یہ خوبصورتیاں‘ یہ بدمعاشیاں
دیر سے آکر آگے کی صفوں میں گھسناکہ وہاں پنکھے یا دریاں بہتر ہوں، بہت بری بات ہے۔
ہر انسان کے اندر ایک بدمعاش چھپا بیٹھا ہے،کچھ خاندانی روایات، کہیں بزرگوں کی موجودگی، کہیں جاننے والوں کا ڈر، کبھی تعلیم کا بھرم، کبھی پیسے کی اکڑ آدمی کو بدمعاشیوں سے روکتی ہے۔ مذہب سے وابستگی اور وطن کی محبت بھی بعض اوقات آدمی کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ آنے والے لمحوں میں ہم کچھ بدمعاشیوں کا ذکر کریں گے۔ وہ چھوٹی چھوٹی بدمعاشیاں جو ہم آپ روزانہ کرتے رہتے ہیں۔ بدمعاشی کا واضح مطلب ہے کہ ہم کسی کا حق مار رہے ہیں، یوں ہم مذہب، وطن، خاندان، بزرگوں، واقف کاروں کے ہوتے ہوئے بھی غلط کام کر گزرتے ہیں۔ اگر ہم انھیں غور سے پڑھ کر اپنی خامی دور کرسکیں تو سمجھیں ہم نے معاشرے سے ایک بدمعاش کم کردیا۔
قطار میں کھڑا نہ ہونا اور دیر سے آنے کے باوجود آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ہم پاکستانیوں کا سب سے خطرناک مرض ہے۔ قطار کیا ہے؟ بزرگوں، بچوں، معذوروں اور جلد آنے والوں کا یہ حق ہے کہ انھیں پہلے سنا جائے، اگر طاقتور بس اور ریل میں اپنی دھونس کی بنیاد پر جلد سیٹ حاصل کرلے تو یہ کمزور کی سب سے بڑی حق تلفی ہے۔
ایسا ہی معاملہ اوورٹیک کرنا یا ون وے توڑنا ہے۔ ان خلاف ورزیوں کا مطلب بھی دوسرے کی حق تلفی ہے۔ ڈاکٹر کے انتظار میں نمبر لے کر اپنی باری پر دکھانا مہذب طریقہ ہے۔ایک اور بدمعاشی ہمیں کھانے کی دعوتوں میں نظر آتی ہے۔ پلیٹیں بھر لینا اور بعد میں ضایع کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ اگر بیٹھ کر احباب کھانا کھا رہے ہیں تب بھی انسان کے بااخلاق ہونے یا خودغرض ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔ کسی ٹرے یا کٹورے سے اچھی اچھی بوٹیاں چھانٹ لینا بھی غیر مہذب طریقہ ہے۔
کسی نشست پر بیٹھنا ہو تو اپنے حق سے بہت زیادہ جگہ گھیر لینا شائستگی کے خلاف ہے۔اخبار کا مطالعہ کرتے آپ کسی شخص کو لائبریری یا پبلک مقام پر دیکھیں تو باآسانی بدمعاش کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ لوگ چند اخبارات یا پسندیدہ صفحات اپنے قبضے میں کرلیتے ہیں۔ یہ بُری بات ہے۔ اعتماد اپنے آپ پر بھی رکھیں، معاشرے پر بھی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو اخبار پڑھنا چاہتے ہیں اس کا ایک صفحہ اپنے پاس رکھیں۔ باقی دوسرے لوگوں کے لیے چھوڑ دیں۔ قبضے کی یہ عادت لوگوں کے آپشن کم کردیتی ہے۔ اسی طرح آپ خود بھی اپنے پسندیدہ اخبارات پڑھنے سے محروم رہ جائیں گے، اگر دوسروں نے اخبارات اپنے قبضے میں کیے ہوئے ہوں۔
کسی کی زمین پر قبضہ کرلینا سب سے بڑی بدمعاشی ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ مہذب معاشروں کے قوانین بھی اس بدمعاشی کی مذمت کرتے ہیں۔ کسی کی عمر بھر کی پونجی یا کسی کا اپنی چھوٹی بیٹیوں کے لیے پلاٹ لینا کہ دس بارہ سال بعد بیچ کر شادی کریں گے۔ سوچیں، اگر ایسے خاندان کی زمین پر قبضے کی بدمعاشی کوئی معاشرہ جاری رکھتا ہے تو وہ کتنا ہولناک جرم کرتا ہے۔ ایسے سماج جب خوف، بدامنی اور بھوک کا شکار ہوتے ہیں تو پھر سوچتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ نادان اپنی ہی بدمعاشیوں پر غور نہیں کرتے۔
احساس کمتری بھی آدمی سے بڑی بدمعاشیاں کرواتا ہے۔ گاڑی کی چھت پر نیلی بتی لگا کر اپنے آپ کو سرکاری افسر ظاہر کرنا۔ یعنی نہ ہوتے ہوئے اور حق نہ ہوتے ہوئے ایسا کام کرنا جو مذہب اور مملکت دونوں کی نظر میں جرم ہے، گھر کا کوڑا باہر پھینکنا بھی ایک بدمعاشی ہے جو خواتین اور دکانداروں سے سرزد ہوتی ہے، خواتین کی کچھ بدمعاشیاں آگے رکھی ہیں۔ امتحان میں نقل کرنا بھی ایک بڑی بدمعاشی ہے۔ اس کی انتہا جعلی ڈگری کی شکل میں نظر آتی ہے۔
بندے نے میٹرک کیا ہو تو گریجویشن کی ڈگری کتنی بڑی بدمعاشی ہے۔ چار برسوں میں کم ازکم دو درجن مضامین کا امتحان دینے سے گریز، یہ مطلب ہے ایک جعلی ڈگری کا۔ پھر اس بنیاد پر نوکری حاصل کرکے دوسرے کا حق مارنا یا اسمبلی کا رُکن بن کر قومی خزانے سے لاکھوں کی تنخواہ حاصل کرنا اور مراعات پانا۔ رکن پارلیمنٹ کی دہری شہریت بھی ایک بڑی بدمعاشی ہے۔ اگر معاشرہ اس بدمعاشی کو اہمیت نہ دے اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو پھر ووٹ دے کر منتخب کروائے تو پھر یہ اجتماعی بدمعاشی ہے، جو پورا معاشرہ مل کر کرتا ہے۔ بارہ تیرہ برس کے لڑکوں کے حوالے گاڑی کردینا بھی ایک بدمعاشی ہے۔ اب یہ لڑکا کسی کو اسپتال یا قبرستان پہنچائے، والدین کی بلا سے۔
ایک بری حرکت مسجدوں میں کی جاتی ہے، جو نمازیوں کی جانب سے ہوتی ہے۔ دیر سے آکر آگے کی صفوں میں گھسناکہ وہاں پنکھے یا دریاں بہتر ہوں، بہت بری بات ہے۔ مسجد کے خطباء اپنی تقریروں میں نمازیوں کو اس سے منع کرتے ہیں، دیر سے آکر آگے صف کے بیچ میں گھسنا کم ازکم دو نمازیوں کو تکلیف دیتا ہے۔ کندھے پھلانگ کر اگلی صفوں میں گھسنا ہر دور میں معیوب سمجھا گیا ہے۔ میرٹ پر ووٹ نہ دینا معاشرے کی سب سے بڑی بدمعاشی ہے۔ ہم زبان، نسل، علاقے اور برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔
پھر جب ہمارے منتخب نمایندے بھرپور بدمعاشیاں کرتے ہیں تو ہم رونے دھونے کا عمل کرتے ہیں۔ یہ المیہ ہے یا اس پر ہنسنا چاہیے کہ ہم خود اپنی خامیوں کے باوجود برائیوں کو دوسری جگہ پر تلاش کرتے ہیں؟ ہماری حیثیت اس آدمی کی طرح ہوتی ہے جو چشمہ لگائے ہوئے ہوتا ہے پھر بھی اسی کے تلاش میں ہوتا ہے یا یہ محاورہ بھی صادق آتا ہے کہ ''بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا۔'' یہی حال سرکاری نوکریوں کا ہے، عوام اور حکمران سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے بے روزگاروں کو نوکریاں بانٹنے کے لیے ہیں۔
سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں نااہلوں کی بھرتی ایک بڑی بدمعاشی ہے۔ انجام اس وقت ہوتا ہے جب یہ وزراء کسی طیارے میں فنی خرابی کے بعد جہاز سے اترتے ہیں۔ جب ہمارے حکمران زندگی اور موت کی کشمکش سے باہر نکل آتے ہیں تو پھر نا اہلوں کی فوج کی بھرتی کو کوستے ہیں۔ کیا اسے عوامی بدمعاشی کہا جاسکتا ہے؟ خواتین کی ایک بدمعاشی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ کالم ادھورا رہے گا۔ عورتیں اپنے صنف نازک ہونے کا اکثر ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بعض اوقات ان کا حق ہوا ہے کہ انھیں رعایت دی جائے، رعایت کو حق سمجھنا اور دھونس سے حاصل کرنا غلط ہے۔ قطار میں نہ لگ کر وہ فائدہ اٹھاتی ہیں، یہ حربہ وہاں مفید ہوتا ہے جہاں مردوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوں۔ کسی پارک کی بنچ پر خود بیٹھنے کے لیے بچوں اور مردوں کو وہاں سے اٹھانا اکثر دیکھا جاتا ہے۔ اگر مردوں کو بدمعاشی کرنے پر بدمعاش کہا جاتا ہے تو خواتین کو کیا کہا جائے ؟ اُردو لغت کے ماہرین کو جواب دینا چاہیے۔
حکمرانوں کی بدمعاشیاں سب سے بڑھ کر ہیں۔ اپنی گاڑی پر رکن پارلیمنٹ کی تختی لگانا قانون سے بالاتر ہونے کا پیغام ہے۔ استحقاق کے نام پر مراعات کو قانونی شکل دے کر حاصل کرنا ایک دھونس ہے۔ وی وی آئی پی کلچر اگر ختم نہیں ہورہا تو یہ حکمرانوں کا احساس کمتری ہے۔
سو سو گاڑیوں کے قافلے میں صدر و وزیر اعظم کی آمد و روانگی عوام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ سابق ہوجانے کے بعد انھیں کچھ نہیں ہوتا تو حکمرانی میں یہ چونچلے عہدے کا ناجائز استعمال نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر حکمران اپنے آپ کو قانون کے دائرے میں لائیں اور عوام کی جانب سے بھی کوئی بدمعاشی نہ ہو تو کل کا کالم نگار ایسے کالم لکھے گا جن کا عنوان ہوگا ''یہ خوب صورتیاں'' تاکہ معاشرے کو آئینہ دکھا کر کالم لکھے جائیں جن کا عنوان ہو ''یہ بدمعاشیاں۔''