منہگی دوائیں۔۔۔غریب مریض کہاں جائیں

پاکستان میں ادویات کی قیمتیں زیادہ ہونے کی کیا وجوہات ہیںِ؟ کون ذمے دار ہے؟


صورت حال کے بارے میں کون کیا کہتا ہے، اہم اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت ۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR: افلاس زندگی کی خوشیاں چھین لیتا ہے، غربت انسان کو بے بسی کی تصویر بنا دیتی ہے، مگر ان حالات میں بھی پیٹ بھرنے کی صورت نکل آتی ہے۔ دو وقت کی روٹی محنت کی کمائی سے مل ہی جاتی ہے۔ دیہاڑی نہ لگے تو کسی خیراتی ادارے کے دستر خوان سے نوالے نصیب ہوجاتے ہیں۔

یوں بھی یہ معاشرہ اتنا بے حس اور پتھر دل نہیں کہ ہاتھ پھیلانے پر غریب کو چند سکے نہ ملیں یا کوئی کھانا نہ کھلائے۔ تو یوں سمجھیں کہ پیٹ بھرتا رہتا ہے۔ اور پیٹ بھرتا رہے، تو زندگی اتنی بری نہیں لگتی۔ پیٹ بھر جائے تو خواہشیں بھی سَر اٹھاتی ہیں، امیدیں جنم لیتی ہیں، چھوٹے موٹے خواب پلکوں پر اترنے لگتے ہیں۔ اگر مفلسی کے ہاتھوں رُل کر خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دیا ہو، انسان بھکاری نہ بن گیا ہو، تو بات بن سکتی ہے۔ غریب اور بدحال کو بھی اپنے زورِ بازو پر بھروسا ہو تو چھوٹے موٹے خواب حقیقت کا روپ ضرور دھار سکتے ہیں۔

زندگی بہتر ہو سکتی ہے، مگر جب یہی مفلس اور بدحال کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو زندگی اذیت ناک اور ناقابل بیان حد تک بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ روٹی کا ٹکڑا سڑک کنارے بھی مل جاتا ہے، پیٹ بھرتا رہتا ہے، مگر علاج کی سہولت اور دوا کا حصول اتنا آسان نہیں۔ سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرز اور عملے کی ہمہ وقت موجودگی، مریض پر توجہ، سرکاری سطح پر مفت ادویہ کی فراہمی، شفا خانوں میں عام طبی ٹیسٹ کی سہولیات ایک خواب نہیں غریب و مفلس اور متوسط طبقے کے شہریوں کے ساتھ بھی بھیانک مذاق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اسپتال علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہیں اور غریب نجی شفا خانوں میں علاج کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

ڈاکٹرز کی بھاری فیسیں، منہگے ٹیسٹ جن کی قیمتیں آئے روز بڑھائی جارہی ہیں۔۔۔۔ غریب صرف مر سکتا ہے۔ ایسے میںادویات کی قیمتوں میں اضافہ غریب عوام کو موت سے ہم کنار کرنے کے مترادف ہے، دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کا ذمے دار کون؟ کیا اس سوال کا بوجھ فروخت کنندہ، تیار کنندہ پر اور تیارکنندہ حکومت پر ڈال کر بری الذمہ ہوسکتا ہے؟ یقینا نہیں اس اہم مسئلے کے حل کے لیے حکومتی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ انفرادی پر طور تیار کنندہ سے خوردہ فروش تک سب کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔

اس رپورٹ کی تیاری میں مریضوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی کچھ غیرسرکاری تنظیموں کا موقف بھی جاننے کی کوشش کی گئی لیکن دانستہ یا نا دانستہ طور پر انہوں نے ہمارے سوالوں کے جواب دینے سے اجتناب کیا، تاہم پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اور پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے ذمے داروں نے تمام سوالو ں کے مٖٖفصل جواب دیے جن کی رُو سے قیمتوں میں اضافے کا اہم سبب حکومتی پالیسیاں ہیں جنہیں عوام کے مفاد کے لیے مزید بہتر بنانا اشد ضروری ہے۔

٭حنیف ستار
زونل چیئر مین پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن
یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ ادویات اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کے بجٹ پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن اگر ہم پندرہ سال پہلے کی ادویات کی قیمتوں اور روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی ڈیری مصنوعات، غذائی اجناس، پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس جیسی اہم اشیا کی قیمتوں کا ادویات کی قیمتوں سے تقابلی جائزہ لیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ماسوائے ادویات سب چیزوں کی قیمت میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں قیمتوں میں حالیہ اضافے کی تو اس کے لیے ہمیں تھوڑاسا ماضی میں جانا پڑے گا۔ 1993تک ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی فارمولا نہیں تھا، ادویہ ساز کمپنیاں قیمت میں اضافے کے لیے درخواست کرتے تھے اور قیمت بڑھ جاتی تھی۔ اپنے پہلے دورحکومت میں نوازشریف نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے ایک بھارتی ماڈل کو متعارف کروایا جس کے تحت تمام رجسٹرڈ مصنوعات کو دو حصوں (کنٹرولڈ اور ڈی کنٹرولڈ) میں تقسیم کردیا۔ کنٹرولڈ ادویات میں بین الاقوامی ادارہ برائے صحت ( ڈبلیو ایچ او) کی فہرست میں شامل 821 ادویات کو جب کہ دیگر ادویات کو ڈی کنٹرولڈ کے زمرے میں رکھا گیا۔

اس وقت یہ طے پایا تھا کہ کنٹرولڈ ادویات کی قیمتوں کو وزارتِ صحت جب کہ ڈی کنٹرولڈ ادویات کی قیمتوں کی قیمت کا تعین مارکیٹ کی صورت حال کے مطابق کیا جائے گا۔ اس فارمولے میں ایک انوکھی شق یہ بھی شامل تھی کہ اگر ایک کثیرالقومی کمپنی کی ایک دوا کی قیمت سو روپے اور مقامی کمپنی کی اسی فارمولے پر بننے والی دوا کی قیمت پچاس روپے ہے تو وہ بتدریج اپنی پراڈکٹ کی قیمت کو سو روپے کی سطح پر لے جاسکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مارکیٹ میکانزم کے اس فارمولے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور وزارت صحت کو ڈی کنٹرولڈ ادویات کی قیمتوں کو بھی خود ہی کنٹرول کرنا پڑا۔ 1994میں ایک ایس آر او (نمبر 1038 ) کے تحت ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لیے ایک اور بہت اچھا فارمولا طے ہوا۔



اس فارمولے کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں مقامی افراط زر اور کرنسی کی قدر میں اتارچڑھاؤ جیسے اہم عوامل کے 35اور 65 کے تناسب سے دواؤں کی نئی قیمت کا تعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2001تک اسی فارمولے کے تحت ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا، لیکن 2001کے بعد قیمتوں کو منجمد کردیا گیا۔ قیمتیں نہ بڑھنے اور پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے بہت ساری اہم ادویات بند کردی گئیں، بہت سی کثیرالقومی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے پلانٹ بند کردیے۔ سات سال بعد 2008 میں حکومت نے فارما انڈسٹری کے اس اہم مسئلے کو تسلیم کیا کہ اگر قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو خسارے میں بننے والی بہت ساری ادویات بند ہونے سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔

حکومت نے اس کے لیے ایک پرائس ریویو کمیٹی (قیمتوں پر نظر ثانی کرنے والی کمیٹی) بنائی اور ایک ہارڈ شپ میکینزم کے تحت کچھ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ 2013میں وزارت صحت، فارما بیورو اور پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کی ایک مشترکہ میٹنگ میں ایک اعشاریہ پچیس فی صد سالانہ کے حساب سے دواؤں کی قیمتوں میں 15فی صد اضافے کا ایس آر او نکالا لیکن بدقسمتی سے دوسرے دن ہی وزیراعظم کے حکم پر اس ایس آر او کو واپس لے لیا گیا۔

اگر دیکھا جائے تو حکومت، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان اور وزارتِ صحت کے اپنے ہی بنائے گئے فارمولے کے تحت بارہ سال کے طویل عرصے میں ادویات کی قیمتوں میں94فی صد اضافہ ہونا جانا چاہیے تھا، لیکن ہم نے اس میٹنگ میں پچاس فی صد اضافے کی بات کی جس پر ہمیں کہا گیا کہ فی الحال آپ قیمت میں پندرہ ٖفی صد اضافہ کردیں کیوں کہ ہم ( ڈی آر اے) ادویات کی قیمتوں کو کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) سے مربوط کرنے کا فارمولا لا رہے ہیں۔ اس وقت سی پی ائی دو ہندسوں میں ہوتا تھا اور پاکستانی معیشت کو دیکھتے ہوئے ہمارا (پی پی ایم اے) سی پی آئی کے مستحکم رہنے کا امکان تھا۔

اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ادویہ سازی کی صنعت نے سی پی آئی کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کو تسلیم کرلیا۔ یہاں میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ ایس آر او نمبر 1038میں بھی قیمتوں کو سی پی آئی سے مربوط کرنے کا فارمولا شامل تھا لیکن اسے اگلے روز ہی کینسل کردیا گیا۔ یہ خیال بھی بالکل غلط ہے کہ فارما انڈسٹری نے اس فارمولے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

2015میں حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اگلے ہی دن واپس لے لیا۔ حکومت کے اس غیرسنجیدہ ردعمل کو دیکھتے ہوئے تین سو کے قریب قومی اور کثیرالقومی کمپنیوں نے قیمتوں میں ازخود اضافہ کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لے لیا۔ انہوں نے دوبارہ یہی کیا کہ قیمتیں بڑھا کر واپس لے لیں۔ کمپنیوں نے ازخود 15فی صد اضافہ کرکے سندھ ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لے لیا۔ ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2015 کا ہم نے خیرمقدم کیا کہ دیر آید درست آید، لیکن اس پالیسی میں بھی بہت سی خامیاں ہیں اور ڈی آر اے کے پرائسنگ بورڈ نے بھی ان خامیوں کو

تسلیم کرتے ہوئے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ اس پالیسی کی کچھ شقوں پر نظرثانی کی جائے گی، لیکن آج تک ان پر نظر ثانی نہیں کی گئی۔ اس پالیسی میں ہارڈ شپ، نئی پروڈکٹ کی رجسٹریشن اور قیمتیں متعین کرنے کے لیے جو فارمولے دیے گئے ہیں ان پر عمل درآمد پاکستان کے لحاظ سے مشکل کام ہے۔ قیمتوں میں حالیہ اضافے میں قیمتیں خودکار طریقے سے بڑھنی ہی تھیں لیکن اس میں بھی ڈی آر اے نے بہت ساری رکھی ہیں کہ جناب جن کمپنیوں کے کیس عدالت میں ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔

یہ ہمارے ساتھ بہت ناانصافی ہے۔ اس طرح آپ نے اپنی پالیسی کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ اصولاً تو ہونا یہ چاہیے کہ جب آپ نے قیمتوں میں خود کار طریقے سے اضافے کی پالیسی بنائی تو اس پر قائم رہنا چاہیے۔ دوسرے آپ یہ دیکھیں کہ جو قیمتوں میں اضافے کا جو نوٹی فی کیشن جاری اور اخبارات میں شایع ہوا اس کے تحت شیڈولڈ میڈیسن 1.43فی صد نان شیڈولڈ ادویات پر 2فی صد اضافہ کیا گیا ہے ۔

اب آپ خود ہی دیکھ لیں کہ دودھ، آٹے، شکر اور دیگر بنیادی اشیائے ضروریہ قیمتوں میں تو میں ہر سال دس سے بارہ فی صد اضافہ ہوتا ہے، لیکن ادویات کی قیمتوں میں آپ 1.43فی صد سے زیادہ اضافے نہیں کرسکتے، جب کہ فارما انڈسٹری کواپنے پلانٹ، تحقیق اور معیار کو برقرار رکھنے کے لیے کافی اخراجات کرنے پڑتے ہیں، دوسری جانب ڈی آر اے نے اپنی رجسٹریشن فیس میں بھی ڈیڑھ سو فی صد اضافہ کردیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں عوام کی تکالیف کا اندازہ نہیں، کیوں کہ یہ بات حقیقت ہے کہ دوا کوئی شوق سے نہیں کھاتا، لیکن بجلی، گیس اور دیگر اخراجات میں ہونے والا اضافہ ادویات کی پیداواری لاگت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

متعلقہ حکام کو چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملا کر ایک کمیٹی بنائی جائے اور مسائل کا ایسا حل نکالا جائے جو عوام اور ہمارے دونوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ ایک بات اور بتادوں کہ فارما انڈسٹری کے مسائل کے لیے اب تک جتنی بھی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں اُن میں ہمیں رکن کے بجائے ایک آبزرور (مبصر) کی حیثیت سے شامل کیا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے مسائل اور ان کے حل کے لیے ہمارے مشوروں کو سُنی ان سُنی کر دیتے ہیں۔ پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والی فارما انڈسٹری کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ بات ماننے میں بھی کوئی عار نہیں کہ کچھ کمپنیاں غیرمعیاری کام کر رہی ہیں اور ہم نے خود کئی بار ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے ایسی کمپنیوں کے لائسنس کینسل کرنے کی سفارش کی ہے۔

فارما انڈسٹری کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں ایک غلط تصور یہ بھی ہے کہ ڈاکٹرز کو پروموشن کے نام پر دی جانے والی مراعات بھی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے، ہر پراڈکٹ کی طرح دواؤں کے لیے اشتہار کاری (ایڈورٹائزنگ) کا بجٹ مخصوص کیا جاتا ہے، لیکن ادویات کی ایڈورٹائزنگ پر پابندی کی وجہ سے اس رقم کو ڈاکٹروں کے لیے تحائف، فری سیمپلز، فری کلینکس، کلینیکل ٹرائلز، سیمینارز وغیرہ پر صرف کیا جاتا ہے، لیکن اس پروموشن کا دورانیہ بھی ایک برس ہوتا ہے۔ بہت سی کمپنیاں پراڈکٹ کی تشہیر کے لیے غیراخلاقی کام بھی کرتی ہیں جن کی ہم شکایات بھی کرتے رہتے ہیں۔ حکومت نے فارما انڈسٹری پر پابندی عاید کی ہے کہ کمپنیز اپنی سیل کا پانچ فی صد سے زیادہ پروموشن پر خرچ نہیں کرسکتیں جو کہ غلط ہے، کیوں کہ بین الاقوامی سطح پر نئی پروڈکٹ کی تشہیر کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔

پہلے سال اس کام کے لیے میں پندرہ بیس فی صد بجٹ رکھا جاتا ہے جو کہ بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے ہم کوئی انوکھا کام نہیں کر رہے۔ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان جیسی ایک بڑی مارکیٹ ہمارے ہاتھ سے تقریباً نکل چکی ہے اور افغان حکومت نے پاکستانی ادویات پر ڈیوٹی اور رجسٹریشن کے قوانین بہت سخت کردیے ہیں، جب کہ بھارتی کمپنیز کو بہت سی مراعات حاصل ہیں اور دوسری بات یہ کہ ان کی پیداواری لاگت کم ہونے کی وجہ سے قیمتیں بھی کم ہے۔ بھارتی حکومت فارما سیوٹیکل کی صنعت کو نہ صرف بہت ساری مراعات دیتی ہے بل کہ وہ اپنی ادویات میں مقامی طور پر تیار کردہ خام مال استعمال کرتے ہیں۔ ہم افغانستان کے راستے وسطِ ایشیا کی مارکیٹ تک پہنچ سکتے تھے۔ پاکستان میں ادویہ سازی کی صنعت اور مریضوں کو بھارت، چین اور بنگلادیش سے آنے والی غیرمعیاری اور نقلی ادویات جیسے سنگین مسئلے کا سامنا بھی ہے۔

یہ خیال بھی عام ہے کہ جنوب ایشیائی خطے کی نسبت پاکستان میں دوائیں منہگی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کچھ ادویات کی قیمتیں خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم بھی ہیں۔ بھارت میں قیمت کم ہونے کی سب سے اہم وجہ خال مال کا مقامی طور پر تیار ہونا ہے جب کہ ہم سارا خام مال برآمد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پیداواری لاگت قیمت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

ہمارے پاس خام مال کی تیاری کی بنیادی ٹیکنالوجی نہیں ہے ہاں اگر حکومت چاہے تو کسی غیرملکی کمپنی کے ساتھ مل کر اسے مراعات دے تو نہ صرف ادویات کی قیمتوں میں کمی سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا، بل کہ غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا۔

یہاں تو یہ حال ہے کہ 1965 کی جنگ کے بعد ایک امریکی کمپنی نے اپنی حکومت کے ایما پر پاکستان میں اسٹیچنگ انسٹرومنٹ (زخموں پر ٹانکا لگانے والا دھاگا) بنانے کا پلانٹ لگایا، لیکن حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کمپنی اپنا پلانٹ فروخت کرکے چلی گئی۔ اگر حکومت ہمیں خام مال، پلانٹ مشینری کی برآمدات میں ڈیوٹی کی مد ہی میں ریلیف دے تو یقیناً اس کا فائدہ دواؤں کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں ظاہر ہوگا، جس کا بالواسطہ فائدہ عام آدمی کو بھی ہوگا اور ہمیں بھی۔

٭غلام ہاشم نورانی
چیئرمین پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن
ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن (پی سی ڈی اے) کے چیئرمیں غلام ہاشم نورانی کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے نوٹی فیکیشن اور کچھ ادویات کی قیمتوں میں سو فی صد سے زاید اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے ہمیں اس کا پس منظر جاننا ہوگا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی پرائس کمیٹی نے شیڈولڈ ادویات پر 1.43فی صد، نان شیڈولڈ ادویات پر 2 فی صد اور لو پرائسڈ ڈرگز پر 2.86فی صد اضافے کی منظوری دی، لیکن کچھ ادویات ایسی ہیں جن کی قیمتوں میں ادویہ ساز کمپنیوں نے من مانا اضافہ کرکے سندھ ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لے لیا، جن ادویات کی قیمتوں پر اسٹے آرڈر لیا گیا۔

ان میں بخار، نزلہ زکام، وٹامنز، ہیپاٹائی ٹس، کینسر اور دیگر اہم جان بچانے والی ادویات شامل ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی عدالت میں کیس ہونے کے سبب کچھ کرنے سے قاصر ہے اور ہم بھی اس وجہ سے خاموش ہیں، لیکن پی سی ڈی اے نے عوام کو سستی ادویات کی فراہمی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں ایک کیس دائر کر رکھا ہے، جس میں ہمارا موقف یہی ہے کہ ادویہ ساز کمپنیاں برانڈ نیم کے بجائے جینرک نام سے ادویات تیار کریں اور پورے ملک میں ایک جینرک (فارمولے) کی قیمت ایک ہی ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر ایک ملٹی نیشنل کمپنی اپنا جینرک 'پیرا سیٹامول' کا ڈبا اپنے برانڈ نام سے تین سو روپے میں فروخت کررہی ہے تو دوسری کمپنی اسی جینرک 'پیراسیٹامول' کو 150روپے میں فروخت کر رہی ہے۔ اگر یہی دوا برانڈ نام کے بجائے 'پیراسیٹامول ' کے نام سے فروخت ہو تو مریض نصف سے بھی کم قیمت میں معیاری دوا خرید سکے گا۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2015کے تحت ادویات کی قیمتوں کو کنزیومر پرائسنگ انڈیکس (سی پی آئی) سے مشروط کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے لیے تو بالکل صحیح ہے ، کیوں کہ اس طرح ادویات کی قیمتوں میں سی پی آئی کے حساب سے سالانہ اضافہ ہوگا۔ حکومت نے دس سال قبل بھی یہ فارمولا ادویہ ساز کمپنیوں کے سامنے پیش کیا تھا، لیکن اُس وقت اِس فارمولے سے متفق نہ ہوکر ان کمپنیوں نے غلطی کی تھی، کیوں کہ اگر اُس وقت ادویات کی قیمتوں کو سی پی آئی سے مشروط کردیا جاتا تو اس حساب سے ادویات کی قیمتوں میں دس سے پندرہ فی صد اضافہ ہوچکا ہوتا۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہ فارمولا عام آدمی کے لیے نقصان دہ ہے۔

کیوں کہ اس طرح ہر پراڈکٹ کی قیمت میں اضافہ زیادہ اور کمی بہت ہی کم ہوگی، کیوںکہ بین الاقوامی منڈی میں خام مال کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ کا براہ راست فائدہ عام صارف تک منتقل نہیں کیا جاتا۔ تھائروکسین، لینوکسن، اینجی سڈ، فالک ایسڈ اور اس جیسی درجنوں ادویات جو کچھ عرصے قبل تک انتہائی ارزاں نرخوں پر دست یاب تھیں اب یا تو وہ بلیک میں فروخت ہورہی ہیں یا ان کی قیمتوں میں چار سو سے پانچ سو فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ پی سی ڈی اے نے اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھایا ہے، لیکن اب تک ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

یہاں میں آپ کو اس حوالے سے ایک واقعہ سناتا ہوں، چند سال قبل جب ادویات پر پندرہ فی صد جنرل سیلز ٹیکس لگایا گیا تو ہم نے اس کے خلاف ملک بھر میں ہڑتال اور بھرپور احتجاج کیا۔ ہمارے مسائل جاننے کے لیے اس وقت کے کچھ حکومتی عہدے داروں نے ہم سے ملاقات کی اور ایک انوکھی منطق پیش جو کچھ اس طرح تھی: ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے، اس سے تو آپ کا فائدہ ہی ہے، یہ تو عوام کے لیے مسئلہ ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہم بیٹھے ہیں۔ آپ اس معاملے میں زیادہ پریشان نہ ہوں۔ اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ یہ بات سننے کے بعد ہم کیا کر سکتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں بہت زیادہ طاقت ور ہیں اور اثرو رسوخ رکھتی ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں ہمارے اختیارات بہت کم اور محدود ہیں، لیکن ان تما م تر نامساعد حالات کے باوجود ہم مریضوں کی فلاح کے لیے ممکنہ حد تک اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا ایک اہم سبب پروموشن کے نام پر ڈاکٹر حضرات کو دییے جانے والے قیمتی تحائف اور دیگر مراعات بھی ہیں۔ نہ صرف ملٹی نیشنل بل کہ اب تو ملکی ادویہ ساز کمپنیاں بھی اپنی ادویات تجویز کرنے پر ڈاکٹر حضرات کو کلینکس کی تزئین وآرائش، قیمتی موبائل فونز، پنج ستارہ ہوٹلز میں ظہرانے اور عشائیے سے لے کر بیرون ملک کے تفریحی دورے تک کروا رہی ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا ایڈورٹائزمنٹ (اشتہار کاری) کا بجٹ دوا کی لاگت کا تیس سے چالیس فی صد کا ہوتا ہے لیکن ادویات کی تشہیر پر پابندی کی وجہ سے کمپنیاں یہی بجٹ پرومشنل ایکٹی ویٹی کے نام پر ڈاکٹروں پر خرچ کرتی ہیں۔

کچھ لو کچھ دو کے اصول کے تحت ڈاکٹر ان قیمتی تحائف اور مراعات کے بدلے مریضوں کو اسی کمپنی کی دوا تجویز کرتے ہیں، جو ان پر زیادہ خرچ کرتی ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کا یہی غلط اصول قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ پاکستان میں 1972 سے پہلے دوائی کا جینرک نام تجویز کرنے کا قانون تھا۔ اگر ادویات کو پہلے کی طرح جینرک نیم پر لے آیا جائے تو ادویات کی قیمتوں میں ویسے ہی پچاس سے ساٹھ فی صد کمی ہوجائے گی، کیوں کہ مارکیٹ میں سو روپے قیمت والا جینرک تیس روپے میں بھی دست یاب ہے اور یہ ستر فی صد کا فرق ڈاکٹروں کی جیب میں جاتا ہے، جو کمپنی ڈاکٹر جتنا خرچ کرتی ہے۔ اس کمپنی کی ادویات اتنی ہی زیادہ بکتی ہیں۔

پروموشن کے نام پر مریضوں کے ساتھ کھیلے جانے والے اس کھیل کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پنجاب اور سندھ میں بننے والی غیرمعیاری ادویہ ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو نقد رقم، بیرون ملک ٹورز اور کلینک کی تزئین و آرائش کا لالچ دے کر وہ ادویات تجویز کرنے پر بھی مجبور کرتی ہیں جن کے معیار کے بارے میں زیادہ تر ڈاکٹروں کو الف بے تک معلوم نہیں۔ اس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کو پاکستان سے بھیجے گئے دواؤں کے سترہ نمونوں میں سے گیارہ سب اسٹینڈرڈ (غیرمعیاری) نکلے، ان نمونوں میں چند نامی گرامی کمپنیوں کی ادویات بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر فیروز پور روڈ، رائیونڈ روڈ اور کراچی کے مضافاتی علاقوں میں قائم مقامی غیرمعیاری ادویہ ساز کمپنیوں میں بننے والی دوا کی قیمت چار سو روپے ہے، لیکن ان کی خوردہ قیمت ہول سیل مارکیٹ میں بیس تیس روپے سے زیادہ نہیں ہے۔

اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ دو تین سو روپے دیہاڑی پر کام کرنے والا مریض ڈاکٹر کے تجویز کرنے پر ایک غیرمعیاری دوا کو چالیس روپے میں خرید رہا ہے، جب کہ یہی دوا اسے نصف سے بھی کم قیمت میں مل سکتی ہے۔ کچھ ڈاکٹر یہی غیرمعیاری ادویات چند پیسوں کے لالچ میں بلاضرورت بھی تجویز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ادویہ ساز کمپنی، ادویہ کے تھوک فروش، تقسیم کار، خوردہ فروش کے لیے تو قوانین ہیں لیکن ڈاکٹروں کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ کہ اسی سے نوے فی سد ڈاکٹر سادہ پرچی پر نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔

زیادہ تر ڈاکٹر مرض دیکھ کر نہیں مریض کی جیب دیکھ کر دوا تجویز کرتے ہیں۔ وہ اپنے کمیشن کے چکر میں مریضوں کو بلا ضرورت دوائیں لکھ دیتے ہیں، کچھ ڈاکٹر تو ایسے بھی ہیں جو ایک ہی جینرک کی دو مختلف نام کی دوائیں بھی لکھ دیتے ہیں۔ بہت سے ڈاکٹر اپنی فیس کے بجائے میڈیسن کمپنیوں کی جانب سے ملنے والے کمیشن پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر پر چیک اینڈ بیلنس کے لیے کوئی قانون ہونا چاہیے۔ برانڈ نیم کے فروغ اور جینرک کی حوصلہ شکنی میں ڈاکٹروں کا عمل دخل زیادہ ہے، کیوں کہ اگر جینرک نیم رائج ہوگا تو ان کا کمیشن مارا جائے گا۔

پاکستان میں ادویہ ساز کمپنیوں کے معیار اور قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈی آر اے) کے نام سے ایک ادارہ قائم تو ہے لیکن وہ بھی ان کے (فارما سیوٹیکلز) کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ 2010میں ڈی آر اے کی پرائس کمیٹی نے نو کمپنیوں کو ہارڈ شپ کیس پر نئی قیمتیں دیں، لیکن اس کے دوسال بعد نیب نے اس پر ایکشن لیا اور ان تمام کمپنیوں اور پرائس کمیٹی کے افسران پر کیس بنا کر یہ الزام عاید کیا کہ یہ نئی قیمتیں رشوت کے عوض منظور کی گئیں۔

یہ کیس ابھی تک نیب میں چل رہا ہے۔ تاہم اس کے بعد سے پرائس کمیٹی بہت محتاط ہوگئی اور جو کمپنی قیمت میں اضافے کے لیے اس کے پاس گئی تو اس نے ہی ان کمپنیوں کو راستہ دکھایا کہ آپ ہائی کورٹ چلے جائیں اور وہاں سے قیمت لے لیں، ہم نہیں دے سکتے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ قیمتوں میں حالیہ اضافے کے لیے ڈی آر اے اور ادویہ ساز کمپنیوں کے درمیان پہلے ہی معاملات طے پا گئے ہوں۔

پاکستان میں مریضوں کو ایک طرف دوائیں منہگی مل رہی ہیں تو دوسری طرف انہیں بھارت، چین اور بنگلادیش سے برآمد ہونے والی غیرمعیاری اور نقصان دہ ادویات کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔ غیرمعیاری اور جعلی ادویات کے لیے گذشتہ سال وفاقی تحقیقاتی ادارے کی کارروائی نے ان جرائم پیشہ اور جعل سازوں کی کمر توڑ دی تھی، کروڑوں روپے کا مال ضبط ہوا۔ اب یہ لوگ میڈیسن مارکیٹ چھوڑ کر چھانٹی گلی یا موتن داس مارکیٹ میں چلے گئے ہیں اور یہ مارکیٹیں ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں، صرف لائسنس ہولڈرز مارکیٹیں ہی ہمارے دائرہ اختیار میں ہیں۔

ہم نے سیکریٹری صحت کو تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کا لائسنس رکھنے والے افراد ہی کو لائسنس جاری کیے جائیں اور اس کے بعد ان سب کی ذمے داری ہم پر عاید ہوگی، کیوں کہ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ کس بندے کا کیا پس منظر ہے، لیکن حکومت نے ہماری بات نہیں مانی۔ اب تو یہ حال ہے کہ دونمبر لوگ برساتی مینڈک کی طرح کسی لائسنس کے بغیر ہربل یا جنرل اسٹور کے نام پر دکان کھول کر نقلی، غیرمعیاری اور غیر ممنوع ادویات فروخت کرتے ہیں۔ چھاپا پڑ جائے تو وہ یہ جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ اپنا دھندا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ادویات بھارت اور بنگلادیش کے مقابلے میں منہگی ہیں۔ ایک کثیر القومی کمپنی کی دوا وہاں اگر دس روپے کی ہے تو اُسی کمپنی کی وہی دوا پاکستان میں اسی نوے روپے کی فروخت ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بھارت میں مقامی خام مال استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ پاکستان میں تقریباً سارا خام مال امپورٹ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی قیمتوں میں اتنا فرق نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری جانب ان کمپنیوں کا پاکستان میں قیمتیں زیادہ رکھنے کا ایک مقصد دواؤں کی جنوبی افریقا، تنزانیہ جیسے ممالک میں اسمگلنگ روکنا بھی ہے، کیوں کہ پاکستان میں دواؤں کی قیمتیں بھارت کی نسبت زیادہ ہیں تو دوسرے بہت سے ممالک کی نسبت کم بھی ہیں۔ پاکستانی ادویات کے لیے افغانستان بھی ایک بہت بڑی منڈی تھی، لیکن اب وہاں کی میڈیسن مارکیٹ پر بھی بھارتی ادویہ ساز کمپنیوں کا تسلط ہوگیا ہے۔ لیکن میں ایک بار پھر کہوں کہ گا خام مال کی بنیاد پر قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ معدے کی تکلیف کے لیے ایک کیپسول ہے جس کا جینرک نام (اومی پرازول) ہے، یہ پاکستان کا بہت بڑا برانڈ ہے۔ اس کے چودہ کیپسولز کی لاگت تقریباً آٹھ روپے ہے۔

اب اس لاگت میں اس کی پیکنگ بھی ہے، کیپسول بھی ہے، لٹریچر بھی ہے۔ اس میں موثر اجزا 20سے تیس فی صد اور باقی غیرموثر اجزا ہوتے ہیں۔ یعنی موثر جز کی لاگت دو روپے آتی ہے، لیکن اوپن مارکیٹ میں نان پروموشنل کمپنیاں اس کیپسول کو چودہ سے پندرہ روپے فی بکس میں فروخت کر رہی ہیں، جب کہ پروموشنل کمپنیاں ایک سو چالیس سے ایک سو پچاس میں بیچ رہی ہیں، جب کہ اس فارمولے میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے چودہ کیپسول کے ڈبے کی قیمت سات سو روپے سے زاید ہے۔ پاکستان میں مریضوں کو درپیش ایک اور اہم مسئلہ ڈاکٹروں کو فراہم کی جانے والی ادویات کے فری سیمپلز ہیں، جو مرکزی میڈیسن مارکیٹ اور میڈیکل اسٹورز پر کھلے عام فروخت ہورہے ہیں۔

یہ سب کام میڈیسن مارکیٹ میں کھلے عام دھڑلے سے جاری ہے۔ ان ادویہ کی سب سے زیادہ کھپت اندرون سندھ میں ہے۔ کراچی میں ان کی فروخت بہت کم ہے اور وہ بھی مضافاتی اور پس ماندہ علاقوں میں۔ ہم اس کام کے تدارک کے لیے وقتاً فوقتاً وارننگ دیتے رہتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ سیمپل کا کام کرنے والے ہربل، جنرل اسٹورز کے نام پر بنا کسی لائسنس کے یہ کام کر رہے ہیں اور چھپ چھپا کر اندر ہی اندر یہ کام ہورہا ہے۔ ماضی میں بھی ان کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے اس کام میں کمی ہورہی ہے، لیکن ان کے مکمل خاتمے کے لیے مستقل مزاجی سے کام کرنا پڑے گا۔ بنیادی طور پر یہ کام ڈرگ انسپیکٹرز کے کرنے کا ہے۔

نئی قیمت کا اسٹیکر لگانا غیر قانونی!
ہمارا ہمیشہ سے یہی المیہ رہا ہے کہ کسی بھی چیز کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی ذخیرہ اندوز سرگرم ہوجاتے ہیں۔ بہت سی مافیا کی طرح ایک مافیا اسٹیکر مافیا بھی ہے جو کسی بھی شے کی قیمت بڑھتے ہی پرانی قیمتوں پر نئی قیمت کا اسٹیکر چسپاں کر نا شروع کردیتی ہے۔ اسٹیکر مافیا کے اس طرز عمل سے ایک طرف ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہوتی ہے تو دوسری جانب غریب مریضوں کو ادویات کی خریداری کے لیے اضافی رقم بلاوجہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ حکومت پاکستان کی نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اور کوآرڈی نیشن کی وزارت کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کے جاری ہونے والے ایس آر او نمبر 628(I)/2016 کے مطابق'کسی بھی تیار کنندگان، درآمد کنندگان، خوردہ فروش، ہسپتال، کلینکس، تھوک فروش اور تقسیم کنندگان کو پہلے سے پرنٹ شدہ قیمت کو مٹانے اور نئی قیمت کا اسٹیکر لگانے کی اجازت نہیں ہے۔



تاہم تیار کنندگان اپنے پیکیجینگ میٹریل کو بچانے کے لیے پرانی پیکنگ پر درج قیمت ہٹاکر لیزر پرنٹر کے ذریعے نئی قیمت پرنٹ کر سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نوٹی فیکیشن کی تاریخ اجرا سے قبل تیار کیے گئے ہوں۔ اور نہ ہی مارکیٹ میں سپلائی کیے گئے بیچز کو دوبارہ اٹھانے کی اجازت ہے۔ نظر ثانی شدہ ادویات کی قیمت ڈرگزلیبلنگ اور پیکنگ کے 1986کے رولز کے مطابق پرنٹ کی جائیں گی۔ پہلے سے منظور شدہ قیمتوںکی مصدقہ فہرست کے ساتھ یہ حلف نامہ بھی جمع کرایا جائے گا کہ قیمتوں میں اضافے کی کیلکولیشن ڈرگ پرائسنگ پالیسی2015 کے مطابق اور وفاقی حکومت کی منظوری سے کی گئی ہے۔ '

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔