انکل سام کے دیس میں… ایک بار پھر
امریکا کا سفر اس قدر طویل اور تھکا دینے والا ہوتا ہے کہ ہر بار واپسی پر یہ کہنا پڑتا ہے کہ بس یہ آخری سفر تھا
امریکا کا سفر اس قدر طویل اور تھکا دینے والا ہوتا ہے کہ ہر بار واپسی پر یہ کہنا پڑتا ہے کہ بس یہ آخری سفر تھا، اب اس کے بعد ادھر کا رخ نہیں کریں گے مگر بقول شخصے یہ ارادہ اور اعلان اس حاملہ خاتون کے بیان جیسا ہوتا ہے جو وہ ہر بچے کی پیدائش کے دوران کرتی تو ہے مگر اس کی کل عمر چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔
امریکا کا پہلا سفر 1984ء میں مرحومین جمیل الدین عالی، پروین شاکر اور علی سردار جعفری (بھارت) کی معیت میں ہوا جو اس اعتبار سے یقینا بہت دلچسپ اور خوشگوار تھا کہ پہلا پہلا تھا، اس کے بعد کے بتیس برسوں میں اس سے گزشتہ روز شروع ہونے والا یہ دورہ گنتی کے اعتبار سے بارہواں ہو گا گویا اوسطاً ہر تین برس میں ایک چکر لگتا رہا ہے۔
پاکستانی ڈاکٹرز کی تنظیم ''اپنا'' کی پانچ دعوتوں سے قطع نظر باقی سب اسفار کے میزبان مختلف تھے البتہ اس بار غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ساتھ وہاں کا جو ادارہ Helping Hands تعاون کر رہا ہے چند برس قبل بھی میں اور انور مسعود برادرم میاں عبدالشکور کی الفلاح اسکالر شپ اسکیم کی فنڈ ریزنگ کے ضمن میں جزوی طور پر اس کے مہمان رہ چکے ہیں۔
ہماری قوم کے افراد انفرادی سطح پر خدمت خلق کے کاموں میں جس جوش و خروش اور جذبے سے حصہ لیتے ہیں وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بالخصوص بیرون وطن مقیم پاکستانی چاہے وہ مزدور ہوں، درمیانی آمدنی والے یا معاشی طور پر بہت خوشحال لوگ، سب کے سب ہی اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے چھوڑے ہوئے وطن اور اس کے لوگوں اور اداروں کی بہتری اور ترقی کے لیے دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔
ان کی اس پرخلوص محبت اور حب الوطنی کے جذبے سے کچھ ''کاریگر'' لوگ ناجائز فائدہ بھی اٹھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے کبھی کبھار ایک بے اعتمادی کی سی صورت حال بھی پیدا ہو جاتی ہے مگر عمومی طور پر یہ ہر اس کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں جس کے کرنے والوں کی Credibility مشکوک نہ ہو بالخصوص تعلیم کے فروغ کے حوالے سے یہ زیادہ پیش پیش رہتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ ''ٹاٹین'' یعنی ٹاٹ اسکولوں یا کم سہولت والے تعلیمی اداروں کے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں جب سے میں نے اس چیریٹی کی مہمات میں حصہ لینا شروع کیا ہے میرے دل میں بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کی عزت اور ان کی اپنے وطن سے محبت کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے تقریباً چھ برسوں میں انور مسعود اور میں نے وطن عزیز میں تعلیم کے فروغ اور بالخصوص غریب، بے وسیلہ، حاجت مند مگر ذہین بچوں کو تعلیمی اخراجات مہیا کرنے کے سلسلے میں امریکا، برطانیہ، اسپین، اٹلی اور ناروے کے دورے کیے ہیں۔
پروگراموں کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ پہلے ہم دونوں باری باری کلام سناتے ہیں اور اس کے بعد متعلقہ ادارے کے نمایندے اپنی آمد کا مقصد اور اپنی اب تک کی کارکردگی سے حاضرین کو آگاہ کرتے ہیں۔ چونکہ مقامی منتظمین پہلے سے حاضرین اور سامعین کو ذہنی طور پر تیار کر چکے ہوتے ہیں اس لیے شاعری سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اس کارخیر میں بھی دل کھول کر حصہ لیتے ہیں اور یوں اس مشترکہ کاوش سے ہزاروں بچے اسکول سے لے کر اعلیٰ درجے کی پروفیشنل تعلیم کے مراحل آسانی سے طے کر لیتے ہیں۔
بظاہر مجمع اکٹھا کرنے کے لیے شاعری کا یہ استعمال کچھ اچھا نہیں لگتا مگر جب نگاہ اس کے نتائج اور اس کے ذریعے ہونے والی خلق خدا کی بہتری کی طرف جاتی ہے تو کہیں اندر سے ''شاباش'' کی ایک ایسی آواز آتی ہے جو سارے وسوسوں اور اعتراضات کو ایک پل میں تحلیل کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ سرسید احمد خان جب علی گڑھ کالج کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم کے دوران پنجاب کے دورے کا پروگرام بنا رہے تھے تو کسی نے ان سے کہا کہ پنجاب میں دولت صرف چند جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے پاس ہے اور وہ لوگ صرف طوائفوں کے مجرے پر ہی جیب ڈھیلی کرتے ہیں۔ اس پر سرسید نے کہا کہ اگر یہی شرط ہے تو میں غریب مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے پیروں میں گھنگھرو بھی باندھنے کو تیار ہوں۔
ہمارا جذبہ سرسید جیسا عظیم اور غیرمعمولی نہ سہی لیکن قوم اور خدمت خلق کے کاموں میں جس قدر توفیق ہمیں مہیا ہے ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اس کی ناشکری نہ کریں اور حسب مقدور اس کام میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔ بلاشبہ الخدمت کے میاں عبدالشکور اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے برادران وقاص جعفری، عامر جعفری اور ڈاکٹر اشتیاق گوندل جیسے بہت سے اور اہل دل بھی اپنی اپنی سطح پر اس کام میں مصروف ہیں اور انشاء اللہ ان کے ساتھ اور بعد میں اور لوگ بھی آتے رہیں گے کہ رب کریم کی طرف سے ہر خیر کے کام کے لیے خودبخود دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔
اس بار نیویارک میں برادر عزیز شوکت فہمی اور برادرم کیپٹن خالد شارمین بٹ کا ساتھ نہیں ہو گا کہ شوکت مستقل طور پر اور کیپٹن شارمین عارضی طور پر ان دنوں پاکستان آ چکے ہیں۔ یوں بھی ہمیں بارہ دنوں میں سات تقریبات میں حصہ لینا ہے جو بالترتیب نیوجرسی، اٹلانٹا، ساؤتھ فلوریڈا، ساؤتھ کیلے فورنیا، کولمبس اوہائیو، کنیکٹی کٹ اور شکاگو میں ہوں گی۔ اطلاعات کے مطابق ان میں سینٹ لوئیس اور ''اپنا'' والوں کی ایک خصوصی تقریب کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
اب جو لوگ امریکا کے نقشے سے کسی حد تک واقفیت رکھتے ہیں وہ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں کس طرح مسلسل سفر میں رہنا پڑے گا اور کئی شہروں میں تو قیام صرف چند گھنٹوں کا ہو گا۔ کوشش ہے کہ برادرم عرفان صوفی کے پاس ''شکاگو'' میں کچھ وقت نکل سکے۔ امید ہے کہ برادرم شیخ وارث سمیت کچھ اور دوست بھی وہیں جمع ہو جائیں گے تا کہ سانس ٹھیک کرنے کا موقع بھی مل سکے۔ انشاء اللہ اور حسب روایت اس سفر کے مشاہدات بھی ساتھ ساتھ آپ سے شیئر ہوتے رہیں گے۔