسانی گروہ اپنی منفرد شناخت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ جدید ترقی کے تمام تر لوازمات سے بہرہ مند ہونے کے باوجود ان کی معاشرت کا تمام تر انحصار مقامی اخلاقی وتاریخی اقدار، مقامی وسائل اور مقامی ذرائع پیداوار پر ہی مشتمل ہے، جوکہ اقوام عالم کے لیے اپنے اپنے موجودہ جدید ہنگامی حالات میں اخلاقی حدودوقیود سے مبرا جمہوری اقدار کے مقابلے میں ان کو اپنی تاریخی اخلاقی قدروں کی اہمیت وافادیت کو سمجھنے کا ایک درس بھی ہے۔
بردبار پاکستان: اقوام عالم کے اس قدیم وجدید اقداری ارتقا کے مراحل کے سیاق وسباق میں برصغیر کے مسلمانوں نے انتظام معاشرت کے لیے تہذیب بیت المقدس اور انتظام کائنات کے لحاظ سے تہذیب خانہ کعبہ سے لیے گئے اقدار کی روشنی میں جس ملک کا قیام عمل میں لایا تھا۔
اس مملکت خداداد کی ارتقا کا یہ عالم ہے کہ اس نے اثاثوں کی تقسیم، ڈیورنڈ لائن، مسئلہ کشمیر سمیت عملی طور حقیقی سپر پاور اسرائیل کے وجود سے انکار اور اس کی ناجائز فکری اولاد کی سیکولر قدروں سمیت عالمی اداروں کے منافقانہ کردار کے باوجود اپنی اقدار کو کسی بھی مرحلے پر ہاتھ سے جانے نہیں دیا، جس کا اقرار ان ہی جدید قدروں کے حاشیہ برداروں کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے کہ ''پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں ریاست کے اندر ریاست پائی جاتی ہے'' جوکہ دن بہ دن ناقابل تسخیر بنتی جارہی ہے۔ پھر چاہے پاکستان ایٹمی قوت بنا، یا اس سے قبل کے عرصے کا دورانیہ ہو۔
پوری دنیا نے دیکھا کہ اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی جارحیت کا شکار اور حالت جنگ میں رہنے کے باوجود کمیونزم کے ''مرحب'' کو دھول چٹانے کے بعد موجودہ دہشتگردی کے ''خیبر'' کو مٹی کا ڈھیر بنانے کے لیے جدید قدروں کی مغلوب ومفتوح اقوام کی نظریں پاکستان ہی کی جانب اٹھی ہوئی ہیں۔ اقوام عالم کا ایسا عمل ان جدید قدروں اور ان کے خالقوں کی آنکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے۔
بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ یورپی نشاۃ ثانیہ کے ''سحر'' سے پیدا کیے گئے کمیونزم کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے بعد ان جمہوری قدروں نے پاکستان کا جو حال کرکے رکھ دیا تھا، اس میں ایک بار پھر مقامی مطالبے پر جمہوری ریاستی اداروں میں کرپشن اور بدانتظامی کے پھلتے پھولتے اژدھاؤں کے خلاف رینجرز آپریشن جب کہ عالمی مقابلے پر آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا ہے، کیونکہ پاکستان کے اندر ایک ''پانامہ، نیب، ایف آئی اے و اینٹی کرپشن زدہ جمہوری ریاست'' پائی جاتی ہے، تو دوسری جانب ''مسائل عالم کے حل کے لیے کمربستہ چائنا کو تحرک دیتی، اپنی تاریخی قدروں کے دم پر تحقیقات وتہاذیب ابراہیمؑ کی وراثت کا علم لیے فراعین و یزیدانِ وقت کو للکارتی ریاست'' ہمہ وقت متحرک رہتی آئی ہے، جسے بلاشبہ امن کا داعی و بردبار پاکستان ہی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جس کے وجود سے تاریخ کی وہ تمام استبدادی واستعماری قوتیں لرزہ براندام رہتی آئی ہیں جو آج ان جدید قدروں کی آڑ میںعالم انسانیت کو اپنے آگے سجدہ ریزکرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔
پرسوز دلوں کو جو مسکان نہ دے پائے
سُر ہی نہ ملے جس میں، وہ ساز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو، ہے ظاہر اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو، انداز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت، کچھ دور سویرا ہے
گر چاہتے ہو منزل، پرواز بدل ڈالو