سڈل کمیشن ارسلان افتخارکوبچانے پر تلا ہے ملک ریاض

کمیشن نے کبھی ارسلان سے یہ پوچھا کہ45لاکھ اخراجات والی رقم اسکے پاس کہاں سے آئی


Press Release December 07, 2012
اپنی رپورٹ میں کمیشن نے بددیانتی کے تحت بحریہ ٹائون کے فلاحی منصوبوں پر تنقید کی، بیان۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

ISLAMABAD: بحریہ ٹائون کے سابق چیئرمین ملک ریاض نے کہا ہے کہ شعیب سڈل کمیشن نے ارسلان افتخارکو ابھی صرف ایک دورے کے45 لاکھ روپے کے اخراجات کا حوالہ دیا ہے تاہم اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی اس حوالے سے حقائق کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

ان کے باقی دوروں کو منظرعام پر کیوں نہیں لایا گیا جن پر مبینہ طور پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے، ارسلان افتخار کی فیملی کو نہ صرف شاپنگ کرائی گئی بلکہ وہاں کے بہترین اپارٹمنٹ اور ہوٹلوں میں ان کی سکونت کا بندوبست کیا گیا جس کے بارے میں مکمل ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے لیکن ڈاکٹر شعیب سڈل جن کے ارسلان افتخار کی فیملی کے ساتھ مبینہ قریبی مراسم ہیں کو دانستہ طور پر معاملے کی تحقیقات سونپی تاکہ حقائق مسخ کیے جاسکیں۔

انھوں نے الزام لگایا کہ ارسلان افتخار مجھے اور میرے داماد کو بلیک میل کرکے بھتہ وصول کرچکے ہیں۔ کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی رپورٹ بے بنیاد ہے۔ اس میں بہت سے فلاحی منصوبوں کو بلاجواز ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں ملک ریاض نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ میں شعیب سڈل کو اسی مقصد کیلیے لگایا گیا تاکہ ارسلان افتخار کو بچایا جائے ۔

انھوں نے کہا کہ رپورٹ اور میڈیا میں جو کچھ شائع ہوا ہے کہ ڈاکٹر ارسلان نے45لاکھ روپے اپنے لندن کے دورے میں خرچ کیے ہیں جبکہ ان کے دیگر بیرون ملک دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے جن کی رسیدوں اور کریڈٹ کارڈ سمیت تمام مبینہ ثبوت ہم نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے لیکن شعیب سڈل کمیشن نے ان ثبوتوں کی لندن میں تصدیق کرائی نہ ارسلان افتخار سے اس بارے میں پوچھا۔ اس لیے شعیب سڈل کمیشن اور عدالت سے مجھے انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں چنانچہ ہم نے انصاف کے حصول کیلیے لندن کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ملک ریاض نے الزام لگایا کہ شعیب سڈل کمیشن ارسلان افتخار کیس کے گواہوں کو ڈرا دھمکا رہا ہے، انھیں نہ صرف پاکستان آنے سے روکنے کیلیے دھمکیاں دی جارہی ہیں بلکہ یہاں پر موجود گواہوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے علاوہ ان کا ٹیکس ریکارڈ اور ذاتی جائیداد کا ریکارڈ مانگنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شعیب سڈل کی حالیہ رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ ارسلان افتخار نے خود اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ اس کی کمپنی نے ڈیڑھ سے دو سال کے عرصے میں90 کروڑ روپے بنائے اور اب سڈل کمیشن یہ کہتا ہے کہ بینک اکائونٹ میں اس کی اتنی بڑی کوئی رقم نہیں، یہ کمیشن ارسلان افتخار کی بلیک منی کو بھی کلین چٹ دینا چاہتا ہے، کیا اس کمیشن نے کبھی ارسلان افتخار سے یہ پوچھا کہ یہ45لاکھ کہاں سے آیا؟۔

05

اس کے وسائل کون سے تھے اور اتنی بڑی رقم ایک ساتھ کیسے لائی گئی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب درکار ہیں لیکن یہ کمیشن ارسلان افتخار کو مکمل طور پر معصوم اور بے گناہ قرار دینے پر تلا ہوا ہے، ملک ریاض نے کہا کہ وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے لیکن کمیشن کا ان کے ساتھ سلوک تھانے اور تھانیدار جیسا تھا، ارکان کے سوالات ایسے تھے جیسے ایک ملزم سے تفتیش کی جارہی ہے تو پھر کیسے یہ تصور کرلیا جائے کہ یہ کمیشن انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ ون مین اور ون سائیڈڈ کمیشن ہے جس پر ہمیں اعتماد نہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ کسی بھی ایس ایچ او کی جانب سے ڈرائے جانے سے مرعوب نہیں ہونگے۔

شعیب سڈل کمیشن کی رپورٹ بلاجواز ہے اور اس میں کئی ایسے امور کو چھیڑا گیا ہے جس کا کمیشن کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں، انھوں نے کہا کہ کمیشن نے بددیانتی کے تحت بحریہ ٹائون کے تحت چلنے والے فلاحی منصوبوں کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہم اس سلسلے میں کسی دبائو میں نہیں آئینگے۔ ہماری کوشش ہے کہ غریب عوام کیلیے چلنے والے فلاحی منصوبے کسی طرح بھی متاثر نہ ہوں۔ کمیشن اس بارے میں کسی قسم کی رپورٹ تیار کرنے کا مجاز نہیں تھا کہ بحریہ ٹائون کی جانب سے کن لوگوں کو مکانات دیے گئے اور نہ اس کے پاس اس سلسلے میں کوئی انکوائری کرنے کا اختیار ہے۔

انھوں نے کہا کہ مجھ پر ٹیکس چوری کا الزام بے بنیاد ہے،میں نے زندگی میں کبھی ٹیکس چوری نہیں کیا بلکہ بحریہ ٹائون کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے بھی تنخواہ وصول کی۔ اس پر بھی کروڑوں روپے انکم ٹیکس ادا کیا، اس کے علاوہ بحریہ ٹائون نے گزشتہ سولہ برس میں کروڑوں روپے ٹیکس خزانے میں جمع کرایا۔ ملک ریاض نے کہا کہ اس رپورٹ میں بحریہ ٹائون کو120ارب روپے کا نادہندہ ظاہر کرکے شعیب سڈل نے ارسلان افتخار کی خوشامد کی انتہا کردی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں