عید آئی لیکن میری کہاں ہے

عید قربان کے دن کشمیریوں کی قربانیوں کو یاد رکھیں جنہوں نے پاکستان کے پرچم کی سربلندی کیلئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں


کس نے کہا کہ کشمیری عید پر گائے ذبح نہیں کریں گے؟ ہم اگر پاکستانی پرچم چوکوں اور چوراہوں پر سربلند کرسکتے ہیں تو ہم انہی چوراہوں پر گائے کی قربانی بھی کریں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

عید قربان کے موقع پر مجھے عیدالفطر کے بعد سے کشمیر میں ہونے والے مظالم بار بار یاد آرہے ہیں۔ کرفیو زدہ علاقے، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت، بولنے پر پابندی، ٹیلی فون، بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش۔ ایک جانب جعلی فوجی مقابلوں میں درجنوں کشمیری نوجوانوں کی شہادت تو دوسری جانب پیلٹ گنوں سے کشمیری بچوں، نوجوانوں، بزرگوں اور عورتوں کو بینائی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ رہنماء یا تو نظر بند ہیں یا پھر جیلوں میں قید ہیں۔

اس عید پر سوچا کہ کیوں نہ اہل کشمیر سے ان کی عید کی تیاریوں کے بارے میں معلوم کروں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے اپنے رابطے میں موجود افراد سے رابطہ کیا مگر وہاں انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے اکثر سے رابطہ نہ ہوسکا۔ سری نگر، اسلام آباد، اوڑی اور دیگر شہروں میں موجود رشتہ داروں سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطے کی کوشش کی مگر ٹیلی فون کی بندش کے باعث ان سے بھی رابطہ نہیں ہوسکا۔ لیکن ہمارے ایک دوست حمید بخاری کا خاندان جو اس ظلم و ستم اور فاقوں سے تنگ آکر دہلی تک پہنچا ان سے بالاآخر رابطہ ہوگیا۔



عید کے حوالے سے جب ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ کشمیر میں تو نماز جمعہ ادا نہیں کی جاتی، عید کی نماز کی کا تصور کیسا؟ بچے اسکول نہیں جا پاتے، تاجر اپنے کاروبار کے لئے بازار نہیں کھول سکتے تو عید کی رونق اور تیاری پر بات کیا کرنی۔ کچھ ایسی ہی کہانی سری نگر سے ایک دوست عقیل بٹ نے سنائی۔ ان کے مطابق3 سو سے زائد افراد لاٹھی چارج اور پیلٹ گنوں کی وجہ سے زخمی ہیں۔ عید قربان منانے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بھارتی افواج نے نماز اور قربانی پر پابندی لگانے کے لئے کرفیو اور گھر گھر تلاشی کا ہتھیار استعمال کرنا ہے۔ عید کے روز کشمیر میں قائم اقوام متحدہ کی جانب سے مارچ کا اعلان بھی کیا گیا ہے، اسی لئے ہندوستان عید پر کشمیر میں طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے انسانی جذبات کو کچلنے کی کوشش کرے گا۔



ہندوستان نے کشمیر میں گزشتہ سال سے ہی گائے اور بھینس کی قربانی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ پابندی ستمبر 2015ء میں جموں وکشمیر ڈویژنل بینچ کے جج جسٹس دہراج سنگھ ٹھاکر اور جسٹس جاناک راج کوتوال نے ایڈووکیٹ پاریموکش سیتھ کی درخواست پر لگائی، اور عدالت نے یہ حکم بھی سنایا کہ پولیس اور فوجی انتظامیہ کو اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کڑی سزا دینے اور پابندی پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس پابندی کے خلاف کشمیر میں خونی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ یہی وہ دن تھے حریت رہنما آسیہ اندرابی نے گائے ذبح کرکے اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر کے ہندوستانی افواج اور حکومت کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ ایسے کسی بھی فیصلے کو نہیں مانتی۔

کشمیر میں گائے کے گوشت کو بڈماز کہا جاتا ہے۔ اسی بڈماز سے کشمیر کا روایتی پکوان ''گشتابہ'' تیار کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں گائے کی قربانی پر پابندی کی روایت نئی نہیں ہے، بلکہ ہمارے بزرگوں کے قصے بھی اس حوالے سے انتہائی دلچسپ اور دلیرانہ ہیں مگر مضمون کی طوالت کے باعث قصے پھر سہی۔ البتہ یہ بات آپ کو حیران کردے گی کہ کشمیر میں گائے کے گوشت کی خرید و فروخت اور گائے کے ذبح کرنے پر پابندی 1928ء سے لگائی گئی ہے۔

کشمیر میں رائج ڈوگرہ شاہی کے دوران مہاراجہ رنبیر سنگھ کے بنائے گئے رنبیر پینل کوڈ کے سیکشن 298 کے مطابق کشمیر میں گائے اور بھینس کا گوشت ممنوع ہے۔ ڈوگرہ شاہی کے خاتمے کے بعد بھی ہندوستانی سرکار نے اس پابندی کو قائم رکھا ہوا ہے اور گزشتہ سال عدالت نے بھی ڈوگرہ شاہی کے حکم کو ہی بنیاد بنا کر گائے کے گوشت پر پابندی لگا دی تھی۔ ویسے تو ہندو خود کو سبزی خور کہتے ہیں لیکن ان رپورٹس کا کیا کریں جو بتاتی ہیں کہ بھارت دنیا بھر میں گوشت برآمد کرنے میں پہلے نمبر پر ہے۔ کیا یہ منافقت نہیں کہ بھارت تو اس جانور کو مالی مفاد کے لیے دنیا بھر میں بیچے، لیکن مسلمانوں کو صرف اس لئے روکے کہ یہ اُن کے مذہب کا معاملہ ہے؟



بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے منسلک ایک صحافی نے سری نگر سے بتایا کہ قربانی پر پابندی کے بعد یوں لگ رہا کہ ہندوستان کشمیریوں کو مزید دبا نہیں سکتا۔ شاید ہندوستان اس بات سے لاعلم ہے یا سب اچھا ہے کا راگ الاپنے والوں کی آنکھیں اور کان بند ہیں کہ انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ گلوبل ویلج کے اس دور میں کسی کو محکوم بنانا ممکن نہیں رہا۔ کشمیر کا درد اور ہندوستان کے مظالم سے پل بھر میں دنیا باخبر ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صحافی نے مقبوضہ کشمیر میں صحافت کے حوالے سے خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اگر ایک خبر بھی ہندوستان کے خلاف دے دیں تو پوری وادی میں اخبار یا چینل بند کردیا جاتا ہے۔

ایک اور نوجوان طالب علم نثار احمد لون نے بتایا کہ کشمیر کے ضلع اسلام آباد میں روزانہ 2 سو کے قریب افراد زخمی ہو رہے ہیں۔ غذائی اشیاء کی قلت کا یہ عالم ہے کہ امیر سے امیر ترین لوگ بھی ایک وقت کا کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ نثار کے والد اسلام آباد کے ایک بہت بڑے تاجر ہیں۔ نثار کے توسط سے ان سے گفتگو ہوئی تو موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ کا روزانہ کتنا نقصان ہو رہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ صرف اسلام آباد کے تاجر روزانہ کی بنیاد پر 40 کروڑ سے زائد کا نقصان کر رہے ہیں۔ میں نے فوری پوچھا کہ آپ نہیں چاہتے کہ یہ ہڑتالیں ختم ہوں، مظاہرے ختم ہوں اور آپ دوبارہ سے کاروبار جما سکیں؟ ایک طویل خاموش کے بعد وہ گویا ہوئے تو ان کی آواز سے درد جھانک رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سسکیاں لے لے کر رو رہے ہیں۔ ہمارے بیٹے ہماری آنکھوں کے سامنے شہید کئے جارہے ہیں، پیلٹ گنیں ہمارے پیاروں کو آنکھوں کی بینائی اور چہرے کی خوبصورتی سے محروم کررہی ہیں، ہمیں کاروبار جمانے سے زیادہ اپنی جانوں اور آنکھوں کی قربانی دینے والوں کے لئے آزادی کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنا ہے۔ ہم نے اپنے بیٹوں کی قربانیاں کاروبار کے لئے نہیں دیں، ہماری منزل آزادی ہے اور آزادی قربانیاں مانگتی ہے۔ جان کی قربانیاں، مال کی قربانیاں، عزت و آبرو کی قربانیاں، ہم نے یہ تمام قربانیاں دی ہیں اور اب آزادی کی منزل زیادہ دور نہیں۔



بزرگ کی باتیں سینے کو چھلنی کر رہی تھیں۔ میں نے جذباتی ماحول کو کم کرنے کے لئے گفتگو کا رخ موڑنے کا فیصلہ کیا اور ان سے پوچھا انکل عید پر تو 'بڈماز' نہیں ہوگا پھر 'گشتابوں' کے بناء آپ کے دستر خوان کی رونقیں کیوں کر ہوں گی؟ میرا خیال تھا کہ ہماری طرح یہ کشمیری بزرگ بھی مایوسی کا مظاہرہ کرے گا۔ ہندوستانی افواج اور حکومت کو صلواتیں سنائے گا مگر میرے اس سوال پر وہ کافی طیش میں آگئے۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ تمھیں کس نے کہا ہم عید پر گائے ذبح نہیں کریں گے؟ ہم اگر پاکستانی پرچم چوکوں اور چوراہوں پر سر بلند کرسکتے ہیں تو ہم انہی چوراہوں پر گائے کی قربانی بھی کریں گے۔ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں اور عید پر گائے کی قربانی کرکے بھارتی فوج اور مودی سرکار کو یہ پیغام دیں گے کہ ان کی پابندیاں ہمارے راستے کو نہیں روک سکتیں اور نہ ہی ہمارے پاؤں کی زنجیر بن سکتی ہیں۔ وہ مزید گویا ہوئے کہ عید کی نماز بھی ہر سال کی طرح یادگار انداز میں پڑھیں گے۔



قارئین جذبہ آزادی سے سرشار کشمیری عوام کے جذبات اور پاکستان سے محبت کا جواب تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔ عید قربان کے اس مقدس دن ان کشمیریوں کی قربانیوں کو یاد کریں جنہوں نے پاکستان کے پرچم کی سربلندی کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ ان کشمیری بیٹیوں کو سلام پیش کریں جن کے سہاگ اس پرچم کو تھامنے کے لئے قربان ہوگئے۔ پاکستان کے لئے اپنی جوانیاں لٹا دیں، کشمیری پاکستان کی تکمیل کے لئے اپنے خون سے دئیے جلا رہے ہیں، ان دیوں کی روشنیوں کو مدہم نہ ہونے دیں اور اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ان پر روا رکھے جانے والے مظالم کو پوری دنیا کے سامنے لائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں