ایک زندگی آموز دن
ان سترہ دنوں سے پہلے کے اٹھارہ اور بعد کے اکیاون برسوں کی فوجی قومی اور سیاسی کارکردگی پر بہت سی باتیں ہو سکتی ہیں
شب و روز مہ و سال کے اس بے انت سمندر میں دن تو کیا بعض اوقات پوری پوری صدیاں بھی چشم زدن میں آنکھ اور دھیان سے اوجھل ہو جاتی ہیں مگر اس کے باوجود افراد اور معاشروں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ضرور ہوتے ہیں جو سفرحیات کے ایک طرح سے سنگ میل بن جاتے ہیں۔
ہماری قومی تاریخ میں 6 ستمبر 1965ء کا دن بھی ایک ایسا ہی سنگ میل ہے جس نے 14 اگست 1947ء کے بعد پہلی بار پوری قوم کو ایک ہجوم سے کارواں بنتے دیکھا کہ ایک طرف ''اے وطن پیارے وطن''۔ ''چاند میری زمیں پھول میرا وطن'' اور ''پاکستان کے سارے شیرو زندہ رہو تابندہ رہو'' جیسے بے شمار روح پرور نغمے فضاؤں میں گونج رہے تھے اور دوسری طرف رنگ، نسل، عمر، جنس، تعلیم، ذات برادری اور امیر غریب کی تفریق کو بھول کر ساری قوم دشمن کے سامنے ایک آہنی دیوار کی شکل میں ڈھل رہی تھی لیکن دیکھا جائے تو اس منظر کی جان وہ پاکستانی فوج تھی جس نے ہر محاذ پر جرأت بہادری اور قربانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں اور ''اے وطن کے سجیلے جوانو'' ''اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو'' اور ''ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے'' جیسے لافانی قومی گیتوں کا موضوع یہ نہیں کہ جنگ کس نے شروع کی اور سترہ دنوں کی اس پیکار کا فاتح کون اور کیسے تھا؟
دیکھنے والی اصل بات یہ ہے کہ ہماری فوج نے تعداد میں دشمن سے کئی گنا کم ہونے کے باوجود اپنی سرحدوں کا دفاع کیسے کیا! ان سترہ دنوں کی اس پیکار کا فاتح کون اور کیسے تھا؟ ان سترہ دنوں سے پہلے کے اٹھارہ اور بعد کے اکیاون برسوں کی فوجی قومی اور سیاسی کارکردگی پر بہت سی باتیں ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں اور ان کے ضمن میں بہت زیادہ اختلاف بھی پایا جاتا ہے مگر یہ امر اپنی جگہ پر ایک بین حقیت ہے کہ اس جنگ کے دوران پاکستان کی برّی، بحری اور فضائیہ افواج نے بہت ہی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
ایک طویل عرصے تک اس دن کو یوم دفاع پاکستان کہا جاتا تھا اور اس روز سرکاری تعطیل بھی ہوا کرتی تھی پھر اسے یوم شہدائے پاکستان کا نام دیا گیا لیکن نہ صرف تعطیل ختم کر دی گئی بلکہ اس سے منسلک جوش و خروش بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر کم سے کم ہوتا چلا گیا اور یوں یہ دن بھی ایک عام سا دن بنتا چلا گیا یہاں تک کہ نئی نسل کی درسی کتابوں اور اس کے حافظے سے بھی اس کی اہمیت محو ہونا شروع ہوگئی بلاشبہ امن بہت اچھی چیز ہے اور ہر ذی شعور کو اس کی حفاظت اور قیام کے لیے کوشش کرنی چاہیے مگر یاد رہے کہ امن کبھی غیر مشروط نہیں ہوتا اس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی تاریخ اور نصب العین کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے سب کی عزت نفس اور ایک خاص حد تک برابری کے حقوق کا احترام کیے بغیر دیرپا تو کیا عارضی امن بھی قائم نہیں ہو سکتا۔
6 ستمبر 1965ء کو ہم جس آزمائش سے گزرے تھے اس کی روح سے روگردانی کر کے ہم کبھی بھی اپنے ''آج'' اور ''آنے والے کل'' کو بہتر او خوش آیند نہیں بنا سکتے۔ امن کے قیام کے لیے کئی طرح کی قربانی دی جا سکتی ہے مگر قومی وقار کی پامالی، جارحیت، دھونس اور بے انصافی کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں اور یہی وہ پیغام تھا جو پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اپنی تقریریں ان تمام قوتوں کو نام لے کر دیا جو مختلف حوالوں سے ہمیں اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں۔
اتفاق سے مجھے گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی ان کی تقریر کو براہ راست اور سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا کر اس کے لیے آئی ایس پی آر نے مجھ سمیت انضمام الحق (کرکٹ)، ریحان بٹ (ہاکی) اور محمد وسیم (باکسنگ) کو خاص طور پر مدعو کیا تھا۔ وینیو اور پروگرام کا فارمیٹ اس بار بھی گزشتہ برس جیسے ہی تھے آغاز اور اختتام کی ذمے داری ٹی وی کے سینئر اور نامور ادا اور صداکاروں عابد علی اور فردوس جمال نے نبھائی جب کہ بقیہ اناؤنسمنٹس نوجوان فن کار فہد مصطفی اور اس کی ساتھی خاتون نے کیں۔
قومی دفاع اور ضرب عضب کے حوالے سے چند خاص طور پر تیاری کی گئی ڈاکیومنٹری فلمیں اور کچھ موضوعاتی نغمے وژیولز کے ساتھ پیش کیے گئے جب کہ گلوکاروں میں راحت فتح علی خاں، ساحر علی بگا، عاطف اسلم، حدیقہ کیانی اور علی ظفر شامل تھے۔ شاعرانہ کلام اور نثری اسکرپٹ آرمی کے ان ہاؤس نوجوان شاعر میجر عمران کے تحریر کردہ تھے جنھیں گوارا کیا جا سکتا تھا لیکن گائیکی کا عمومی معیار خاصا بہتر اور تسلی بخش تھا۔
البتہ شو کی سب سے عمدہ اور ہٹ آئٹم جنرل راحیل شریف کی تقریر ہی تھی کہ جو فوجی کم اور سیاسی زیادہ تھی عام اور روایتی آداب کے اعتبار سے شاید یہ بات کسی حد تک قابل اعتراض ہو کہ فوجی جرنیل کو ایسے موضوعات پر اظہار خیال نہیں کرنا چاہیے تھا کہ جس کا حق صرف سیاسی قیادت کو پہنچتا ہے۔ مگر اس کے جواب میں جو دلیل کثرت اور تواتر سے سنائی دی وہ یہی تھی کہ جب سیاسی قیادت اپنے حصے کا وہ بیان نہیں دے گی جس کا تعلق ملک کے دفاع، سالمیت، خارجہ پالیسی اور عزت نفس سے ہے تو پھر کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔
جنرل راحیل شریف فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد غالباً واحد ایسے کمانڈر انچیف ہیں جن کی وضع قطع، انداز اور آواز میں وہ اعتماد اور گھن گرج دکھائی اور سنائی دیتے ہیں جن سے قوم کے اعتماد کا گراف واضح طور پر بلند ہوتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی آواز میں اعتماد کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کی گونج اور گریس ہے جو کانوں اور دلوں کی بیک وقت اچھی لگتی ہے۔
تقریب کے اختتام پر وہ حسب سابق پروگرام میں شریک فن کاروں اور ہم چاروں خصوصی مہمانوں سے ملنے کے لیے اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ بیک اسٹیج ایک طے شدہ جگہ پر تشریف لائے سب سے فرداً فرداً ملے، کھل کر باتیں کیں، تصویریں بنوائیں اور سووینئرز تقسیم کیے۔ آئی ایس پی آر کے افسران اپنے لیڈر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ سمیت مہمانوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے ہم چاروں کا گروپ لیفٹیننٹ کرنل ضامن عباس نقوی اور میجر عمران کے سپرد تھا۔ جنھوں نے ہر ہر موقعے پر اپنے فرض کو خوب نبھایا آخری آئٹم جنرل باجوہ کی طرف سے دیا گیا ڈنر تھا جس کا اہتمام آئی ایس پی آر کے نئے دفتر میں کیا گیا تھا۔ وہاں تصویروں اور سیلفیوں کا دور بھی خوب چلا۔
اگلا دن ٹرکش ایمبیسی سے ویزا لگوانے، اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو سے ملنے اور اس کے بچوں سے ملنے ملانے میں گزر گیا۔ شام کو ایئرپورٹ پر سلیم بخاری، ہارون رشید، حبیب اکرم اور ان کے ساتھی صحافیوں سے ملاقات رہی جو کوئٹہ سے کوئی میٹنگ اٹینڈ کر کے آ رہے تھے جب کہ جہاز میں میری اور برادرم اعتراز احسن کی سیٹیں ساتھ ساتھ تھیں سو بہت دنوں بعد ان سے بھی طویل اور مسلسل گفتگو کا موقع ملا جو ہمیشہ کی طرح بہت پرلطف تھا مگر اس کا حاصل وہ جملہ تھا جو بقول ان کے ن لیگ کے ایک وزیر نے میاں نواز شریف کی تعریف میں کچھ اس طرح سے کہا کہ
''میاں صاحب آپ کی اس بات پر تو آج سچ مچ دل سے خوشامد کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔''