تباہ کن موسمیاتی تبدیلیاں اور پاکستان

1990ء سے 2015ء تک صرف 25 برسوں میں زمینی درجہ حرارت میں اعشاریہ 43 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا


محمود عالم خالد September 02, 2016

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل نے اپنی پانچویں تجزیاتی رپورٹ میں اس امرکو واضح کردیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں میں ہونے والے مسلسل اضافے کو نہ روکا گیا تو 2100 تک عالمی درجہ حرارت میں 3.7 سے 4.8 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوجائے گا جو کرہ ارض کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ فوسل فیول کے ذریعے ہونے والی اقتصادی ترقی کے باعث 2010 میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ایک ارب ٹن سالانہ تک پہنچ گیا تھا، کرہ ارض کی تاریخ میں اس اضافے کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

1990ء سے 2015ء تک صرف 25 برسوں میں زمینی درجہ حرارت میں اعشاریہ 43 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا جب کہ موجود صدی کے آخری پندرہ برسوں میں سے 9 سال تاریخ کے گرم ترین سال قرار دیے گئے۔ جس میں 2015ء کو سب سے گرم ترین سال قرار دیا گیا۔ واضح رہے کہ درجہ حرارت کو ریکارڈ کرنے کا سلسلہ 19 ویں صدی میں شروع ہوا تھا۔

رواں سال 2016ء کی ابتداء ہی سے درجہ حرارت میں اضافے کے پچھلے ریکارڈ ختم ہونا شروع ہوگئے۔ سال کے پہلے 6 مہینوں میں کرہ ارض پر گرمی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ناسا کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 مہینوں میں زمین کا اوسط درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کے اوسط درجہ حرارت سے 1.3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ جنوری فروری کے مہینوں میں بھی ہوا میں گرمی کا تناسب سب سے زیادہ رہا، فروری ریکارڈ شدہ تاریخ کا گرم ترین مہینہ قرار پایا۔ اپریل 2016ء کو تاریخ کا سب سے گرم ترین اپریل قرار دیا گیا۔

مئی بھی ریکارڈ کردہ تاریخ میں گزرے تمام مئی کے مہینوں سے زیادہ گرم رہا، اس حوالے سے ہندوستان کی صحرائی ریاست راجھستان کے علاقے فالودی میں 19 مئی کو درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا جو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے گرم ترین دن قرار پایا۔ اسی ماہ آرکٹک کے علاقے میں برف کی ریکارڈ کمی دیکھی گئی، آرکٹک کی برف میں ریکارڈ کمی پہلی مرتبہ 2012ء میں دیکھی گئی تھی۔

واضح رہے کہ سائنسدانوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ 2040ء میں آرکٹک برف کے بغیر موسم گرما کا سامنا کرے گا۔ 14 گزرے جون کے مہینوں کی طرح رواں سال جون میں بھی کرئہ ارض کا اوسط درجہ حرارت ریکارڈ سطح پر پہنچا۔ ناسا کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جولائی 2016ء تاریخ کا گرم ترین مہینہ رہا۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق کویت کے شمالی بنجر اور خشک علاقے مترابہ میں 21 جولائی کو 54 ڈگری درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا جو ایشیا میں سب سے زیادہ گرمی کا نیا ریکارڈ ہے۔ رواں سال میں ہی اب تک درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کے دیگر بڑے واقعات کو دیکھا جائے تو آرکٹک کے علاوہ الاسکا کا درجہ حرارت بھی بلند ترین سطح پر رہا۔ آسٹریلیا میں بھی شدید ترین گرمی کا ریکارڈ قائم ہوا جب کہ امریکی ریاستوں میں بھی موسم بہارکے دوران درجہ حرارت صفر درجہ سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

عالمی موسمیاتی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑے پیمانے پر ہونے والے اخراج کے باعث ان گیسوں کو جذب کرنے کی قدرتی زمینی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں سمندر میں تیزابیت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فاسل فیول کے بڑھتے ہوئے استعمال اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آب و ہوا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس کی وجہ سے موسم شدید سے شدید تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار رواں سال 400 پی پی ایم کا خطرناک ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ جب کہ صنعتی دورکے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں 2015ء میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے۔

عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ 2015-16 میں ایل نینو میں پیدا ہونے والی شدت کے باعث آب وہوا میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات اپنی انتہاؤں کو چھورہے ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق گلوبل وارمنگ کا اصل مرکز سمندر ہیں ۔ جہاں ایل نینوں کی وجہ سے عجیب و غریب تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ نا سا کے ارتھ ڈویژن کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ سمندروں کے پھیلاؤ اور درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ آنے والے برسوں میں عالمی سطح پر ساحلوں کی صورتحال بہت مختلف ہوگی۔

بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کا کہنا ہے کہ موجودہ صدی کے آخر تک سطح سمندر میں 86 سینٹی میٹر تک کا اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ سمندروں کی موجودہ سطح سے ایک میٹر یا اس سے کم سطح پر 150 ملین سے زائد لوگ آباد ہیں جن میں زیادہ تعداد براعظم ایشیا کے لوگوں کی ہے۔ سطح سمندر میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے جن ممالک کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں ان میں پہلے نمبر پر چین، دوسرے پر انڈیا اور تیسرے پر بنگلہ دیش ہے جب کہ بعد کے نمبروں پر ویت نام، انڈونیشیا، جاپان، امریکا، فلپائن، برازیل، مصر اور دیگر شامل ہیں۔ اسی طرح دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے 55 ملکوں میں چین پہلے، امریکا دوسرے ، بھارت تیسرے ، روس چوتھے، جاپان پانچویں اور جرمنی چھٹے نمبر پر ہے جب کہ پاکستان گرین وہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم کا ذمے دار ہے۔

اس صورتحال میں دنیا بھرکی حکومتیں اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ موسمیاتی پیش گوئیاں ممکنہ حد تک درست ثابت ہوں تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے ڈیزاسٹر سے نمٹ سکیں۔ پاکستان دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 غیر محفوظ ملکوں میں شامل ہے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے موسمیاتی مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، جس میں شدید خشک سالی، تباہ کن سیلاب، شدید گرمی ، لینڈ سلائیڈنگ سمیت ملک کی 1050ء کلومیٹر پر محیط سندھ و بلوچستان کی طویل ساحلی پٹی پر سمندری مداخلت میں مسلسل اضافہ جیسے مسائل شامل ہیں جن کے باعث ملک کو شدید معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔

(ٹھٹھہ سمیت مختلف علاقوں میں سمندر لاکھوں ایکٹر زمین ہڑپ کرچکاہے ) اگر گزشتہ ایک دہائی میں آنے والی موسمیاتی آفات کا تخمینہ لگایا جائے تو نقصان اربوں ڈالر میں پہنچے گا، صرف 2010ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے ہونے والا معاشی نقصان 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا تھا۔ ماہرین کے مطابق صحیح پیش گوئی کرنے کے لیے پاکستان کے محکمہ موسمیات کو کم از کم 22 جدید ریڈارکی ضرورت ہے جب کہ محکمہ موسمیات صرف 7 ریڈار سے ہی کام چلا رہا ہے جب کہ دنیا بھر میں پچھلے کئی برسوں سے موسمیات کے ادارے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں اور ہم آج بھی اینا لاگ سسٹم سے کام چلا رہے ہیں۔

حال ہی میں ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں کمیٹی نے متفقہ طور پر محکمہ موسمیات کو موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کے ماتحت کرنے اور 21 نئے ریڈاروں سمیت دیگر جدید سازوسامان کے لیے 9 ارب روپے فراہم کرنے کی سفارش کی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے معاشی اور جانی نقصانات کو کم کرنے کے لیے ہمیں محکمہ موسمیات میں بھرپور سرمایہ کاری کرنی ہوگی کیونکہ سطح سمندر میں ہونے والے اضافے، سیلاب، شدید گرمی کی لہر، شدید بارشوں سمیت ملک کے صحراؤں اور خصوصاً ملک کے شمالی علاقوں میں موجود برف پوش پہاڑوں میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کی صحیح اور بر وقت پیش گوئیاں اسی وقت ممکن ہیں جب ہم روایتی طریقے چھوڑکر جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لائیں گے جس کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا کیونکہ پورا پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں