کراچی کرنے کے کام

کراچی شہر میں تفریح گاہوں اور پارکس و کھلے میدانوں کی شدید کمی ہے


Dr Naveed Iqbal Ansari September 04, 2016
[email protected]

لوگ کہتے ہیں کہ اگست کے مہینے میں کراچی یا سندھ کی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے لیکن راقم کا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس روز وہ بنیاد رکھ دی گئی ہے کہ جو خدانخواستہ مستقبل میں صرف کراچی یا سندھ کا ہی نہیں بلکہ اس ملک کا نقشہ بھی بدل سکتی ہے اور اگر خدا نہ کرے کبھی کوئی ایسا وقت آتا ہے تو اس کے قصوروار وہ قوتیں اور لوگ بھی ہوں گے جو اس وقت سو فیصد محب وطن کا کردار ادا کر رہے ہیں، چنانچہ میں بحثیت ایک کالم نگار اور شہری اس طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ اب اس شہر کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے ورنہ خدشہ موجود ہے کہ یہی مسائل کسی نئی سیاست کا پیش خیمہ نہ بن جائیں۔

کراچی شہر میں تفریح گاہوں اور پارکس و کھلے میدانوں کی شدید کمی ہے جس کی وجہ ان پر ناجائز تجاوزات اور پلاٹوں کی بندربانٹ ہے۔ حال ہی میں ایک تنظیم کے دفاتر بڑی تعداد میں گرائے جا رہے ہیں، اگر یہ جگہیں پارکس یا میدانوں کے لیے مختص تھیں تو ان پر فوراً پارکس کی سہولیات فراہم کرنی چاہیے، اور اگر کسی دفتر کی قانونی حیثیت تھی تو اس پر معذرت بھی کھلے دل سے کرلینا چاہیے، کیونکہ یہ ایک بڑا حساس مسئلہ ہے۔ واضح رہے کہ کثیر آبادی والے اس شہر میں اب کھلے میدان اور پارکس تقریباً ختم ہی ہوچکے ہیں، جو چند ہیں تو ان میں جھولے وغیرہ لگا کر کمرشل بنادیا گیا ہے۔

جس سے عوام کے تفریح کے مواقع کم ہوگئے ہیں۔ اسکولز اور کالجز میں بھی میدان دستیاب نہیں ہوتے لہٰذا بچوں اور نوجوانوں کی صحت مندانہ سرگرمیاں ختم ہوگئی ہیں اور عموماً یہ نسل کسی ڈبو (کیرم بورڈ) یا اسنوکر اور چائے کے ہوٹلوں پر وقت گزارتی نظر آتی ہے کہ جہاں غلط صحبت اور جرائم کے پنپنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ لائبریریاں تو شہر میں ہے ہی نہیں۔ تعلیمی اداروں اور گھروں میں صاف ستھری فضا میسر نہیں ہوتی، عوام کی اکثریت گرمی اور لوڈشیڈنگ میں گھر کے قریب کسی ایسے پارک کی سہولت بھی نہیں رکھتی جہاں وہ کچھ دیر سکون کا سانس لے سکے۔

دوسرا ایک اہم ترین مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا کے آگے ہمارے حکمران اور ادارے دونوں بے بس ہوجاتے ہیں۔ سرکلر ریلوے منصوبہ بار بار اعلان کے باوجود سردخانے کی نذر ہے۔ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ شہریوں کا یہ اہم ترین مسئلہ ہے اور اس کی وجہ سے شہر میں لسانی فسادات بھی ہوتے رہے ہیں، کیونکہ ایک خاص زبان کے بولنے والے یہ کاروبار کرتے نظر آتے ہیں، دوسری طرف مسافروں کی اکثریت کسی اور زبان سے تعلق رکھتی ہے، چنانچہ مسافروں کی شکایتیں اکثر لسانی فساد کا باعث بنی ہیں۔ ماضی میں مہاجر، پختون فسادات کا آغاز بھی ایک ٹریفک حادثے سے شروع ہوا تھا، جس میں بشریٰ زیدی نامی لڑکی ہلاک ہوئی تھی۔ آج بھی کسی منی بس میں سفر کرکے دیکھ لیں، مسافر اور کنڈیکٹر میں کہیں نہ کہیں تلخ کلامی ہوتی ضرور نظر آئے گی، کیونکہ مسافروں کو ٹرانسپورٹ میں کوئی سہولت میسر نہیں ہے اور وہ صبح و شام جانوروں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ مافیا کے جن کو قابو کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔ جب تک شہریوں کو اس ضمن میں مستقل بنیادوں پر سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں، یہ مسئلہ شہر میں لسانی فسادات میں یا نفرتوں میں اضافے کا باعث ہی رہے گا۔

آج کل گجر نالے کے کنارے پر قائم گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے، ان میں بھی کچھ شکایات شہریوں کی بجا ہیں لیکن اس سب کا فائدہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے کہ جب اعلان کے مطابق یہاں دونوں کناروں پر سڑکیں بنا دی جائیں تاکہ دوبارہ تجاوزات نظر نہ آئیں۔ راقم کی تجویز ہے کہ ان کناروں پر صرف موٹر سائیکلوں کے گزرنے کے لیے سڑکیں بنائی جائیں، ورنہ بڑی گاڑیوں سے یہاں کے رہنے والے شور اور ٹریفک کی آلودگی سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ (اگر صرف سائیکلوں کے لیے ٹریک بنادیا جائے تو بھی بہت اچھا منصوبہ ہوسکتا ہے)۔

پانی اور بجلی کے مسائل بھی ترجیحی بنیادوں پر حل ہونے چاہئیں، خاص کر ٹینکر مافیا کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ عجیب شہر ہے کہ یہاں کے باسی صبح فجر سے ہی ٹینکر کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں، یعنی اپنا ہی پانی بجائے گھر کی لائن سے موصول کرنے کے الگ سے پیسہ دے کر گھنٹوں قطار میں لگنے کے بعد پانی حاصل کر رہے ہیں۔ یہ کون سی صدی میں رہ رہے ہیں ہم لوگ؟ اسی طرح منتخب بلدیاتی نمایندوں کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے کیونکہ شہر گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے اور عوام میں یہ تاثر ہے کہ عوامی نمایندوں کو کھل کر کام کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ یہ تاثر ختم کرنا چاہیے۔

ایک اور اہم مسئلہ سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والوں کا وقت پر تنخواہیں نہ ملنا ہے، بعض ادارے نصف ماہ گزرنے کے بعد اور بعض تو کئی کئی ماہ بعد تنخواہ دیتے ہیں، جس میں صرف پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین ہی نہیں، تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ یہ بھی تاثر ہے کہ ایک تنظیم کے دور میں تعلیمی اداروں اور بلدیاتی اداروں میں بھرتی کیے گئے ملازمین کو خاص طور پر نشانہ بنایہ جارہا ہے اور یا تو ان کی ملازمتیں ختم کی جا رہی ہیں یا تنخواہیں وقت پر نہیں دی جارہی ہیں۔ گھوسٹ یا ڈبل ملازمت کرنے والوں کے خلاف تو ضرور کارروائی ہونی چاہیے لیکن باقی عام لوگوں کے ساتھ یہ رویہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اس کے بہت برے نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔

اس پر خاص نظرثانی کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف جامعہ کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کے پروفیسروں اور ڈاکٹروں کو بھی اپنی تنخواہوں اور جائز مراعات کے لیے سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا پڑرہا ہے۔ حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ وہ سندھ کی تمام جامعات کو ایک ہی جیسی گرانٹ دے رہے ہیں جب کہ ان کی ضروریات مختلف ہیں، مثلاً جامعہ سندھ مدرسۃ الاسلام کو جتنی گرانٹ دی جاتی ہے اتنی ہی ملک کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی کو بھی دی جاتی ہے، باوجود اس حقیقت کے کہ جامعہ سندھ مدرسہ میں چند ایک ہزار طلبا ہیں اور جامعہ کراچی سے منسلک ریگولر اور پرائیوٹ طلبا کی تعداد لگ بھگ پچاس ہزار پہنچ گئی ہے۔ وفاقی اور خاص کر سندھ حکومت کا جامعہ کراچی سے یہ ناروا سلوک بھی سندھ میں لسانی سیاست کرنے والوں کو ایک اچھی فضا فراہم کرتا ہے۔

حال ہی میں ایک اعلیٰ سطح کے سرکاری اجلاس میں رینجرز کی جانب سے سندھ میں کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی تجویز دی گئی تاکہ سندھ میں لسانی سطح پر سیاست کے مواقعوں کو کم سے کم کیا جائے۔ کوٹہ سسٹم کی طرح حیدرآباد سندھ میں ایک عدد جامعہ کا قیام بھی حیدرآباد کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ ایم کیو ایم کوٹہ سسٹم کی طرح یہ مسئلہ بھی حل کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اگر رینجرز کوٹہ سسٹم پر بات کرکے سندھ کے شہری علاقوں میں یہ تاثر دینا چاہ رہی ہے کہ وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتی ہے یا وہ لسانی سیاست کے مواقعے کم کرنا چاہتی ہے تو ان کے اس تاثر کو یہ مسئلہ بھی بہتر کرسکتا ہے۔ ایک سیاست دان کا بیان ہے کہ اب اردو بولنے والوں کو قومی سطح کی جماعتوں میں بھی شمولیت اختیار کرنی چاہیے۔ یہ ایک اچھا مشورہ ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب وہ باآواز بلند یہ کہیں کہ ہم مہاجروں کے مسائل حل کروائیں گے۔

تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قومی جماعتیں لفظ اردو بولنے والے تو استعمال کرتی ہیں مگر لفظ مہاجر زبان سے ادا کرنے کو تیار نہیں، جب کہ اردو بولنے والوں کی اکثریت اپنے لیے لفظ مہاجر کو مقدس اور صحیح شناخت تصور کرتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں بھی جو رہنما مہاجروں سے ووٹ مانگنے آئے انھوں نے ایک سانس میں حدیث سنائی کہ مہاجر وہ ہوتا ہے جو گناہوں سے توبہ کرکے ہجرت کرلے، اور دوسری سانس میں کہا اردو بولنے والے ہمیں ووٹ دیں۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ جس کے وجود سے ہی آپ انکار کردیں، وہ بھلا آپ کو اپنا ہمدرد کیوں جانے گا؟ آئیے ٹھنڈے دل سے غور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔