وطن عزیز میں قانون اندھا ہی نہیں بے حس بھی ہے

انصاف کے انتظار میں باپ اور دو چچا جان تو جان سے گئے، لیکن ملزم کو بھی انصاف اس وقت ملا جب وہ خود دنیا میں نہیں تھا۔


قیصر اعوان October 11, 2016
اگر آج مظہر حسین زندہ ہوتا تو وہ عدلیہ اور جج صاحبان سے یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کرتا کہ ’’کیا عدالت اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس کی زندگی تباہ کرنے پر معافی مانگے گی؟‘‘

کچھ لمحوں کے لئے فرض کریں کہ پولیس آپ کو قتل کے جھوٹے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیتی ہے اور آپ کی مالی حالت یہ ہے کہ آپ کے پاس ڈھنگ کا ایک وکیل کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ ذرا سوچئے کہ کتنا اذیت ناک ہوگا وہ لمحہ جب آپ روتے ہیں، چلّاتے ہیں، گِڑگِڑاتے ہیں، کبھی آپ اپنے بوڑھے ماں باپ کا واسطہ دیتے ہیں تو کبھی اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی قسم کھا کر اپنے بے گناہ ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کوئی آپ کی آہ و بُکا پر کان نہیں دھرتا، کسی کو آپ کی دہائیوں کی پرواہ نہیں ہے۔

آپ یہ اچھی طرح سے جان چکے ہیں کہ پولیس قانون کے تقاضے پورے نہیں کررہی اور ہر حال میں آپ کو مجرم ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہے مگر پھر بھی آپ نے عدالت سے یہ اُمید باندھ رکھی ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے ضرور پورا کرے گی اور آپ کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں ہونے دے گی۔ آپ جیل میں اپنی زندگی کے بدترین دن صرف اِس ایک اُمید پر گزار رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ انصاف ہوگا۔ مگر آپ کی بدنصیبی کہ جب عدالت اپنا فیصلہ سناتی ہے تو پولیس کےغلط بیانات اور گواہوں کی جھوٹی گواہیوں کی روشنی میں آپ کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت کا حقدار ٹھہرا دیا جاتا ہے، یعنی آپ کو اس جرم میں پھانسی چڑھنا ہے جو جرم آپ نے کبھی کیا ہی نہیں تھا۔

آپ اپنے بوڑھے والدین کا سوچتے ہیں جنہیں اب ایک قاتل کے ماں باپ کے طور پر جانا جائے گا، آپ کو اپنی اس لاڈلی بہن کا خیال آتا ہے جسے اب کوئی بھی کسی بھی موقع پر ایک قاتل کی بہن ہونے کا طعنہ دے دے گا۔ آپ اپنے ان معصوم بچوں کا سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں جن کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن ہیں مگر ان کی عمر کے بچے صرف اس لئے ان سے دور دور رہتے ہیں کہ اُن کا باپ جیل میں ہے۔ آپ کو اپنے بیوی بچوں کی کفالت کی فکر اندر ہی اندر سے کھائے جارہی ہے مگر آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

بہرحال آپ ہمت نہیں ہارتے، آپ انصاف کے حصول کے لئے پہلے سیشن کورٹ جاتے ہیں اور وہاں سے مایوسی پر ہائی کورٹ، مگر آپ کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی اور پھر آخر کار آپ انصاف کی جستجو میں سپریم کورٹ پہنچ جاتے ہیں۔ اب آپ اِسی امید پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کا انتظار کر رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ جھوٹ اور سچ کے فرق کو سمجھے گی اور آپ کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دے گی مگر یہ انتظار دن بدن طویل ہی ہوتا جاتا ہے۔ آپ کے بچوں کا بچپن محرومیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، آپ کی بوڑھی ماں آپ کے غم میں رو رو کر آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھتی ہے، آپ کا ضعیف باپ اور چچا عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے مرجاتے ہیں مگر آپ کو انصاف نہیں ملتا اور جب گرفتار ہونے کے 19 سال بعد سپریم کورٹ آپ کو بے گناہ مانتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دن رات انصاف ملنے کا انتظار کرنے والے مظہر حسین کو تو مرے ہوئے 2 سال گزر گئے۔



اگر ہم خود کو اس مظہر حسین کی جگہ رکھ کر سوچیں گے جسے سپریم کورٹ نے 19 سال پرانے قتل کے ایک مقدمے میں بے گناہ قرار دیتے ہوئے باعزت بری کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ بھی اس کی موت کے 2 سال بعد، تو ہمیں بھی اس کرب کا اندازہ ہوجائے گا جو مظہر حسین اور اس کا خاندان اس سارے عرصے میں سہتا رہا ہے۔ مظہر حسین کے کیس کو پاکستان کے عدالتی نظام کے منہ پر طمانچہ قرار دیا جارہا ہے۔ عزت مآب جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب! یقینًا آپ ایک بے گناہ شخص کو دی جانے والی اتنی لمبی قید کا ازالہ نہیں کرسکتے، اگر آج مظہر حسین زندہ ہوتا تو وہ اپنی زندگی کے 19 سال لوٹانے کا تقاضا کرتا یا نہیں، یہ ایک الگ معاملہ ہے مگر آپ سے یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کرتا کہ ''کیا عدالت اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس کی زندگی تباہ کرنے پر معافی مانگے گی؟''

[poll id="1239"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔