ہندی رائج نہ کریں

جو پاکستان 14اگست 1947 کو وجود میں آیا وہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ دو سو سال یعنی دو صدیوں کا ایک نتیجہ تھا



جو پاکستان 14اگست 1947 کو وجود میں آیا وہ کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ دو سو سال یعنی دو صدیوں کا ایک نتیجہ تھا، جسے نتیجہ خیز ہونا تھا۔ برصغیر ہندوپاک جسے اب ہم ذکر کرتے ہیں اپنی ہیئت کے اعتبار سے ''ہند و پاک'' ہی تھا صدیوں مسلمانوں کی حکمرانی نے اس علاقے پر اچھے برے دونوں اثرات قائم کیے یعنی بادشاہوں نے کیوںکہ سارا دور بادشاہت کا تھا (جمہوریت کا سبق دینے والوں کے یہاں آج بھی برائے نام ہی بادشاہت موجود ہے) اور بادشاہ تو بادشاہ ہی ہوتا ہے۔ انگریز بادشاہ نے دو سو سال میں مقبوضہ برصغیر کا وہ حال کردیا جو آٹھ سو سال میں مسلمان بادشاہوں نے نہیں کیا تھا۔

بہر حال آٹھ سو سالہ بادشاہت کی اس بنیاد پر وکالت نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسلمان بادشاہ تھے بلکہ اس کا دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ دور دونوں طرح کا پایا جائے گا مگر جو بات قابل ذکر اور توجہ طلب ہے وہ یہ کہ اس پورے عرصے میں غیر مسلموں کو بہت کم تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے اپنے طبقاتی تفاوت کے مطابق یہ تکالیف ہندوؤں کو ہندوؤں سے پہنچیں اور آج بھی پہنچ رہی ہیں۔

مسلمان بادشاہوں کے ادوار کو زیادہ اچھا اور ہر اعتبار سے تعمیری قرار دیا جا سکتا ہے، تعمیری کو آپ سماجی اور Construction دونوں کے اعتبار سے دیکھ سکتے ہیں اور اس سے ہی اندازہ بھی کرسکتے ہیں کہ جہاں مسلم تعمیرات کا سلسلہ ہے توکہیں غیر مسلموں کی تعمیرات کو نہ روکا گیا اور نہ یہ ضد کی گئی کہ ان پر مسلمانوں کے نام لکھے جائیں۔

موجودہ پاکستان میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ احمقانہ سوچ اور تبدیلی کے نام نہاد اسلامی رویے کے باوجود آج بھی ہندوؤں کے نام پر عمارات اور ادارے قائم ہیں اور قائم رہنے چاہئیں یہی ہمارے بہتر سماجی انصاف اور اخلاق کی علامت ہیں اور اگر مجھے اجازت دی جائے تو کہوںگا کہ جن راستوں، عمارتوں یا اداروں کو ''اسلامایا'' گیا ہے ان کو دوبارہ ان کے سابق نام اور مرتبے سے بحال کیا جانا چاہیے۔ یہ اس علاقے کی تاریخ ہے اور اسے مسخ کرنا غیر قانونی، غیر اخلاقی ہے اور ہمارا دین کہ جس کے نام پر کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایاگیا اس کے بارے میں واضح پالیسی رکھتا ہے۔

یہ بھی ایک طے شدہ امر ہے کہ ہر قوم کی ایک زبان ہوتی ہے اور وہ قوم اپنی زبان سے بھی اپنی شناخت رکھتی ہے۔ برصغیر ہند و پاک میں بے شمار زبانیں بولی جاتی تھیں، بولی جاتی ہیں، بہت سی زبانیں معدوم ہورہی ہیں اور زبانوں کے ذمے دار اداروں کو انہیں معدوم ہونے سے بچانا چاہیے، زبانوں کی ترقی کے علاوہ قدیم زمانوں کو محفوظ رکھنا یعنی ان اداروں کی ذمے داری ہے کہ کس قدر اس پر توجہ ہے اگر ادارے کے ذمے داران اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کریں اور ہمیں بتائیں تو بہت خوشی ہوگی اور فخر محسوس ہوگا۔ اب تک تو پر اسرار خاموشی ہے اس معاملے پر!

برصغیر ہند وپاک میں جو زبانیں نمایاں تھیں اور ہیں وہ اردو اور ہندی ہیں۔ باقی زبانیں اپنے اپنے علاقوں کی نمائندہ زبانیں ہیں، زبانوں کا تصادم تقسیم ہند کے بعد نظر آیا اور اس کے پس منظر میں زبان نہیں کچھ اور مقاصد تھے اور ہیں۔ سندھ خاص طور پر اس میں نمایاں رہا اور اب تک ہے اور اب اس لنگویج ایشو کو پیار محبت سے سلجھانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور بھارت بن جانے کے بعد جو فسادات ہوئے اور دونوں قوموں نے جس بے دردی سے ایک دوسرے کا استحصال کیا، اس کا اثر زبانوں پر بھی پڑا، پاکستان کی قومی زبان اردو کا اعلان ہوتے ہی بھارت سے اردو کو دیس نکالا دینے کی تیاری کی گئی، جو اس کا وطن مالوف بھی تھا اور اس کا پھیلاؤ پورے برصغیر میں تھا اور ہر علاقے کے شاعر ادیب مقامی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کو مروجہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں، اردو اس پر ان کی شکر گزار ہے۔

بھارت نے اردو میں ہندی کی آمیزش کی اور آہستہ آہستہ ہندی کو غالب کرکے اردو کو دیس نکالا دیکر پاکستان بھیج دیا اپنی دانست میں مگر ایسا ہوا نہیں کیوںکہ بھارت کو اپنی ثقافت کو پروموٹ کرنے کے لیے اب بھی اردو کی ضرورت ہے اور اردو جیسی بھی وہاں ہے رائج ہے۔ پانامالیکس کی طرح اردو بھی بھارت کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہے۔

پاکستان میں بد قسمتی سے علاقائیت نے بہت زور پکڑا، اس کی وجوہات پر بہت بحث کی جاسکتی ہے مسائل کے علاوہ مفادات کا کھیل اس تنازعے میں زیادہ ہے اور بہت ہوشیاری سے اسے مسائل کی طرف موڑ کر سیاست کو چمکایا گیا اور آج تک اس پر سیاست ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ کیوںکہ مادری زبان کے سوال پر آپ دنیا کی ہر قوم کو جذباتی کرسکتے ہیں۔ ماں کا نام اور ماں کی زبان پر انسان کی کمزوری ہے اور مفاد پرست اور ہوشیار لوگ سادہ لوح لوگوں کو اس کے ذریعے ہی بے وقوف بناکر اپنے ذاتی، جماعتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔

اس پر کچھ کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بارے میں بے شمار مزاحمتی لٹریچر آپ کو ہر زبان کا مل جائے گا جس کا در پردہ مقصد وہی ہے جو ہم نے عرض کیا ہے۔ ایک زبان جو سب کی زبان ہے کہ جب ہم اکثریت سے گفتگو کرتے ہیں یا اکثریت کے سامنے گفتگو کرتے ہیں وہ اردو ہے، آپ اس کا جو چاہے نام رکھ دیں۔ رہے گی رابطے کی زبان، کسی خاص قوم کی زبان جو صرف یہی ایک زبان مادری زبان کے طور پر جانتے ہیں یا قومی زبان آپ ملک سے باہر اپنے ہم وطنوں اور دوسرے ان ملکوں کے لوگوں سے جو ایشیا اور خصوصاً برصغیر سے تعلق رکھتے ہیں اس زبان میں ہی بات کرتے ہیں وہاں کوئی بھی علاقائی زبان صرف وہاں بولی جاتی ہے جہاں اس کے بولنے، سمجھنے والے ہوں۔

یہ زبان پاکستان کے لوگوں کی شناخت ہے کسی ایک طبقے کی میراث نہیں ہے جس طرح بھارت نے ہندی کو رائج کیا اور اب وہاں ہندی بولی جاتی ہے حالاںکہ اس کو اردو کی ''بیساکھی'' کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اردو کو مجروح کرکے ہندی کی بیساکھی لگادی ہے جو آپ کو ٹھیک لگے سمجھ لیں۔

ہمارے یہاں بھارت کی ثقافتی یلغار نے سب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، دنیا کے لوگوں اور قوموں نے اس طرح کسی دوسرے ملک کی ثقافت اور اطوار کو نہیں اپنا یا جس طرح ہم نے پاکستان اور کشمیر کے دشمن بھارت کو دلوں اور جسموں میں جگہ دے دی ہے۔

عام آدمی کے علاوہ پاکستان کے نشریاتی ادارے بھی ہندی لفظوں کو استعمال کرنے لگے ہیں، اس کا کوئی خاص مقصد ہے تو ضرور ایسا ہورہاہے پہلے ایک واضح حکم تھا حکومت کا کہ نشریات میں ہندی لفظ استعمال نہ کیے جائیں اور اس پر Check رکھا جاتا تھا عمل ہوتا تھا۔ اب نشریات میں لفظ ''مدا'' یعنی موضوع ''پریوار'' یعنی خاندان ''اگرشت'' واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں یہ چندہی لفظ مثال کے طور پر اور ان کا استعمال خاص طور پر پرائیویٹ چینل بہت کررہے ہیں، سرکاری ادارے بھی پیچھے نہیں ہیں اکثر پاکستانی ایف ایم سے چوری چھپے ہندوستانی گانے نشر ہوتے ہیں کوئی چیک کرنے یا پوچھنے والا نہیں ہے۔

دو باتیں ہیں بغیر کسی تعصب کے اجازت دے دیجیے کہ ایسا کرلیا جائے آہستہ آہستہ نقل کرنے کی عادت ہم سے اردو چھڑوادے گی یا وہی راستہ اختیار کیجیے ''پیمرا'' کے ذریعے کہ دشمن کی زبان نہیں بولی جائے گی۔ دوسرا ہی راستہ حق اور سچ کا راستہ ہے کہ آپ کس طرح یہ گوارا کرسکتے ہیں کہ ملک دشمن ایجنٹوں اور دشمن ملک کی زبان کی ترویج آپ کریں اور اپنی قومی زبان کو غیر محسوس طریقے سے متنازعہ بناکر رائج نہ کریں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا واضح حکم اسے رائج کرنے، نافذ کرنے کا موجود ہے مگر حکومت نے اسے ہوا میں اڑا رکھا ہے کیوں؟ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں